کتابِ زندگی
خاندانی جھگڑے ( Family Quarrels )
*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2023
بڑا بھائی رونے لگا : کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک جذباتی ویڈیو وائرل ہوئی جس کا پس منظر یہ ہے کہ چھوٹے بھائی کو رقم کی ضرورت پڑنے پرپریشانی سے بچانے کے لئے بڑے بھائی نے اپنی گاڑی بیچ کر اس کی مدد کی۔ چھوٹے بھائی نے حالات بہتر ہونے پر اپنے دیگر دوبھائیوں کے ساتھ مشورہ کیا کہ ہم تینوں مل کر بڑے بھائی کو نئی کار تحفے میں دے کر انہیں سرپرائز دیتے ہیں۔ چنانچہ نئی کار گھر میں آنے کے بعد چھوٹے بھائی نے اپنے ہاتھ بڑے بھائی کی آنکھوں پر رکھے اور انہیں کار کے قریب لاکر ہاتھ ہٹا دیئے ، اور جیسے ہی نئی کار کے تحفے کے بارے میں بتایا تو بڑا بھائی جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اپنے بھائی کے گلے لگ کر رونے لگا۔بڑے بھائی کا کہنا تھا کہ یہ سرپرائز میری سوچ سے بہت بڑا تھا ، ہم چاروں بھائیوں کی ایک دوسرے میں ( گویا ) جان ہے ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے ، اللہ ہمارے اتفاق و محبت میں مزید اضافہ کرے۔ بلاشبہ اتفاق میں برکت ہے ، ہمارا مذہب اسلام بھی ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے کہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساتھ رہنا چاہئے۔
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین ! قربانیوں کے اس طرح کے کئی واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں مثلاً * ایک عرب ملک میں بوڑھے ماں باپ کا خیال رکھنے پر شادی شدہ بہن نے اپنے بھائی کو نئی کار تحفے میں پیش کردی * کراچی میں ایک لڑکی نے صرف اس لئے شادی نہیں کی کہ اس کی بھابھی کو کینسر تھا اور وہ اپنے بچوں کو سنبھال نہیں سکتی تھی بلکہ یہ لڑکی اپنے بھتیجے بھتیجیوں کو سنبھالتی تھی * بارہ تیرہ سال کا ایک معذور بچہ اپنی چھوٹی بہن کو سائیکل پر بٹھا کر خود پیدل سائیکل تھامتا اور اسے اسکول چھوڑنے جاتا کہ میری بہن چھوٹی ہے زیادہ چلنے پر تھک جائے گی ، اس کے بعد اپنے اسکول جاتا ہے۔اس طرح کے کئی واقعات آپ کے اطراف میں بھی ہوئے ہوں گے۔
سوشل لائف میں خاندان کی اہمیت وفوائد : انسان اس دنیا میں تنہا آتا ہے اور تنہا ہی رخصت ہوتا ہے لیکن دنیا میں زندگی تنہا نہیں گزارتا ، وہ قدم قدم پر اپنے خاندان ، قبیلے ، قوم اور معاشرے کے دوسرے انسانوں کا محتاج ہوتا ہے۔ سوشل لائف میں انسان کی سب سے پہلی وابستگی اپنے خاندان سے ہوتی ہے جو اس کے ماں باپ ، دادا دادی ، نانا نانی ، پھوپھی ، خالہ ، چچا ، ماموں اور بہن بھائی وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے ، یہ سارے رشتے انسان کی دنیا میں پیدائش کے ساتھ ہی تشکیل پاجاتے ہیں۔ رشتے دار بڑی پیاری چیز ہوتے ہیں یہ انسان کو پہچان اور شناخت دیتے ہیں ، اس کی زندگی کو آسان اور بارونق بناسکتے ہیں۔ایک مثالی خاندان کی اہمیت کو 6 پوائنٹس کی مدد سے سمجھ سکتے ہیں :
( 1 ) انسان کی تمنا ہوتی ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا ہو جو اس کے ساتھ اتنا مخلص ہو کہ اس کے فائدے اور نقصان کو اپنا فائدہ اور نقصان سمجھے ، یہ اخلاص اور اپنائیت انسان کو سب سے پہلے اس کے خاندانی رشتے فراہم کرتے ہیں۔
