مہمانوں کے بسکٹ

ننھے میاں کی کہانی

مہمانوں کے بسکٹ

*مولانا حیدر علی مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2023

چائے چولہے پر پک رہی تھی جبکہ پاس ہی امّی جان ٹرے میں بسکٹ اور نمکو رکھ رہی تھیں۔ ننھے میاں بھی وہیں کچن میں رکھی کُرسی پر بیٹھے اپنے سوالوں کا سیشن شروع کر چکے تھے۔ دراصل کچھ دیر پہلے ہی گھر میں ایک آنٹی اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ آئی تھیں جنہیں ننھے میاں نے  پہلی بار دیکھا تھا جبکہ مہمانوں کو دیکھ کر امی جان کے چہرے پر سجی خوشی سے لگتا تھا کہ وہ بہت قریبی ہیں اسی لئے اب ننھے میاں اپنی الجھن دور کرنے کے لئے کچن میں امی جان کے پاس ہی بیٹھ گئے تھے۔ یہ آنٹی کون ہیں ؟ ننھے میاں نے پوچھا۔

بیٹا یہ ہمارے پڑوسی رہے ہیں ، وہ جو سامنے والی گلی میں آنٹی زبیدہ ہیں ناں ، ان کے برابر والا گھر انہی کا تھا۔

لیکن میں نے تو انہیں کبھی یہاں رہتے نہیں دیکھا ، آنٹی زبیدہ کے پڑوس میں تو نعمان کا گھرہے جو میرے اسکول میں پڑھتا ہے۔ ننھے میاں کی بات پر امی جان نے مسکراتے ہوئے کہا : بیٹا ! آپ اس وقت ابھی ایک سال کے تھے جب یہ لوگ  یہاں رہتے تھے ، پھر ان کے میاں کا دوسرے شہر میں سرکاری جاب کی وجہ سے تبادلہ (  transfer )  ہو گیا تھا ، اب کافی عرصے بعد ان کا یہاں آنا ہوا ہے تو ملنے چلی آئیں ، چلو اب باتیں چھوڑو اور جا کر ان کے بیٹے کو کمپنی دو اور ہاں اس کا نام علی ہے۔

ننھے میاں باہر صحن میں علی کے ساتھ کھیل رہے تھے جب امی جان کی آواز آئی : علی بیٹا اندر آ جاؤ اپنی امی کے پاس ، چائے تیار ہے۔ یہ سُن کر علی ڈرائنگ روم میں جب کہ ننھے میاں آپی کے پاس چلے گئے۔ مہمان چلے گئے ؟ آپی نے دیکھتے ہی پوچھا تو ننھے میاں بولے : اتنی جلدی کہاں ، ابھی تو امی جان چائے بسکٹ لے کر گئی ہیں۔

آپی : میں ابھی سے بتا رہی ہوں کہ بسکٹ اور نمکو جو بھی مہمانوں سے بچ کر آئے گا وہ ہم دونوں کا آدھا آدھا ہوگا ، پچھلی بار بھی تم نے بھوکوں کی طرح سب کچھ اکیلے ہی کھالیا تھا۔یہ کہہ کر آپی دوبارہ اپنا سبق یاد کرنے لگی۔

اچھا اچھا آنے تو دو ، ننھے میاں نے یہ کہا اور آپی کو پڑھتے دیکھ کر سوچا یہاں بیٹھنے سے اچھا ہے دادی اماں کے پاس چلا جاؤں۔ دادی جان کچھ دیر مہمان آنٹی کے پاس بیٹھ کر واپس  اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں ، ننھے میاں بھی وہیں پہنچ کر دادی اماں سے باتیں کرنے لگے۔کافی دیر گزر گئی تو امی جان اندر آئیں جنہیں دیکھتے ہی ننھے میاں نے پوچھا : آنٹی چلی گئیں ؟ جی بیٹا ، چلی۔۔ امی جان کی بات ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ننھے میاں نے بستر سے چھلانگ لگائی اور ننگے پاؤں کچن کی طرف بھاگے جہاں آپی پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ لیکن لگتا تھا کہ اتنی جلدی میں بھی وہ لیٹ ہو گئے کیونکہ سامنے بسکٹ اور نمکو والی خالی پلیٹ ان کا منہ چِڑا رہی تھی ، غصے سے آپی سے لڑنے ہی لگے تھے کہ آپی بولی : ارے ارے سنو تو سہی ، پلیٹیں مہمانوں کے پاس سے ہی خالی آئی ہیں۔ یہ کہہ کر دونوں بہن بھائی مایوسی بھرے قدم اٹھاتے ہوئے دادی اماں کے کمرے کی طرف چل پڑے۔

ننھے میاں یہ کون سا طریقہ تھا جانے کا ، کوئی آفت آ گئی تھی کیا ، امی جان نے دونوں  کو دیکھتے ہوئے کہا۔

ننھے میاں : وہ امی جان میں نے سوچا آپی اکیلی اکیلی بسکٹ اور نمکو نہ ختم کر دے لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ علی اتنا بھوکاہوگا کہ بسکٹ نمکو سب کچھ چَٹ کر جائے گا ، مجھے تو لگتا ہے اگر آپ ایک اور پلیٹ بھی رکھتیں تو وہ بھی خالی واپس آتی۔

اوہو ، ایسے نہیں کہتے ننھے میاں ، وہ ہمارے پاس مہمان بن کر آئے تھے۔ امی جان کی بات سُن کر ننھے میاں بولے : لیکن مہمان کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہمارے سارے بسکٹ ہی کھا جائے۔

اب دادی اماں نے گفتگو میں شامل ہونا مناسب سمجھا اور ننھے میاں کو قریب کرتے ہوئے کہا : بیٹا مہمان تو رحمت اور برکت ہوتے ہیں ، انہیں دیکھ کر پریشان نہیں ہونا چاہئے یونہی کھانے وغیرہ کے ذریعے ان کی مہمان نوازی کرتے ہوئے دل بھی چھوٹا نہیں کرنا چاہئےکیونکہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ کسی کے یہاں مہمان آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو میزبان کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ ( کنز العمال ، جز9 ، 5/107 ، حدیث : 25831 )  یعنی  جو کچھ مہمان ہمارے پاس کھاتا  ہے وہ دراصل اسی کا رزق ہوتا ہے  ویسے بھی بیٹا ! اچھے لوگ تو کبھی بھی کھانے پینے کی چیزوں پر کسی کو بُرا بھلا نہیں کہتے۔

ننھے میاں کا جھکا چہرہ دیکھ کر امّی جان سمجھ گئیں کہ وہ اپنی غلطی پر شرمند ہ ہے لہٰذا پیار سے بولیں :  آپ دونوں کے لئے بسکٹ میں نے پہلے ہی الگ سے رکھے ہوئے تھے چلو آجاؤ میرے ساتھ۔ اس بات پر تو ننھے میاں کے ساتھ ساتھ آپی بھی کھلکھلا اٹھیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مدرس جامعۃ المدینہ ، فیضان آن لائن اکیڈمی


Share

Articles

Comments


Security Code