کتابِ زندگی
ہماری خوشیاں! مثبت یا منفی ؟
*مولانا ابو رجب محمدآصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2023
ایک بابا جی نے جنگل کنارے چھوٹی سی رہائش گاہ بنا رکھی تھی ، لوگ اپنی اُلجھنیں لے کر بابا جی کے پاس پہنچتے اور وہ انہیں عقل و دانائی کی روشنی میں مشورے دیتے اور ان کے مسائل کا حل بتاتے۔ قریبی علاقے کا ایک زمیندار ( land lord ) بھی ان کے پاس پہنچا اور کہنے لگا : بابا جی! زندگی ویران سی ہے ، خوشی کو ترس گیا ہوں ، کیا کروں ؟ بابا جی نے پوچھا : تمہارے باپ دادا نے تمہارے لئے کچھ تو چھوڑا ہوگا! زمیندار کہنے لگا : جی! میرے دادا نے اپنی جمع پونجی سے کچھ سونا ( Gold ) خریدا اور میرے باپ کے لئے چھوڑ گیا ، پھر میرے باپ نے جو تھوڑا بہت مال بچایا اس سے مزید سونا خرید کر پہلے سونے میں شامل کیا اور میرے لئے چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا۔ بابا جی نے وہ سونا دیکھنے کی فرمائش کی تو زمیندار نے اپنی پگڑی کھولی اور اس کی اندرونی تہہ میں سے سونا نکال کر بابا جی کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ بابا جی نے مٹھی بند کی اور جنگل کی طرف دوڑ لگا دی ، زمیندار کے ہوش اُڑ گئے کہ یہی سونا بچا تھا وہ بھی بابا جی لے اُڑے ، اس نے بھی بابا جی کے پیچھے دوڑنا شروع کیا۔ باباجی جنگلی راستوں سے واقف اور زمیندار نے کبھی میدان میں بھی دوڑ نہیں لگائی تھی ، اس لئے باباجی کہاں زمیندار کے قابو آنے والے تھے! وہ اسے یہاں سے وہاں دوڑاتے رہے ، یہاں تک کہ دوپہر سے شام ہوگئی ، ایک جگہ جاکر باباجی کھڑے ہوگئے اب زمیندار جوش کے ساتھ آگے بڑھا کہ میں نے بابا جی کو پکڑ لیا ، جیسے ہی وہ بابا جی کے قریب پہنچا ، باباجی پھرتی کے ساتھ درخت پر چڑھ گئے ، زمیندار کا جسم بھاری تھا اور وہ بہت تھک بھی چکا تھا لہٰذا درخت پر نہ چڑھ سکا اور نیچے کھڑے ہوکر بابا جی کی منتیں کرنے لگا کہ میرا سونا واپس کردیں میں نے برسوں سے سنبھال کر رکھا تھا ، آئندہ کبھی ادھر کا رُخ نہیں کروں گا ، زمیندار مسلسل منت سماجت کرتا رہا مگر بے نتیجہ! جب اندھیرا چھانے لگا تو باباجی نے آواز دی کہ میری چند شرطیں ہیں ، زمیندار فوراً پُکار اٹھا : مجھے آپ کی ساری شرطیں منظور ہیں بس میرا سونا واپس کردیں۔ بابا جی نے پہلے اس سے زمین پر ناک سے لکیریں کھنچوائیں ، اُلٹی دوڑ لگوائی ، کچھ دیر ایک ٹانگ پر کھڑے رکھا ، اسی طرح کی بے سروپا شرطوں پر عمل کروانے کے بعد بابا جی درخت سے نیچے اُترے اور سونا اس کے حوالے کردیا۔ سونے کو دوبارہ اپنے پاس دیکھ کر زمیندار کا چہرہ کِھل اٹھا ، بابا جی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پوچھا : اب خوش ہو ؟ زمیندار نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ بابا جی کہنے لگے : دراصل میں تمہیں خوش ہونے کا ایک طریقہ بتانا چاہتا تھاکہ ہم نہ ملنے والی چیزوں کا رونا روتے رہتے ہیں اور دکھی ہوتے رہتے ہیں لیکن اپنے پاس موجود قیمتی چیزوں کی قدر نہیں کرتے پھر جب وہ چیز چھن جاتی ہے تو اس کی قدر محسوس ہوتی ہے اور ہم اسے پانے کے لئے کسی کی احمقانہ شرطیں ماننے پر بھی تیار ہوجاتے اور وہ چیز واپس ملنے پر ہماری خوشی دیکھنے والی ہوتی ہے۔[1]