( 2 ) خاندان کے افراد ایک دوسرے کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال میں اپنا اپناکردار ادا کرتے ہیں ، دادا دادی ، نانا نانی کے لہجے کی مٹھاس اور سبق آموز کہانیاں سنانا ، انگلی پکڑ کر چلنا سکھانا ، ماموں یا چچا کا اسے باہر کی سیر کروانا ، کھانے پینے کی چیزیں دلوانا ، خالہ یا پھپھو وغیرہ کا اٹھنے بیٹھنے ، بات چیت ، سونے جاگنے کے آداب سکھانا بچے کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے ، یوں بچوں میں خوداعتمادی آتی ہےاور وہ مختلف مزاج اور اہمیت کے لوگوں کے درمیان رہنا سیکھ لیتا ہے ، یہی خصوصیات اسے معاشرے کا اہم فرد بنادیتی ہیں۔
( 3 ) بوڑھوں ، کمزوروں ، یتیموں ، بیواؤں ، غریبوں اور مظلوموں کو سہارے کی بڑی ضرورت ہوتی ہے ، یہ ضرورت ایک خاندان اچھی طرح پوری کرسکتا ہے ، یوں آزمائش کسی پر بھی آئے خاندان والے مل کر اس کے لئے سائبان بن جاتے ہیں اور اسے آزمائشوں کی کَڑی دھوپ سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
( 4 ) خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں ، خاندان والے ایک دوسرے کی خوشیوں کے موقعوں پر بھی بھرپور طریقے سے شریک ہوکر خوشی میں اضافہ کرتے ہیں۔
( 5 ) جوان اولاد کے رشتے کی تلاش بھی اہم ، نازک اور مشکل مرحلہ ہے ، خاص کر ایسی فیملی میں رشتہ کرنا جس کو آپ پہلے سے نہ جانتے ہو ، بڑا رِسکی ہوتا ہے جس کے نتائج توقعات کے برعکس ( اُلٹ ) بھی نکل سکتے ہیں ، ایسے میں اگر اپنے خاندان میں اچھا رشتہ مل جائے تو یہ مرحلہ بھی قدرے آسان ہوجاتا ہے۔
( 6 ) کئی اسلامی احکامات میں خاندان کو پیش نظر رکھا گیا ہے جیسے صلہ رحمی ، نکاح کا حلال یا حرام ہونا ، مہر ِمثل کے مسائل ، میراث کی تقسیم ، یتیم کی کفالت ، بچوں کی پرورش ، نان نفقہ ، رہائش اورپردہ کے مسائل وغیرہ ( ان کی تفصیل بہار شریعت وغیرہ فقہی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے ) ۔
موجودہ دور کا خاندان انتشار کا شکار کیوں ؟
ایسی خوبیاں رکھنے والا خاندان قابلِ رشک ہے لیکن موجودہ دور میں مشاہداتی ، تجرباتی اور معلوماتی تجزیہ یہ ہے کہ معاشرے کی بہت سی خرابیوں کی طرح خاندانی نظام کا بگاڑ بھی ایک حقیقت ہے۔بدقسمتی سے وہ خاندان جو محبتوں کی داستان تھا آج نفرتوں کی کہانی بن کر رہ گیا ، وہ خاندان جسے مشکلات کو آسان کرنا تھا ایک دوسرے کی آسانیوں کو مشکل بنارہا ہے ، وہ خاندان جسے آپس میں خوشیاں بانٹنی تھیں آج اس کے کئی افراد ایک دوسرے کو دُکھ دے کر خوش ہوتے ہیں ، وہ خاندان جو ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا اس کے کئی افراد آج ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے ! وہ خاندان جس میں اتحاد واتفاق ہونا چاہئے تھا آج انتشار اور گروپنگ کا شکار ہو کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکا کسی کی اپنی بہن سے نہیں بنتی تو کسی کی اپنے بھائی سے بول چال بند ہے ، کوئی اپنے بھتیجے سے روٹھا ہوا ہے تو کوئی اپنے بھانجے سے ناراض ہے ، پھر لڑائی دو افراد تک نہیں رہتی بلکہ بیوی بچوں پر بھی پابندی ڈال دی جاتی ہے کہ خبردار تم لوگ فلاں کے گھر گئے ، پھر جب صلح ہوتی ہے تو جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے ، بچّوں کو یہ بھی پتانہیں چلتا کہ ہمیں روکا کیوں تھا اور اب جانے کیوں دیا ؟ وہ اپنا قصور تلاش کرتے رہتے ہیں ، بعض اوقات تو یہ جھگڑے بچوں کے دلوں میں نفرت کا بیج بو دیتے ہیں ! خاندان میں نہ کسی کی غلطی پر پردہ ڈالنے کا حوصلہ نہ معاف کردینے کی ہمت ! نہ چھوٹوں پر شفقت سلامت ہے نہ بڑوں کی عزت ! یہ تسلیم کہ ہر ہر خاندان ایسا نہیں ہے لیکن اکثریت کیسے خاندانوں کی ہے اس کا فیصلہ آپ خود کرلیجئے !
