مفتی عبد الرحیم سکندری رحمۃُ اللہِ علیہ

مفتی عبد الرحیم سکندری  رحمۃُ اللہ علیہ

*  قمرالدين عطاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2023

 سلطانُ الواعظين ، عمدةُ المناظرین ، رئیسُ العلماء ، شيرِ مصطفےٰ ، مناظرِ اسلام حضرت علامہ مفتی عبدُ الرحیم سکندری رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادتِ باسعادت 27 رمضانُ المبارک 1363ھ مطابق 14 ستمبر 1944ء بروز جمعۃُ المبارک بوقتِ صبح سندھ  کےضلع خیرپور میرس کی تحصیل ٹھری میرواہ کے گوٹھ ” سیبانو خان شر “ میں ہوئی آپ کا تعلق ” شر بلوچ “ قوم سے ہے۔[1]

ابتدائی تعلیم : آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے 1954 میں پرائمری تک کی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کے اس پرائمری اسکول میں حاصل کی جسے آپ ہی کے پردادا فقیر مولا بخش شر نے 1942ء کو اپنے گاؤں میں منظور کروایا تھا۔ ساتھ ہی حافظ قادر بخش صاحب سے قراٰنِ پاک کی تعلیم حاصل کی جنہیں آپ کے والد نے گاؤں کے بچّوں کو قراٰنِ پاک کی تعلیم دینے کے لئے مقرّر کیا تھا۔[2]

جامعہ راشدیہ میں داخلہ : پھر آپ نے 1957ء کو  برصغیر کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ راشدیہ درگاہ شریف پیر جو گوٹھ میں داخلہ لیا ، جہاں فارسی و عربی کی ابتدائی کتابوں سے لے کر دورۂ حدیث تک کی تعلیم اور دیگر علوم و فنون نہایت قابل اور عظیم المرتبت بہترین استاذوں سے ذہانت و شوق کے ساتھ حاصل کئے ، علاوہ ازیں اساتذہ کا ادب و احترام ، ان کی خدمت اور درگاہ شریف کے فیوض و برکات سمیٹنے کا معمول بھی جاری رکھا ۔ [3]

اساتذۂ کرام : آپ  رحمۃُ اللہ علیہ نے جامعہ راشدیہ میں جن قابلِ فخر اساتذہ و علمائے کرام سے علم کا فیضان حاصل کیا ان میں استاذُ العلماء ، عمدۃُالفقہاء ، مفتیِ اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی ، صوفیِ باصفا ، استاذُالعلماء علامہ مولانا محمد صالح مہر ، شیخُ الحدیث علامہ مفتی تقدُّس علی خان ، جامعُ المعقول و المنقول علامہ سید حسین اختر ، علامہ عبدُالصمد ميتلو اور علامہ کریم بخش دايو  رحمۃُ اللہ علیہم شامل ہیں۔[4]

سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت : حصولِ علم سے فراغت کے بعد 27 رجب المرجب 1386ھ مطابق 11 نومبر 1966ء بروز جمعۃ المبارک کو آپ کی دستارِ فضیلت ہوئی جس میں قابلِ قدر نامور علما مثلاً عارف باللہ علامہ پیر محمد قاسم مشوری ، مجاہدِ اسلام پیر غلام مجدد سرہندی ، غزالی زمان علامہ سید احمد سعید کاظمی ، مناظرِ اسلام علامہ محمد عمر اچھروی ، بلبلِ سندھ حضرت مولانا قاضی دوست محمد ، سکھر کے مفتیِ اعظم مولانا محمد حسین قادری اور مخدوم امیر احمد کھڑائی  رحمۃُ اللہ علیہم شریک ہوئے۔ [5]

