روشن ستارے
حضرت سیّدُنا حارث بن ہشام رضی اللہُ عنہ
* مولاناعدنان احمد عطاری مدنی
ماہنامہ مارچ2021
ایک روایت کے مطابق حضور نبیِّ کریم رءوف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی سواری پر سوار سَرزمینِ مکہ سے یہ ارشاد فرمارہے تھے : اللہ کی قسم! بے شک! تو بہترین سر زمین ہے اورمیری محبوب ترین زمین ہے اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا ، مکے کے رہائشی ایک صحابی نے عرض کی : کاش! قبول اسلام سے پہلے ہم نے آپ کو مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور نہ کیا ہوتا ، آپ واپس لوٹ آئیے کیونکہ یہ سرزمین آپ کی جائے پیدائش اور مقامِ پرورش ہے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے ربِّ کریم سے سُوال کیا تھا کہ اے اللہ! تُو نے مجھے میری محبوب زمین سے نکالا ہے تُو مجھے اپنی محبوب زمین میں بھیج ، لہٰذا اللہ کریم نے مجھے مدینے میں بھیج دیا۔ ([i]) پیارے اسلامی بھائیو! مکے میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی واپسی کی خواہش کا اظہار کرنے والے یہ معزز صحابی ، حضرت سیّدُنا حارث بن ہشام رضی اللہُ عنہ تھے جوکہ فتحِ مکہ کے موقع پر ایمان لے آئے تھے۔ آپ رضی اللہُ عنہ مشہور کافر ابو جہل کے بھائی اور حضرت سیّدُنا خالد بن ولید رضی اللہُ عنہ کے چچا کے بیٹے اور حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کی والدہ حَنْتَمَہ کے چچا زاد ہیں یوں آپ حضرت عمر فاروق کے ماموں ہوئے۔ ([ii])
مناقب : آپ رضی اللہُ عنہ کا شمار عالم فاضل صحابہ میں ہوتا ہے([iii]) آپ دورِ جاہلیت اور زمانۂ اسلام دونوں میں معزز تھے([iv]) اسلام لانے کے بعد آپ رضی اللہُ عنہ سے کبھی کوئی ناپسندیدہ بات نہیں دیکھی گئی۔ ([v])
قبولِ اسلام : ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں ارشاد فرمایا : حارث شریف آدمی ہے اس کا باپ بھی شریف آدمی تھا ، میری خواہش ہے کہ اللہ کریم حارث کو دینِ اسلام کی ہدایت دے۔ ([vi]) اس چاہت کا ظہور فتحِ مکہ کے موقع پر کچھ یوں ہوا کہ آپ حضرت سیّدُنا علی رضی اللہُ عنہ کی بہن حضرت سیّدَتُنا اُمِّ ہانی رضی اللہُ عنہا سے امان طلب کرکے ان کے گھر میں پناہ گزیں ہوگئے اور ان کی حفاظت میں آگئے ، حضرت سیّدُنا علی رضی اللہُ عنہ گھر میں داخل ہوئے اور آپ پر نظر پڑی تو تلوار تان لی اور آپ کو قتل کرنے کے لئے حملہ کر کے آپ کو گردن سے پکڑ لیا ، یہ دیکھ کر حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہُ عنہا نے عرض کی : سب کے سامنے یہ کرکے آپ میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کررہے ، حضرت علی رضی اللہُ عنہ یہ کہتے ہوئے باہر آگئے کہ تم نے مشرکین کو پناہ دی ہے۔ حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہُ عنہا بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں اور پوری بات عرض کردی ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ہم نے ہر اس شخص کو پناہ دی جسے تم نے پناہ دی ، ہم نے ہر اس شخص کو امان دی جسے تم نے امان دی۔ حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہُ عنہا واپس آئیں اور آپ کو خبر دی ، یہ سُن کر آپ اپنے گھر لوٹ آئے۔ ([vii]) آپ فرماتے ہیں : اب رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے جاتے ہوئے مجھے حیا آنے لگی کیونکہ حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے ہر جگہ مشرکین میں پایا تھا ، پھر مجھے حُضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حُسنِ سلوک اور شفقت و مہربانی یاد آنے لگی آخر کار مسجدِ حرام میں میرا رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سامنا ہوا ، نورِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھ سے خندہ پیشانی سے ملے اور ٹھہر گئے یہاں تک کہ میں نے سلام کیا اور کلمۂ حق پڑھ کر مسلمان ہوگیا ، شہنشاہِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے تمہیں ہدایت سے سرفراز کیا ، تم جیسا شخص اسلام سے دور نہیں رہ سکتا تھا۔ آپ نے عرض کی : اللہ پاک کی قسم! اسلام (ایسا مذہب ہے کہ اس) سے کوئی دور نہیں رہ سکتا۔ ([viii])