بگاڑ کی وجوہات : آخر یہ خاندانی نظام اس قدر کھوکھلا کیوں ہوا ؟ غور کیا جائے تو اس کی 14 بنیادی وجوہات ہوسکتی ہیں :
( 1 ) ہزار خوبیاں چھوڑ کر چند خامیوں کو پکڑلیا جاتا ہے جو ظاہر ہے سامنے والے کے دل سے محبت کو نکالتا ہے داخل نہیں کرتا۔
( 2 ) پیٹھ پیچھے بُرائیاں کرنے کی نحوست یعنی غیبت ، لگائی بجھائی کی عادت ، ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کرنا ، گناہوں کی تہمت لگانا کہ فلاں کی بیٹی ایسی ہے فلاں کی بیوی ویسی ہے ، فلاں فلاں رشتے دار مل کر میرے خلاف سازش کررہے ہیں ، فلاں کو یہ نعمت کیوں ملی ؟ فلاں خوش حال کیوں ہے ؟ یہ سارے انداز منفی ہیں جو ظاہر ہے رزلٹ بھی منفی ہی دیں گے۔
( 3 ) ہر ایرے غیرے کی دی ہوئی منفی باتوں پر بلا تحقیق یقین کرلینا بھی خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے دور کردیتا ہے۔
( 4 ) منصب کے مطابق سلوک نہ کرنا بھی دُوری کا سبب بنتا ہے ، ظاہر ہے بھکاری کو کچھ دے کر دروازے سے ہی رخصت کردیا جاتا ہے اور معزز مہمان کو گھر میں بلا کر بٹھا کر چائے پیش کی جاتی ہے ، جب ہم کسی کی حیثیت کے مطابق سلوک نہیں کریں گے تو وہ خوشی سے جھومے گا یا صدمے سے چُور ہوگا ؟ فیصلہ آپ خود کرلیجئے۔ اسی طرح اگر آپ کا بیٹا یا بیٹی اپنے سے دُگنی عمر کے رشتہ دار مثلاًچچا یا ماموں سے تلخ لہجے میں بدتمیزی سے بات کرے تو اس کو روکنا سمجھانا آپ کا اخلاقی فریضہ ہے ، ایسے میں آپ کی خاموشی کو بڑے کی توہین پر رضا مندی سمجھا جائے گا جو ظاہر ہے اس کی حیثیت کے خلاف ہوگا ، ایک اور بات؛ جب آپ کی اولاد اپنے سے بڑوں کا احترام بھول جائے گی تو کل اس کے ہاتھ آپ کے گریبان تک بھی پہنچیں گے اس کی زبان آپ کی شان میں بھی ’’پھول‘‘ برسائے گی ، اس وقت آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگا اس لئے آج سنبھل جائیے۔
( 5 ) کسی کی خوشیوں پر اسے مبارکباد نہ دینا یا غم میں اس کی دلجوئی ہمدردی نہ کرنا بھی رشتے داروں میں دوری پیدا کرتا ہے۔
( 6 ) مصیبت آتی ہے اور چلی بھی جاتی ہے لیکن انسان دو چہروں کو کبھی نہیں بھولتا ایک ساتھ دینے والوں کے اور دوسرا ساتھ چھوڑنے والوں کے اگر ہم مدد پر قدرت رکھنے کے باوجود اپنے رشتے دار کی مدد نہیں کریں گے تو اس کا دل ٹوٹ سکتا ہے۔
( 7 ) مالدار ہونے کے بعد تکبر کا شکار ہوکر خاندان کے مالی طور پر کمزور افراد کو حقیر جاننے کی وجہ سے بھی خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔
( 8 ) خاندان کے کسی فرد کی طرف سے کسی معاملے میں ناانصافی ہوجانے پر صبر و برداشت سے کام نہ لینا ، دل بڑ ا کرکے برائی کا بدلہ بھلائی سے نہ دینابھی دُوری کا سبب ہے ، اسی طرح کے نتائج غلطی پر اَڑ جانے اور معافی نہ مانگنےکے بھی ہوتے ہیں۔
( 9 ) ہمارا رُوکھا سُوکھا رویہ بھی خاندانی محبتوں کی فصل اُجاڑنے کا سبب بنتا ہے۔
( 10 ) کہا جاتا ہے ’’اُدھار محبتوں کی قینچی ہے ‘‘قرض لے کر وقت پر واپس نہ کرنا ، مسلسل تقاضے کے باوجود بے نیازی کا انداز ایک دوسرے سے دُور کرسکتا ہے۔
( 11 ) جائیداد کا جھگڑا ہردوسرے خاندان میں پَل اور چل رہا ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے خاندان میں گروپنگ ہوجاتی ہے۔
( 12 ) بچوں کے معاملات کی وجہ سے بھی دلوں میں دوری ہوجاتی ہےکہ اس کے بچے نے میرے بچے کو مارا ، یوں کہا ، یا اس کا بچہ پڑھائی میں اچھا ، میرا کمزور کیوں ہے ؟