انسان خوشی کو پسند کرتا ہے قارئین! کسی پیاری اور محبوب چیز کے پانے سے دل کو جو لذّت حاصل ہوتی ہے اس کو فرح ( یعنی خوشی ) کہتے ہیں۔[2] انسان فطری طور پر خوشیوں کو پسند کرتا ہے اور ان کو پانے کیلئے کوشش بھی کرتا ہے! خوشی ایک ایسا موضوع ہے جس پر مختلف پہلوؤں سے بات کی جاسکتی ہے ، تاہم خوشی کی ایک ڈائریکشن یہ بھی ہے کہ ایک شخص کسی کام کے ہوجانے پر خوش ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس ( یعنی اُلٹ ) دوسرے شخص کو اُسی کام کے نہ ہونے پر خوشی ہوتی ہے مثلاً ایک اسٹوڈنٹ نے امتحانات میں پہلی پوزیشن لی جس پر وہ بہت خوش ہوا جبکہ اس سے حسد ( Jealousy ) رکھنے والا طالبِ علم اس کی پہلی پوزیشن نہ آنے کی صورت میں خوش ہوتا۔ اسی طرح کوئی دنیاوی نعمتیں ملنے پر زیادہ خوش ہوتا ہے تو کسی کو رُوحانی انعامات ملنے پر زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ یہ فرق اس لئے بھی ہوتا ہے کہ خوشی یا غم کا تعلق دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ ہمارے احساسات ( Feelings ) سے بھی ہوتا ہے اور مختلف لوگ مختلف احساسات رکھتے ہیں کیونکہ احساسات کی تشکیل و تعمیر میں تربیت ، صحبت ، ذہنی و دِلی کیفیت اور علمی و عملی حالت کا مرکزی کردار ( Main role ) ہوتا ہے۔
بہت بڑی خوشی ملی ایک شخص نے عرض کی : یارسولَ اللہ! قیامت کب آئے گی ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم نے اس کیلئے کیا تیاری کی ہے ؟ عرض کی : میں نے اس کی کوئی تیاری نہیں کی مگر میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں ، فرمایا : تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے تمہیں محبت ہو۔ ( اس حدیثِ پاک کو روایت کرنے والے ) حضرتِ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فَمَا رَاَيْتُ الْمُسْلِمِينَ فَرِحُوْا بِشَيْءٍ بَعْدَ الاِسْلَامِ اَشَدَّ مِنْ فَرَحِهِمْ بِقَوْلِہٖ یعنی میں نے مسلمانوں کو اسلام کے بعدکسی چیز پر ایسا خوش ہوتے نہ دیکھا جیسا وہ اس فرمان سے خوش ہوئے۔[3]
ہمیں کب خوش ہونا چاہئے ؟ اَلحمدُلِلّٰہ ہم مسلمان ہیں اس لئے ہماری خوشی اور ناخوشی کا ترازو ( Scale ) شریعت کے مطابق ہونا چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں مثبت ذہنیت ( Positive mindset ) کے لوگ اسی بات پر خوش ہوتے ہیں جس پر خوش ہونا بنتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں اس خوشی پر ثواب بھی مل سکتا ہے ، جبکہ منفی ذہنیت ( Negative mindset ) کے لوگ اس بات پر خوش ہوتے ہیں جس پر خوش نہیں ہونا چاہئے بلکہ بعض صورتوں میں تو یہ خوشی ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والی ہوتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے ؟ اس کیلئے ذیل میں مثبت خوشیوں کی 53 اور منفی خوشیوں کی 39مثالیں پیش کرتا ہوں ، ان کی مدد سے خود کو چیک کرلیجئے۔
مثبت خوشیاں ( Positive pleasures ) ( 1 ) بیماری سے صحت یاب ہوجانے پر خوش ہونا ( 2 ) سیلاب یا کسی آسمانی آفت کا خطرہ ٹل جانے پر ( 3 ) نیکی کا کام کر لینے پر ( 4 ) راہِ خدا میں صدقہ کرنے پر ( 5 ) اولاد پیدا ہونے پر ( 6 ) بیٹے یا بیٹی کا چلنے کے لئے پہلا قدم اٹھانے پر / پہلا لفظ بولنے پر ( 7 ) چھوٹے بچے / بچی کے ” اللہ ، اللہ “ کہنے / نعت پڑھنے پر ( 8 ) تلاوتِ قراٰن مکمل ہونے ( ختمِ قراٰن ) پر ( 9 ) آمدِ رمضان پر ( 10 ) عیدُالفطر اور عیدُالاَضحیٰ پر ( 11 ) عید میلادُ النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ( 12 ) سفرِ حرمینِ طیبین ( یعنی پیارے مکۂ مکرمہ اور شہد سے بھی میٹھے مدینۂ منورہ کے سفر ) کی خوشخبری ملنے پر ( 13 ) نیکی کی دعوت عام ہونے پر ( 14 ) دینی اجتماع کی کامیابی پر ( 15 ) دینی خوشی ملنے پر ( 16 ) مشکل سبق سمجھ آجانے پر ( 17 ) سبق یاد ہوجانے / ٹیچر کو اچھا سبق سنا لینے پر ( 18 ) استاذ کا طلبہ کے محنت کرنے پر ( 19 ) طالبِ علم کا امتحانات میں کامیابی / پوزیشن لینے پر ( 20 ) دینی یا دنیاوی تعلیم مکمل کر لینے پر ( 21 ) بیٹے یا بیٹی کا بخار وغیرہ اُتر جانے پر ( 22 ) جوان بیٹے / بیٹی کے رشتہ طے ہوجانے / شادی ہوجانے پر ( 23 ) روٹھنے / جھگڑنے والوں میں صلح کروانے / ہوجانے پر ( 24 ) گناہوں کے راستے بند ہونے پر ( 25 ) گناہوں سے توبہ کرنے پر ( 26 ) فرائض و واجبات کی ادائیگی کی توفیق ملنے پر ( 27 ) سنّتوں پر عمل کرنے پر ( 28 ) نوافل کی سعادت ملنے پر ( 29 ) کسی دینی بزرگ / اپنے پِیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے / ان کی زیارت ہونے پر ( 30 ) اپنی اولاد یا کسی اور کے حافظِ قراٰن ، عالمِ دین یا مفتیِ اسلام بننے پر ( 31 ) جاب ملنے پر ( 32 ) گمی ہوئی چیز ملنے پر ( 33 ) سفر کے بعد گھر واپسی پر ( 34 ) تحفہ ملنے پر ( 35 ) کسی کی طرف سے اظہارِ ہمدردی پر ( 36 ) مشکل حالات میں مالی تعاون ہونے پر ( 37 ) پردیسی کی وطن واپسی پر ( 38 ) ماں باپ کی طرف سے جیب خرچی / عیدی ملنے پر ( 39 ) نئے کپڑے ، جوتے ، گھڑی ، لیپ ٹاپ یا موبائل ملنے پر ( 40 ) اپنا ذاتی گھر بنا لینے پر ( 41 ) اچھے پڑوسی / دوست ملنے پر ( 42 ) آفس میں اچھا باس / اچھا آفس ورکر ملنے پر ( 43 ) اچھی کوالٹی کی چیز سستے داموں ملنے پر ( 44 ) ضروری چیز مارکیٹ میں شارٹ ہونے کی صورت میں طویل تلاش کے بعد مل جانے پر ( 45 ) بائیک ، کار ، کمپیوٹر وغیرہ کی خرابی کم پیسوں میں ٹھیک ہوجانے پر ( 46 ) نئے رائٹر کا پہلی کتاب چھپنے پر ( 47 ) لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں بجلی آجانے پر ( 48 ) ہدف کے مطابق کسی کام کے مکمل ہونے پر ( 49 ) کوئی ہنر سیکھ لینے پر ( 50 ) جاب یا بزنس میں ترقی ملنے پر ( 51 ) کسی کے جائز سفارش مان لینے پر ( 52 ) تنخواہ یا آمدنی میں غیر متوقع اضافہ ہونے پر ( 53 ) پُرانے دوست سے طویل عرصے بعد اچانک ملاقات ہونے پر خوش ہونا وغیرہ۔
لیکن یہاں دوباتیں یاد رکھنا بہت ضروری ہیں : پہلی یہ کہ ان کاموں پر خوش ہونا اس وقت تک جائز ہوگا جب نا جائز ہونے کی صورت نہ بنتی ہو جیسے نوکری ملنے پر خوش ہونا اسی وقت جائز ہوگا جب جائز کام کی نوکری ہو اور اگر حرام کام مثلاً شراب بنانے کی نوکری ہو تو اب یہ نوکری اور اس کے ملنے پر خوش ہونا دونوں ناجائز ہوں گے۔ اور دوسری بات یہ کہ دینی معلومات رکھنے والا ان مثبت خوشیوں میں بھی ثواب کمانے کی صورتیں اختیار کرسکتا ہے جیسے بیماری سے صحت یاب ہونے پر اس لئے خوش ہونا کہ اب میں اپنے رب کی زیادہ عبادت کرسکوں گا ، اپنے بال بچّوں کے لئے روزی کما کر ان کے حقوق پورے کرسکوں گا ، بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرسکوں گا وغیرہ۔
