حدیث شریف اور اس کی شرح
نیکیوں میں دیر مت کیجئے
*مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی
ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2023
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا : بَادِرُوا بِالْاعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا ، اَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا ، يَبِيعُ دِينَهٗ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا یعنی اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح کے فتنے ہونے سے پہلے ( نیک ) اعمال میں جلدی کرو۔ ایک شخص صبح مومن ہوگا اور شام کو کافر ، یا شام کو مومن ہو گا اور صبح کافر اور وہ معمولی دنیاکے بدلے میں اپنا دین بیچ ڈالے گا۔ )[1](
اللہ کریم کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بلاشبہ اپنی امت سے بہت محبت فرماتے ہیں جس کا اظہار احادیثِ نبویہ میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ یہ حدیث بھی انہی میں سے ایک ہے۔
مذکورہ حدیث کی شرح میں شارحین ِ حدیث نے جوکچھ ارشاد فرمایا ہے ، اُس کا خلاصہ یہ ہے :
نیک اعمال میں جلدی کرنے کے معنی اور فوائد
کسی چیز کے ختم ہونے سے پہلے اُسے حاصل کرنے یا کسی چیز کے نقصان پہنچانے سے پہلے ہی اُسے دور کرنے کی جلدی ”مبادرت“ کہلاتی ہے۔)[2](
قراٰنِ کریم میں نیکیوں میں جلدی کرنےکو انبیاءِ کرام علیہمُ السّلام کا وصف اور اُن کی قبولیت ِ دعا کی حکمتوں میں سے ایک حکمت قرار دیا گیا ہے۔)[3](
فتنے رات کے مسلسل اندھیروں کی طرح پریشان اور بے چین کردیتے ہیں لہٰذا اِس حدیثِ مبارکہ میں اِن فتنوں کےآنے سے پہلے امن ، نجات اور طاقت کے زمانے میں نیکیاں کرنے میں جلدی کرلینے کا حکم فرمایا گیا ہے۔)[4](
حدیثِ پاک میں جلدی کرنے والے مؤمن کے نیک رہنے کی خبر دی گئی ہے۔)[5]( یعنی بندۂ مومن کو نیک اعمال میں جلدی کرنے کی توفیق ملتی رہتی ہے۔خیال رہے کہ توفیقِ خیر ملنا ربّ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے۔ )[6](
حدیث ِ پاک میں ہے : جو شخص جنت کا شوق رکھتا ہے وہ نیکیوں میں جلدی کرتا ہے۔ )[7](
فتنوں کو اندھیری رات سے تشبیہ دینے کی حکمت
شارحین ِ حدیث نےفتنوں کو اندھیری رات جیساقرار دینے کی یہ حکمتیں بیان کی ہیں :
(1) جیسے اندھیری رات انسان كوبےچین اور پریشان کردیتی ہے ، فتنے بھی اندھیری رات کی طرح مضطرب و پریشان کردیں گے۔)[8](
( 2 ) وہ فتنے اندھیری رات جیسے خوف ناک ہوں گےجن کے آنےکی وجہ اور چھٹکارا پانے کاطریقہ لوگوں کو معلوم نہیں ہوگا۔ فتنے کئی طرح کے ہیں مثلاً قتل وغارت ، شریعت کی طرف سے منع کئے گئے کاموں کی کثرت ، دین و دنیا کے کاموں میں مسلمانوں کا آپس میں اختلاف وغیرہ ، ان فتنوں کے ہوتے ہوئےاچھے کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔)[9](
دو فتنوں کا ذکر : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فتنوں میں سے دو کا ذکر فرمایا ہے :
( 1 ) ایک ہی دن میں انسان میں اتنی بڑی تبدیلی آجائے گی کہ صبح کو مسلمان ہوگا اور شام کو کافریا شام کو مؤمن ہوگا اور صبح کو کافر۔ ظاہر یہ ہے کہ صبح شام سے مراد قریبی اوقات ہیں ، )[10]( بعض لوگ ایسے ڈگمگاجائیں گے کہ ابھی مؤمن ابھی کافر۔ )[11](