( 13 ) شادی کے لئے رشتہ بھیجنے کا بہت سادہ سا اصول ہے کہ رشتہ مانگنا آپ کا حق ہے اور اس کو قبول کرنا یا انکار کرنا سامنے والے کا حق ہے ، لیکن بعض لوگ اتنی سی بات کو لےکر ایسی دھماچوکڑی مچاتے ہیں کہ الامان والحفیظ ، کہ فلاں نے اس رشتے سے آخر منع کیوں کیا ؟ میری اولاد میں کیا کمی تھی ؟ یا فلاں رشتے دار نے سازش کرکے یہ رشتہ نہیں ہونے دیا ، حالانکہ شادی وہیں ہوتی ہے جہاں نصیب میں لکھا ہوتا ہے اسی کو عوامی زبان میں یوں کہا جاتا ہے’’جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں‘‘ اس لئے رشتے سے اِنکار پر دشمنیاں پالنے کے بجائے تقدیر کے لکھے پر یقین کرلیا جائے تو خاندان بکھرنے سے بچ سکتا ہے۔
( 14 ) بعض خاندانوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ سارے بھائی بڑے اتفاق اور پیار سے رہ رہے ہوتے ہیں لیکن جونہی ان کی شادیاں ہوتی ہیں اور بیویاں گھروں میں آتی ہیں تو ساس بہو ، نند بھاوج ( بھابھی ) ، دیورانی جیٹھانی وغیرہ کے جھگڑوں کی وجہ سے خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس کا حل کیا ہے ؟ خاندانی رشتوں کو مضبوط کرنے کے لئے سب سے پہلے انہیں کمزور کردینے والی باتوں سے بچیں ، اس کے علاوہ اسلام کی روشن تعلیمات پر عمل اِن شآءَ اللہ ہمارے خاندان کو مثالی خاندان بنادےگا جیسے ایک دوسرے کا احترام ، حقوق کی ادائیگی ، زبان کی نرمی ، لہجے کی مٹھاس ، بڑوں کی عزت ، چھوٹوں پر شفقت ، غم زدہ کی دلجوئی کرنا ، ناکامی پر حوصلہ بڑھانا ، مصیبت ومشکل میں ساتھ دینا ، خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا ، سب سے یکساں تعلقات رکھنا گروپنگ سے بچنا ، غیبت وچغلی کے حوالے سے زبان وکان کا کچا نہ ہونا ، حسد اور تکبر سے بچنا ، تکلیف پہنچنے پر صبر کرنا ، غلطی پر معافی مانگنے والے کو معاف کردینا ، تنہا پرواز سے پرہیز کہ تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش کیونکہ مشہور ہے کبھی دن بڑے تو کبھی راتیں یعنی وقت یکساں نہیں رہتا ، آج جو لوگ آپ کے لئے غیر اہم ہیں ہوسکتا ہے کل حالات ایسا پلٹا کھائیں کہ وہی لوگ اہم ترین ہوجائیں۔ ”نفرتیں مٹائیے محبتیں پھیلائیے“ کا پرچم تھام لیجئے ، آپ کی خاندانی زندگی آسان اور بارونق ہوجائے گی۔
3 فرامینِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 1 ) مسکین پر صدقہ کرنا ایک صدقہ ہے اور رشتہ دار پر صدقہ کرنے میں دو صدقے ہیں ، صدقہ اور صلہ رحمی۔
( ابن خزیمہ ، 4 / 77 ، حدیث : 2385 )
( 2 ) تم لوگ اپنے نسب ناموں کو جان لو تا کہ اس کی وجہ سے تم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرو ، یقین جانو کہ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنا یہ گھر والوں میں محبت اور مال میں زیادتی اور عمر میں درازی کا سبب ہے۔
( ترمذی ، 3 / 394 ، حدیث : 1986 )
( 3 ) نبیِّ مُکرّم ، نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے دریافت کیا گیا : کون سا صدقہ افضل ہے ؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو کینہ پَرْوَر رشتہ دار پر کیا جائے۔ ( مسند امام احمد ، 5 / 228 ، حدیث : 15320 )
اے عاشقانِ رسول !
اچھا ماحول ہمیں اچھا بنادیتا ہے ، دعوتِ اسلامی کے ماحول سے وابستہ ہوجائیے ، کردار وعمل میں مثبت تبدیلیاں آپ کو بہت جلد دکھائی دیں گی اِن شآءَ اللہ الکریم۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* اسلامک اسکالر ، رکنِ مجلس المدینۃ العلمیہ ( اسلامک ریسرچ سینٹر ) ، کراچی
Comments