انگارہ : ایک بار آپ رضی اللہُ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : میں رشتہ داروں سے اچھا برتاؤ کرتا ہوں ، پڑوسیوں پر احسان کرتا ہوں ، یتیموں کو پناہ دیتا ہوں ، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتا ہوں اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا ہوں ، اور یہ سب کچھ میرا (کافر) باپ ہشام بن مغیرہ بھی کرتا رہا ہے اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ہر وہ قبر جس میں دفن شخص (دنیا میں) لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ کی گواہی نہیں دیتا تھا وہ آگ کا دہکتا ہوا انگارہ ہے۔ ([ix])
زبان پر قابو : ایک مرتبہ آپ بارگاہِ رسالت میں یوں عرض گزار ہوئے : مجھے ایسے کام کے بارے میں بتائیے جسے میں مضبوطی سے تھامے رکھوں ، رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اسے قابو میں رکھو۔ ([x])
میدانِ جنگ : سِن 2 ہجری جنگِ بدر میں اسلامی لشکر کے مقابلے میں اپنے بھائی ابوجہل کے ساتھ تھے ، ابو جہل تو مسلمانوں کے ہاتھوں اس جنگ میں ذِلّت کی موت مارا گیا جبکہ آپ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ ([xi]) پھر 3 ہجری معرکۂ اُحد میں مشرکین کے ساتھ نظر آئے اور مسلسل مشرکین کا ساتھ دیتے رہے یہاں تک کہ 8 ہجری میں فتحِ مکہ کے موقع پر مسلمان ہوگئے۔ ([xii]) آپ غزوۂ حُنَین میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ تھے ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مالِ غنیمت میں سے آپ کو 100اونٹ عطا فرمائے۔ ([xiii]) آپ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیات تک مکے میں مقیم رہے([xiv])جب حضرت سیّدُنا صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ نے جہادِ روم میں مصروف مجاہدین کی امداد کے لئے مکۂ مکرمہ خط بھیجا تو مکہ سے حضرت حارث دیگر صحابۂ کرام کے ساتھ مدینے تشریف لے آئے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ ان حضرات کے پاس آئے انہیں سلام کیا ، مرحبا کہا اور ان کے آنے پر خوش ہوئے پھر یہ حضرات دیگر مسلمانوں کے ساتھ غزوۂ شام کے لئے روانہ ہوگئے۔ ([xv]) بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے زمانۂ خلافت میں آپ اپنے گھر والوں اور مال و اسباب کو لے کر ملکِ شام چلے گئے تھے([xvi]) اور مسلسل یہیں جہاد میں مصروف رہے۔ ([xvii]) جب آپ رضی اللہُ عنہ جہاد کے لئے مکہ سے ملکِ شام روانہ ہونے لگے تو اہلِ مکہ بہت زیادہ بے چین ہوگئے اور آپ کو الوداع کرنے کے لئے مکہ سے باہر آگئے مقامِ بطحاء میں ایک بلند جگہ پر پہنچ کر آپ ٹھہر گئے ، سب آپ کے اِرد گِرد جمع ہوگئے ، جب آپ نے ان کی بے تابی اور گریہ وزاری دیکھی تو خود بھی رونے لگے پھر ارشاد فرمایا : اے لوگو! میں یہاں سے اس لئے نہیں جارہا کہ اپنے آپ کو تم سے الگ کرلوں اور نہ ہی اس لئے کہ تمہارے شہر پر کسی دوسرے شہر کو پسند کرتا ہوں ، لیکن یہی حکم تھا ، اگر مکے کا پہاڑ سونے کا ہوتا تو ایک دن بھی نہ گزرتا کہ ہم اسے راہِ خدا میں خرچ کردیتے۔ ([xviii])
واقعہ شہادت : ایک قول کے مطابق آپ رضی اللہُ عنہ ماہِ رجب سِن 15 ہجری جنگِ یَرموک میں شدید زخمی ہوئے ، اسی حالت میں آپ نے پانی طلب کیا تو حضرت عِکرِمہ رضی اللہُ عنہ زخمی حالت میں نظر آئے ، آپ نے پانی پئے بغیر فرمایا : اسے عِکرِمہ کے پاس لے جاؤ ، حضرت عِکرِمہ رضی اللہُ عنہ نے حضرت عَیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہُ عنہ کو زخمی دیکھا تو پانی پئے بغیر فرمایا : پانی ان کے پاس لے جاؤ ، حضرت عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہُ عنہ کے پاس پانی ابھی پہنچا نہ تھا کہ وہ شہید ہوگئے ، یوں تینوں مقدس حضرات پانی پئے بغیر شہادت سے سرفراز ہوگئے۔ ([xix]) اس وقت حضرت حارث رضی اللہُ عنہ کی اولاد اور گھر والوں میں بیٹے حضرت عبد الرحمٰن اور بیٹی اُمِّ حکیم رضی اللہُ عنہما کے علاوہ سب فوت ہوچکے تھے۔([xx])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* سینئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ ، کراچی
Comments