”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ مئی2023
( 01 ) اگلی رکعت میں چند آیات آگے سے تلاوت کرنا کیسا ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نےفجرکی پہلی رکعت میں ، دوسرےپارےکی ابتداء ”سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ“ سے قراءت شروع کی اورچھ آیتیں پڑھ کررکعت مکمل کرلی ، پھر ان چھ آیتوں کےبعدمتصلاًپانچ آیتیں بلاضرورت چھوڑ کر ، دوسری رکعت میں ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ“سے قراءت شروع کی ، اورپانچ آیتیں پڑھ کر نماز مکمل کرلی۔کیا اس طرح قراءت کرنےسےاس شخص کی نماز میں کسی قسم کی کراہت تونہیں آئی ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فرض نماز کی دو رکعتوں میں اس طرح قراءت کرنا کہ ایک رکعت میں چند آیات کی تلاوت کی اور پھر دوسری میں اس سے متصل ایک آیت چھوڑ کر آگے سے تلاوت کی ، مکروہِ تنزیہی ہے یعنی گناہ تو نہیں مگر اس سے بچنا بہتر ہے اور اگر درمیان میں دو یا اس سے زائد آیات کا فاصلہ ہو تو مکروہِ تنزیہی بھی نہیں البتہ افضل یہی ہے کہ دو یا زائد آیات کا فاصلہ بھی نہ ہو۔ نیز یاد رہے کہ یہ حکم دو رکعتوں میں ہے ، فرض نماز کی ایک رکعت میں بلاضرورت متفرق مقامات سے تلاوت کرنا ، مطلقاً مکروہِ تنزیہی ہے اگرچہ درمیان میں دو یا زائد آیات کا فاصلہ ہو۔
اس تفصیل کے مطابق صورت مسئولہ میں جب پہلی رکعت میں دوسرے پارےکی ابتداء یعنی ”سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ “سے قراءت شروع کی گئی ، تو افضل یہ تھا کہ دوسری رکعت میں اسی جگہ سےقراءت شروع کی جاتی ، جہاں سےپہلی رکعت میں قراءت چھوڑی تھی ، لیکن جب بلاضرورت درمیان سےپانچ آیتیں چھوڑکر دوسری رکعت میں قراءت کی گئی تو یہ عمل اگرچہ خلاف اولیٰ ہوا ، لیکن نماز بغیرکراہت کے ادا ہوگئی۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجیب مصدق
محمد سرفراز اختر عطّاری مفتی فضیل رضا عطّاری
( 02 ) دورانِ نماز صرف دل میں تلاوت کرنے کا حکم
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص نماز میں زبان سے قراءت نہ کرے ، صرف دل میں اس قراءت کا تصور کرے ، تو اس طرح قراءت کرنے سے نماز ہوجائے گی ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قراءت کازبان کے ساتھ اتنی آواز سے پڑھنا ضروری ہے کہ شور وغل یا اونچا سننے کا مرض نہ ہو تو وہ اپنی آواز اپنے کانوں سے سن سکے ، اپنے کانوں سے آواز سنے بغیر صرف حروف کی صحیح ادائیگی بھی معتمد قول پر کافی نہیں کہ آواز سنے بغیر فقط تصحیح حروف سے اصح قول کے مطابق قراءت ادا نہیں ہوتی۔ جبکہ دل میں قراءت کاتصور کرنا تو بالاتفاق قراءت ( پڑھنا ) نہیں ہے ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اس طرح دل میں پڑھنے سے قراءت کا فرض ادا نہیں ہوگا ، نماز بھی نہیں ہوگی ، ایسی نماز کو دوبارہ پڑھنا فرض ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
مفتی فضیل رضا عطّاری
( 03 ) تہجد کے وقت وتر پڑھنے کی صورت میں ترتیب ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان ِشرع متین اس مسئلہ کے بارےمیں کہ وتر کی نماز تہجد کے وقت پڑھنی ہوتوایسی صورت میں پہلے کونسی نماز پڑھی جائے ؟ راہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس شخص کوجاگنے پر اعتماد ہو ، اس کے لئےآخر رات تک وتر میں تاخیر کرنا مستحب ہے ، اس صورت میں مستحب وافضل یہ ہے کہ پہلے تہجد پڑھے بعد میں وتراداکرے ، حدیثِ پاک میں اسی کی ترغیب ہے ، البتہ اگر کسی نے پہلے وتر پڑھ کر پھر تہجد پڑھی ، تو بھی کوئی حرج نہیں ، مگر یہ خلاف ِافضل ہے۔
یادرہےجاگنے پر اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے جس نےسونے سے پہلے وتر پڑھ لئے ، پھر آنکھ کھلنے پر تہجد پڑھی ، تو اس کو اگرچہ اس حدیث پاک ”اپنی رات کی آخری نماز وتر بناؤ“ پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے افضلیت نہیں ملے گی ، کیونکہ اس نے وتر سب سے آخر میں نہیں پڑھے ، لیکن اس کو جلدی وتر پڑھنے کی افضلیت مل جائے گی ، کیونکہ ایک دوسری حدیث پاک میں ہے کہ ”جسے آخر رات وتر نہ پڑھنے کا خوف ہو ، وہ اول رات میں وتر پڑھ لے“ اس حدیثِ پاک کی وجہ سے فقہاء کرام فرماتے ہیں جس کو جاگنے پر اعتماد نہ ہو ، تو قضا ہونے کے خوف سے اس کے لئے سونے سے قبل وتر پڑھنا افضل ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجیب مصدق
محمد سرفراز اختر عطّاری مفتی فضیل رضا عطّاری
( 04 ) سجدۂ تلاوت کا مستحب طریقہ
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان ِشرع متین اس مسئلہ کے بارےمیں کہ سجدۂ تلاوت کھڑے ہوکر کرنا چاہیے یا پھر بیٹھ کر ؟ رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سجدۂ تلاوت کے لئے کھڑے ہو کر سجدےمیں جانا اور سجدے سےسر اٹھانے کے بعد دوبارہ کھڑا ہونا مستحب ہے ، لہٰذا اسی طرح سجدہ ٔتلاوت کرنا چاہیے ، البتہ اگر کسی نے بیٹھ کر کیاتو بھی اداہوجائے گا ، مگر خلافِ اولیٰ ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجیب مصدق
محمد سرفراز اختر عطّاری مفتی فضیل رضا عطّاری
Comments