ننھے میاں کی کہانی
کعبے کی چابی
*مولانا احسان یوسف عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2023
آج کافی دنوں بعد ننھے میاں اپنے اَمّی ابّو کےساتھ ناصر چاچو کے گھر دعوت پر آئے تھے۔ گھر والوں سے سلام دعا کرنے کے بعد ڈرائنگ روم کارُخ کیا تودیکھا کہ چاچو اپنے دوست کے ساتھ ڈرائنگ روم میں ایک بڑا سا خوب صورت فریم لگارہے تھے۔ فریم اتنا پیارا اور دلکش تھاکہ باربار ننھے میاں کی نظریں اس پر جاکر جَم جاتی تھیں۔
چاچو نے بھی اس بات کو نوٹ کیا کہ ننھے میاں اس فریم کو کافی غور سے دیکھ رہے ہیں ، کھانے کے بعد چاچو نے بڑی شفقت سے ننھے میاں کوبلایا تو وہ فوراً ان کے قریب آکربیٹھ گئے۔ چاچو نے کہا : بیٹا ! آپ اُس نئے فریم کو بار بار کافی غور سے دیکھ رہے تھے ، کیا بات ہے ؟ ننھے میاں چہک کر بولے : چاچو ! فریم تو میں نے پہلے بھی بہت دیکھے ہیں لیکن یہ فریم مجھے بہت پسند آیا اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ کس چیز کا فریم ہے ؟
چاچو بولے : بیٹا ! اس مرتبہ ڈرائنگ روم کی خوب صورتی کے لئے کچھ نئی چیزیں شامل کی تھیں ، ان میں سے یہ ایک فریم بھی ہے جس پر کعبہ شریف کے دروازے کی تصویر بنی ہے۔ ننھے میاں نے بڑی بےتابی سے پوچھا چاچو ! کیا تصویر کی طرح سچ میں کعبہ شریف کے دروازے کو تالا لگایا جاتا ہے ؟ جی ہاں بیٹا ! کعبہ شریف کے دروازے کو تالا اس لئے لگایا جاتا ہے تاکہ ہر کوئی کعبہ شریف میں داخل نہ ہوسکے۔ ننھے میاں نے کچھ سوچتے ہوئے دوبارہ سوال کیا کہ چاچو اس تالے کی چابی کس کے پاس ہوتی ہے ؟ اس پر چاچو نے کہا بس میں کچھ ہی دیر میں فریش ہوکر آتا ہوں پھر آپ کو اس کی چابی کے بارے میں ایک کہانی سناؤں گا۔ کہانی کا نام سنتے ہی ننھے میاں بہت خوش ہوئے اور انہوں نے گھر کے سب بچّوں کو بتانا شروع کردیا کہ تھوڑی دیر میں چاچو ہمیں ایک خوبصورت اسٹوری سنائیں گے۔
بس پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے سب بچّے کہانی سننے کے لئے جمع ہوگئے ، چاچو آئے تو بچّوں کے چہرے خوشی سے چمکنے لگے۔ ان کے بیٹھتے ہی ننھے میاں نے اعلان کیا کہ آج ہم کعبۃ اللہ شریف کے دروازے پرلگے تالے کی چابی کی کہانی سننے والے ہیں۔ چاچو نے کہانی سنانی شروع کی : پیارے بچو ! فتحِ مکہ کے بعد جب اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدمصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مکۂ پاک میں تشریف لائے اورخانۂ کعبہ کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ خانۂ کعبہ کو تالا لگا ہوا ہے۔ پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بتایا گیا کہ چابی حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے چابی طلب کی ، کعبہ شریف کا دروازہ کھولا گیا اور ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کعبہ میں داخل ہوئے اور پھرنماز ادافرمائی۔ ننھے میاں کے کزن احمد نے حیران ہوکر پوچھا : ابوجان ! کیاکعبہ شریف کے اندر بھی نماز پڑھی جاتی ہے ؟ ناصر چاچو نے کہاجی بیٹا ! کعبہ شریف کے اندر ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز ادافرمائی ہے۔(سیرۃ النبویہ لابن ہشام ، ص473 ، تفسیر بغوی ، 1 / 353ماخوذاً) ننھے میاں سے نہ رہا گیا تو سوال کرتے ہوئے کہا : چاچو ! اب کعبہ شریف کے دروازے کی چابی کس کے پاس ہے ؟
ناصر چاچو نے شفقت سے ننھے میاں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا : بیٹا ! ابھی توکہانی باقی ہے ۔
چاچونے پھرکہناشروع کیاکہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب کعبہ سے باہر آئے تو آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! آپ جانتے ہیں کہ میں اور میرا خاندان حاجیوں کو پانی پلانے کے ذمہ دار ہیں ، آپ چابی ہمیں دے کر خانہ کعبہ کی دربانی بھی ہمیں ہی عطا فرما دیجئے۔ (یعنی ضرورت پڑنے پر ہم ہی خانہ کعبہ کا دروازہ کھول دیا کریں گے اور بند کردیا کریں گے ) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰنِ کریم کی یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی : ( اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(۵۸) ) (ترجمہ کنزُالعرفان : بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے ، بیشک اللہ سننے والا ، دیکھنے والا ہے۔) اور وہ چابی دوبارہ حضرت عثمان بن طلحہ کو دیتے ہوئے فرمایا : اے بنی طلحہ ! اس چابی کو اپنے پاس رکھ لو اب کعبہ شریف کے دروازے کی یہ چابی تمہارے پاس رہے گی اوراس کوتم سے ظالم کے سوا کوئی نہیں چھینے گا۔(پ5 ، النسآء : 58 ، در منثور ، 2 / 570 ، 571ماخوذاً) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
پیارے بچّو ! کعبۃُ اللہ شریف کے دروازے کی وہ چابی جناب عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں انہی کے پاس رہی پھر ان کی وفات کے بعدان کےخاندان کے پاس ہی محفوظ چلی آرہی ہے ، مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ نے یہ بات بیان کی ہے کہ اب تک کعبہ کی چابی انہیں کی اولاد میں ہے اور اِن شآءَ اللہ تاقیامت رہے گی کہ نہ کبھی ان کی نسل ختم ہوگی اور نہ کوئی ظالم بادشاہ ان سے چھین سکے گا ، یزید اور حجاج جیسے ظالموں نے بھی اس چابی کو ہاتھ نہ لگایا۔(مراٰۃ المناجیح ، 1 / 429)
کہانی سُن کر سب بچوں نے اونچی آوازسے کہا : سُبْحٰنَ اللہ !
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، پراپرٹی ڈیپارٹمنٹ ، دعوتِ اسلامی
Comments