( 2 ) دین کو دنیا کے بدلے بیچنا بھی ایک فتنہ ہے اور اِس کی چند صورتیں یہ ہیں : ( ۱ ) مسلمانوں کے دو گروہوں میں صرف غُصَّہ اور عَصَبِیَّت کی وجہ سےقتل و غارت گری ہوگی اور وہ ایک دوسرے کا مال اور خون حلال سمجھیں گے۔ ( ۲ ) ظالم حکمرانوں کی حکومت ہوگی ، وہ مسلمانوں کا خون بہائیں گے ، اُن کے اَموال ناحق لوٹ لیں گے ، بدکاری اور شراب نوشی کریں گے۔ بعض لوگ انہیں حق پرسمجھیں گے بلکہ علمائے سُوء اُن کے حرام کاموں کو جائز قرار دیں گے۔ ( ۳ ) معاملات یعنی خرید وفروخت ، نکاح وغیرہ میں جوخلافِ شرع طریقے رائج ہیں لوگ انہیں حلال سمجھیں گے۔)[12](
پیارے اسلامی بھائیو ! اللہ پاک کے نیک بندوں کی زندگی علم وعمل اوراخلاص سےبھرپور ہوا کرتی ہے ، وہ نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، نیکیوں میں جلدی کرکے اللہ پاک کوراضی کرنااِن حضرات کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔ اِن حضرات کی یہ خوبی بھی قابل ِ تقلید ہے کہ یہ زندگی کے عام سے واقعات سے بہت اہم سبق نکال لیا کرتے تھے چنانچہ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃُ اللہ علیہ نے ایک غلام خریدا اور اُس سے پوچھا : کیاکھاؤ گے ؟ کہنےلگا : آپ جوکھلا دیں گے۔ پوچھا : تمہارا نام کیا ہے ؟ کہنےلگا : آپ جو نام دے دیں۔ پوچھا : کیا پہنو گے ؟ کہنے لگا : مجھے آپ جو پہنادیں۔ پوچھا: کیا کام کر لو گے ؟ کہنے لگا : آپ جوکام دیں گے۔آپ نے ارشاد فرمایا : تمہاری کوئی چاہت نہیں ہے ؟ کہنے لگا : غلام کی اپنے آقا کے ہوتے ہوئے کوئی چاہت نہیں ہوتی۔ پھر حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنے آپ سے فرمایا : اے مسکین ! جس کیفیت میں یہ غلام ہےکیااُس جیسی تیری عمر کی ایک گھڑی بھی اللہ کے لئے گزری ہے ؟ )[13](
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں : کاش ! ہم بھی اپنے خالق و مالک کی بات ماننے والے بندے بن کر نیکیاں کرنے لگ جائیں کیوں کہ فتنوں سے محفوظ رہنے کا راستہ اللہ پاک کی فرماں برداری میں ہے۔ وقت کی قدر کیجئے اور اِسےبے فکری اور بے پروائی میں گزارنے سے بچائیےتاکہ آپ شرمندگی و رسوائی سے محفوظ رہ سکیں۔ذراغور کیجئے کہ ہم اگرنیکیاں کل پر ٹالتے رہیں ، آج کوفضول اور گناہوں بھرے کاموں میں گزارنے پر ڈٹے رہیں اورہمت ، صلاحیت اور وقت تینوں چیزیں گنوا بیٹھیں تو یادرکھئےکہ پھر آپ کے کہنے اور روکنے سے وقت کی گاڑی نہیں رُکے گی لہٰذا وقت کی قدر کیجئے۔نماز کل سے نہیں آج ہی شروع کردیجئے ، روزہ ، زکوٰ ۃ اور حج ذمے پر باقی ہوں تو اِن کو بھی ادا کرلیجئے ، کسی سے کوئی مالی معاملہ ہو تو اِس میں بھی بلاوجہ ٹال مٹول سے کام نہ لیجئے ، کسی کی حق تلفی کی ہو توشرعاً ازالے کی جوصورت بنتی ہو تو اُس کے تقاضے کو پورا کیجئے۔مختصر یہ ہے کہ علمِ دین حاصل کیجئے ، اُس پراخلاص کے ساتھ عمل کیجئے۔
کر جوانی میں عبادت کاہلی اچھی نہیں
جب بڑھاپا آگیا کچھ بات بن پڑتی نہیں
ہے بڑھاپا بھی غنیمت جب جوانی ہوچکی
یہ بڑھاپا بھی نہ ہوگا موت جس دم آگئی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃ العلمیہ Islamic Research Center
[1] مسلم ، ص69 ، حدیث : 313
[2] شرح طیبی ، 10 / 54
[3] تفسیرنسفی ، پ17 ، الانبیآء ، تحت الآیۃ : 90 ، ص725
[4] فی ظلال الحدیث النبوی ، ص103
[5] ابوداؤد ، 4 / 139 ، حدیث : 4270
[6] مراٰۃ المناجیح ، 5 / 225
[7] شعب الایمان ، 7 / 370 ، حدیث : 10618
[8] فی ظلال الحدیث النبوی ، ص103
[9] مرقاۃ المفاتیح ، 9 / 260 ، تحت الحدیث : 5383 ماخوذاً
[10] مراٰۃ المناجیح ، 7 / 212
[11] مرقاۃ المفاتیح ، 9 / ، 260 تحت الحدیث : ما5383 ماخوذاً
[12] شرح طیبی ، 10 / 54 ، تحت الحدیث : 5383
[13] تہذیب الاسرار للخرکوشی ، ص193
Comments