شاہپور چاکر میں مدرسہ صبغۃُ الہدیٰ کا قیام : آپ نے دستارِ فضیلت والے سال ہی اپنے استاذِ محترم استاذُالعلماء حضرت علامہ مولانا محمد صالح مہر رحمۃُ اللہ علیہ کے حکم پر شاہپور چاکر ضلع سانگھڑ سندھ کی غوثیہ مسجد میں امامت و خطابت شروع کی اور 1967ء میں مدرسہ صبغۃُ الہدیٰ کا آغاز فرمایا جہاں ابتداءً ناظرہ قراٰنِ کریم اور فارسی و عربی کی ابتدائی کلاسز پڑھانے کا آغاز فرمایا اور پھر نئے اساتذہ کی تقرُّری کے بعد طلبہ کے لئے درسِ نظامی کی تمام کلاسز کی سہولت پیدا کردی گئی البتہ دورۂ حدیث آپ خود پڑھایا کرتے تھے۔ [6]

تصنیف و تالیف : جہاں آپ کے درس و تدریس نے امت کو کئی علمائے کرام کا تحفہ دیا وہیں میدانِ تصنیف میں بھی آپ کے کئی شاہکار نظر آتے ہیں  ، آپ کی تحریر کردہ کچھ کتابیں یہ ہیں : مطبوعہ کتب : ذکرِ عید میلادُ النبی ، سیفِ سکندری (سندھی ، اردو)  ، سَدِّ سکندری  ، تحفۃُ المومنین  ، سیفِ یزدانی (اردو ترجمہ بنام الفتح المبین) ، فضائل و مسائل قربانی ، صحبت سپیرین جی۔ غیر مطبوعہ کتب : تحقیقُ المختار فی افضلیۃ صاحب المصطفیٰ بالغار ، مٹیء لدھو مان ، عورت جی سربراہی جو شرعی حکم ، قرةُ العينين فی اثبات ایمان ابوین کریمین ، سیفُ السنۃ علی عنق صاحبِ البدعۃ ، توضیحُ الافک عن مسئلۃ الفدک ، مجموعہ فتاویٰ سکندریہ وغيرہ۔[7]

لائبریری کا قیام : آپ نے 1967ء میں ایک لائبریری کی بنیاد بھی رکھی ، جس کا شمار ملک کی چند اہم لائبریریوں میں ہونے لگا ، اس میں قراٰنِ کریم کی 100سے زائد تفاسیر ، احادیث مبارکہ کے تمام قدیم اور مستند ذخیرے ، سیرتِ طیبہ کی تمام مشہور کتب ، رجال ، فقہ ، اصولِ فقہ ، فتاویٰ ، تصوف ، عربی ، فارسی ، اردو ، سندھی ادب ، فلسفہ ، لغات اور تقابلِ ادیان سمیت مختلف علوم و فنون پر ہزاروں کتب موجود ہیں ، نیز تفسیر ، حدیث ، فقہ ، تصوف اور تاریخ پر مشتمل عربی ، فارسی ، سندھی کے تقریباً 300 نایاب مخطوطات بھی اس لائبریری کی زینت ہیں۔ [8]

فن خطابت : آپ رحمۃُ اللہ علیہ ایک مؤثر خطیب ، مبلغ ، عاشقِ رسول اور مسلکِ اہلِ سنت و جماعت کے حقیقی ترجمان کے طور پر بھی پہچانے جاتے تھے ، آپ نے پاکستان کے کئی علاقوں  میں دینِ اسلام ، عشقِ رسول ، عظمتِ صحابہ و اہلِ بیت اور عقائدِ اہلِ سنت کو عام کیا ، خطابت میں بہترین مہارت کی بِنا پر پیرِ طریقت آغا محمد ابراہیم جان سرہندی فاروقی رحمۃُ اللہ علیہ نے آپ کو سلطانُ الواعظين کا لقب عطا کیا۔ [9]

مناظرے : آپ نے سندِ فراغت کے پانچ سال بعد ایک تجربہ کار مدرّس سے علمِ غیب کے موضوع پر تاریخی مناظرہ کیا اور اسے شکستِ فاش دی ، دوسرا مناظرہ اس شخص سے ہوا جس کا مناظرہ حضرت علامہ فیض احمد اویسی صاحب رحمۃُ اللہ علیہ کے ساتھ طے تھا مگر اس نے بہانہ کرتے ہوئے آخری لمحات میں سندھی میں مناظرہ کی شرط رکھی تو مفتی عبدُ الرحیم سکندری صاحب کو ہی اس کے مقابل کیا گیا ، مناظرہ کے آغاز ہی میں وہ مناظر مفتی صاحب کے علم اور حاضر جوابی کی تاب نہ لاکر اپنی کتابیں چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کر گیا۔ [10]