منفی خوشیاں ( Negative pleasures ) ( 1 ) حرام کام کی جاب ملنے پر خوش ہونا ( 2 ) گناہوں کے مواقع ملنے پر جیسے میوزک ایونٹ ، فلمی میلہ منعقد ہونے پر خوش ہونا ( 3 ) کسی فلم یا ڈرامہ کے لانچ ہونے پر ( 4 ) فحش اور غیر اخلاقی ویب سائٹس تک رسائی ہونے پر ( 5 ) نشے کے عادی کا نشہ مل جانے پر ( 6 ) شیطانی عشق کے دو طرفہ ہونے میں کامیابی پر ( 7 ) بدنگاہی کے چانس ملنے پر ( 8 ) بدکاری میں کامیابی پر ( 9 ) چھوٹے بچے کے توتلی زبان میں گالی بکنے پر ( 10 ) میاں بیوی میں پھوٹ ڈلوا کر طلاق ہوجانے پر ( 11 ) کسی کی بدنامی پر ( 12 ) کسی کے مالی یا جانی نقصان پر ( 13 ) کسی کے عیب سرِ عام کھلنے پر ( 14 ) ناجائز سفارش کی کامیابی پر ( 15 ) گناہ والے کام پر ایوارڈ ملنے پر ( 16 ) کسی کے خلاف سازش میں کامیابی پر ( 17 ) دشمن کو تکلیف پہنچنے پر ( 18 ) کسی کا رشتہ ٹوٹ جانے پر ( 19 ) کسی کی بیع ( خرید و فروخت ) میں ناکامی پر ( 20 ) کسی کی نوکری ختم ہوجانے پر ( 21 ) کسی ناپسند طالبِ علم کی امتحان میں ناکامی پر ( 22 ) فراڈئیے کا دھوکا دینے میں کامیابی پر ( 23 ) ظلم کرنے پر ( 24 ) بلیک مارکیٹنگ کرنے والے کا قیمتیں بڑھنے پر ( 25 ) سادہ آدمی کو بے وقوف بنالینے پر ( 26 ) زمین پر ناجائز قبضہ میں کامیابی پر ( 27 ) جھوٹا کیس جیت جانے پر ( 28 ) جرائم پیشہ لوگوں کا اغوابرائے تاوان / بھتہ وصولی / چوری / ڈکیتی کی واردات کامیاب ہونے پر ( 29 ) جُوا جیتنے پر ( 30 ) دشمن کو قتل کرنے پر ( 31 ) رشوت وصول ہونے پر ( بالخصوص تگڑی رقم ملنے پر ) ( 32 ) کسی کو بلیک میل کرنے میں کامیابی پر ( 33 ) کسی کا نام بگاڑ کر اسے ستانے پر ( 34 ) کسی سے مذاق مسخری کرکے خوش ہونا جبکہ وہ اس پر ناراض ہوتا ہو ( 35 ) کسی کے گھر کے قریب پٹاخے چلا کر اس کے باہر نکلنے پر اَنجان بن جانا یا اِدھر اُدھر چھپ جانا اور اسے پریشان کرنے پر خوش ہونا ( 36 ) بےزبان جانور کو تکلیف دے کر اس کی بے بسی پر ( 37 ) کسی کو دینی ماحول سے دور کرنے میں کامیابی پر ( 38 ) نیکی کا ذریعہ بند ہونے پر ( 39 ) دین کا نقصان ہونے پر خوش ہونا وغیرہ۔ ( غور وفکر کی اہلیت رکھنے والا مزید صورتیں بھی بنا سکتا ہے )
اہم بات گناہ پر خوش ہونے والے ذرا اِن روایات کو پڑھیں اور اپنی عادت سے توبہ کرکے اپنی دنیاوی و اُخروی زندگی کو بہتر بنانے کی فکر کریں۔
حرام کام پر خوش ہونا بھی حرام ہے اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں : ” اَلتَّفَرُّجُ عَلَی الْمُحَرَّمِ حَرَام یعنی حرام کام پر خوش ہونا حرام ہے۔[4]
گناہ پر خوش ہونا دوسرا گناہ ہے حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں : اے گناہ کرنے والے! تیرا گناہ کرلینے پر خوش ہونا اس گناہ سے بھی بڑا گناہ ہے حالانکہ تُو نہیں جانتا کہ اللہ پاک تیرے ساتھ کیا سُلوک فرمانے والا ہے۔[5]
روتا ہوا جہنم میں داخل ہوگا : حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” جو ہنس ہنس کر گناہ کرے گا وہ روتا ہوا جہنّم میں داخِل ہوگا۔ “[6]
اللہ پاک ہمیں گناہوں سے بچائے اور نیکیاں کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ
[1] ایک اخباری کالم سے ماخوذ
[2] خزائن العرفان ، ص404
[3] صحیح ابنِ حبّان ، 1/105 ، حدیث : 8
[4] فتاویٰ رضویہ ، 21/247- حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار ، 1/31
[5] تاریخ ابن عساکر ، 10/60- جمع الجوامع للسیوطی ، 15/105 ، حدیث : 12463 ملخصاً
[6] مکاشفۃ القلوب ، ص275۔
Comments