خرید و فروخت میں دھوکا دہی

خرید و فروخت میں دھوکا دہی

*مولانا عبدالرحمٰن عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2023

 ہمارے بزرگانِ دین نےاسلامی معاشی اصولوں پر کار بند رہ کر سچائی اور امانت داری کے ساتھ تجارت کی۔ خرید و فروخت ہمارے پيارے آقا ، دو عالم کے داتا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی فرمائی ، آپ کے صحابہ بھی باہم لین دین کرتے تھے اور اسی طرح ان کے بعد عُلَمااور صُلحا بھی تجارت کرتے رہے ليکن شرعی قانون اور اس طریقہ کے مطابق جو درج ذیل آیتِ مبارکہ میں بیان ہوا ، چنانچہ ارشاد ہوا : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ) ترجمۂ کنز الايمان : اے ايمان والو آپس ميں ايک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر يہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو۔)[1]( (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 دھوکا حرام ہے علامہ ابنِ حجر مکی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ پاک نے اس آیت مبارکہ میں بیان فرمادیا کہ تجارت اسی صورت ميں جائز ہو سکتی ہے جبکہ فريقين کی رضامندی سے ہو اور رضا مندی تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جبکہ نہ تو ملاوٹ ہو اور نہ ہی دھوکا۔)[2]( نیز دھوکے کی حرمت کا قاعدہ کلیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : سامان والا خواہ وہ بیچنے والا ہو یا خریدنے والا ، یہ جانتا ہو کہ اس میں کچھ عیب ہے اور اگر لینے والا اس پر مطلع ہوگیا تو اسے نہ لے گا  ( لیکن پھر بھی اسے دے دے تو یہ وہ دھوکا ہے جو حرام ہے ) ۔)[3]( حدیث شریف میں ہے : جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم ميں سے نہيں۔)[4](

شرح حدیث اس سے معلوم ہوا کہ دھوکے کا معاملہ بہت برا اور اس کا انجام بہت خطرناک ہے کيونکہ بعض اوقات اس کے سبب مَعاذَ اللہ ایمان چھن جاتا ہے ، اس لئے کہ رسولِ اکرم ، شاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسی چیز کے بارے میں لَيْسَ مِنَّا ( وہ ہم میں سے نہیں ) فرماتے ہيں جو بہت زيادہ بُری ہو اور اپنے کرنے والے کو خوفناک معاملے کی طرف لے جائے اور جس سے کفر کا خوف ہو۔)[5](

تاجروں کی حالت زار علامہ ابنِ حجر مکی رحمۃُ اللہ علیہ سے ایک طویل سوال ہوا اور آپ نے اس کا تفصیلی جواب عطا فرمایا ، سائل نے اپنے  سوال میں تاجروں کی جو کیفیت بیان کی اسے ملاحظہ کیجئے ، چنانچہ اس کا کہنا تھا : اگرآپ تاجروں اور مختلف پیشے والوں کی تفتیش کریں گے تو ان کو دھوکا دینے والا ، چیز کا عیب چھپانے والا ، خيانت ، مکر اور جھوٹے بہانے بنانے والا پائيں گے۔ ہم انہيں اپنے معاملات ميں ايسا پاتے ہيں جيسا کہ دو آدمی ہيں جن کے پاس ايک دوسرے کا مقابلہ کر نے کیلئے دو تلواريں ہيں جب بھی کوئی ايک دوسرے پر قادر ہو گا تو دوسرے کو اسی وقت قتل کر دے گا ، اسی طرح تاجر اور خريد و فروخت کرنے والوں ميں سے ہر ايک کی یہ نيت ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنے ساتھی پر کامياب ہو جائے تو جائزو ناجائز ہر طريقے سے اس کا تمام مال لے لے اور اسی وقت اسے فقیر بنا چھوڑے ، لہٰذا جب ان ميں سے کسی کو يہ بات حاصل ہو جاتی ہے تو بہت زيادہ فرحت محسوس کرتا ہے اور دل ہی دل میں اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ میں دھوکے سے اس پر غالب آگیا اور اسے زیر کردیااوریہ اس کتے کی طرح کامياب ہو گيا جو مردار پر جھپٹتا ہے اور اس کو کھا جاتاہے یہاں تک کہ اس کی کوئی چیز نہيں چھوڑتا۔ )[6](

اللہ پاک ہمیں دغا بازی ، دھوکا دہی اور جھوٹ و فریب سے بچائے اورسچائی اور امانت داری کے ساتھ تجارت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ عربی ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ ، کراچی



[1] پ5 ، النسآء : 29

[2] زواجر ، 1 / 520

[3] زواجر ، 1 / 517

[4] مسلم ، ص64 ، حدیث283ملتقطاً

[5] زواجر ، 1 / 522

[6] زواجر ، 1 / 518ملخصاً


Share

Articles

Comments


Security Code