اولادِ امجاد : اللہ پاک نے آپ کو تین بیٹیوں اور چار بیٹوں سے نوازا تھا۔پہلے بیٹے عبدالنبی اور دوسرے علامہ مفتی نور نبی   نعیمی سکندری صاحب جو دارُالعلوم نعیمیہ (کراچی) سے فارغُ التحصیل ہوئے ، اس وقت مدرسہ صبغۃُ الہدیٰ شاہپور چاکر میں تدریس واِفتا میں مصروفِ عمل ہیں۔ تیسرے بیٹے ڈاکٹر مفتی حق النبی سکندری الازہری صاحب ہیں جنہوں نے درسِ نظامی جامعہ نظامیہ رضویہ (لاہور) سے کیا ، دورۂ حدیث شریف اپنے والد گرامی کے پاس کیا اور 2008ء میں جامعۃُ الازھر قاہرہ مصر جاکر ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تکمیل کی ، آپ ہی اپنے والد کے جانشین بھی مقرر ہوئے ، اس وقت آپ درس و تدریس تصنیف و تالیف اور وعظ و تقریر کے ذریعے خدمتِ دین میں مصروف ہیں۔ چوتھے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر فضل نبی ہیں جنہوں نے چین کے شہر ووہان کی ایگری کلچرل یونیورسٹی سے وٹنری میڈیسن میں پی ایچ ڈی کی اور اس وقت اوتھل یونیورسٹی بلوچستان میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ [11]

وصال : آپ رحمۃُ اللہ علیہ 11 رجب المرجب 1439ھ 29 مارچ 2018ء بروز جمعرات لیاقت نیشنل ہاسپٹل (کراچی)میں 74 برس کی عمر میں اپنے خالق و مالک سے جاملے۔

نمازِ جنازہ و تدفین : اُسی روز عصر کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول شاہپور چاکر کے گراؤنڈ میں شیخُ الحدیث علامہ مفتی محمد رحیم سکندری  اطال اللہ عمرہٗ کی امامت میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی جس میں کثیر علما و مشائخ ، طلبہ اور عاشقانِ رسول نے شرکت کی اور تدفین مدرسہ صبغۃُ الہدیٰ کے صحن میں سادات ، علما و مشائخ اور فرزندوں کے ہاتھوں ہوئی ، اللہ کریم آپ کے درجات بلند فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مجلس رابطہ بالعلماء والمشائخ



[1] سوانح حیات و خدمات مفتی عبدالرحیم سکندری ، ص 21 ماخوذاً

[2] مختصر سوانح حیات و خدمات مفتی عبدالرحیم سکندری اردو ، ص 23-22 ماخوذاً

[3] تذکرة المحافل ، ص10 ماخوذاً

[4] سوانح حیات و خدمات مفتی عبدالرحیم سکندری ، ص22-23 ماخوذاً

[5] تذکرة المحافل ، ص 10 ماخوذاً

[6] سوانح حیات و خدمات مفتی عبدالرحیم سکندری ، ص28 ماخوذاً

[7] سوانح حیات و خدمات مفتی عبدالرحیم سکندری ، ص31 ماخوذاً

[8] مختصر سوانح حیات و خدمات مفتی عبدالرحیم سکندری اردو ، ص42 ماخوذاً

[9] سوانح حیات و خدمات مفتی عبدالرحیم سکندری ، ص38 ماخوذاً

[10] الفتح المبین ، ص10 ماخوذاً

[11] مختصر سوانح حیات و خدمات مفتی عبدالرحیم سکندری اردو ، ص98تا 100 ماخوذاً۔


Share