آخر درست کیا ؟
کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہے ؟ ( قسط : 02 )
*مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ فروری 2023
اسلامک بینکنگ کے علاوہ میڈیکل کے بیسیوں جدید مسائل مثلاً ٹیسٹ ٹیوب بے بی ، انتقالِ خون ، اعضاء کی پیوند کاری وغیرہا کے مسائل کا حل آج کے علماء ہی اجتہاد کرکے دے رہے ہیں۔ اسی طرح دورِ جدید میں تجارت کے نت نئے انداز دنیا میں رائج ہوچکے ہیں ، آن لائن تجارت اور امپورٹ ایکسپورٹ میں نئی نئی جہتیں نمودار ہوچکی ہیں۔ تجارت کے متعلق ان جدید مسائل کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور ان پر علماء نے بہترین انداز میں اجتہاد کیا ، جائز و ناجائز کی صورتیں واضح کیں ، ناجائز صورتوں کے متبادل پیش کئے۔ یہ سب کاوشیں اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ مسلمانوں کے دینی و علمی طبقے میں اجتہاد جاری ہے اور اجتہادکا یہ فریضہ بھی اہل افرادسرانجام دے رہے ہیں اوریہ اجتہاد ان مسائل میں کیا جارہا ہے جو مسلمانوں کو درپیش ہیں اور جن کا تعلق ان کی ضروریات و حاجات سے ہے۔
باعمل اہلِ علم دینی شخصیات کے اجتہاد کے برخلاف ذرا نااہلوں کے اجتہادپر ایک نظر ڈالیں اور ان کے اجتہادی موضوعات کی فہرست بنا کر دیکھ لیں۔ اکثر جعلی اجتہادات کے پیچھے بنیادی وجہ خواہشاتِ نفس ہوں گی۔ نااہلوں کے اجتہاد کا پہلا موضوع ہوگاکہ موسیقی اور گانا بجانا حلال ہے۔ دوسرا اجتہاد ہوگا کہ پردے کی ضرورت نہیں اور اسلام میں حجاب و نقاب کا کوئی حکم نہیں۔ تیسرا اجتہاد ہوگا کہ عورتوں کو گھروں سے نکل کر بازاروں میں آنا چاہیے ، انہیں گھر کے کاموں کے ساتھ ، باہر کے کام کرکے دگنا بوجھ اٹھانا چاہیے اورنامحرم مردوں ، عورتوں کو اکٹھے بیٹھنے ، گپ شپ لگانے ، مذاق مستی کرنے کی کھلی اجازت ہونی چاہیے۔ چوتھا اجتہاد ہوگاکہ سودکی فلاں فلاں صورتیں جائزہونی چاہیے۔پانچواں اجتہاد ہوگا کہ غیر مسلموں کو اسلام کے فلاں فلاں کام پر اعتراض ہےلہٰذا اس پر شرمندہ ہوکر اس حکم کو اسلام سے خارج کردیا جائے اور اس کا کوئی ایسا بیان بیان کیا جائے کہ اصل حکم کا وجود ہی باقی نہ رہے۔ الغرض آپ نااہلوں کے اجتہاد کے موضوعات اور نتائج دیکھ لیں ، موضوعات نفسانی خواہشات کے متعلق ہوں گے اور نتائج ہمیشہ حلال قرار دینے کی صورت میں نکلیں گے۔
نمازیں ترک کرکے ، نامحرموں میں خوش و خرم بیٹھ کر اور کبھی سگریٹ کے سوٹے لگاتے ہوئے جو حضرات اجتہاد فرماتے یا ایسے اجتہاد کے طلبگار و معاون و محرک ہیں ان کی عمومی تحریر و گفتگو پر توجہ دیں تو پتا چلے گا کہ انہوں نے کبھی اسلام کے دشمنوں کا تو کسی علمی سطح پر مقابلہ نہیں کیا البتہ باعمل علماء اور دین کے سچے خادموں پر گرجنا برسنا ان کا روز مرہ کا معمول ہے ، بلکہ یہا ں دوطرح کے طبقے ہیں ، کچھ تووہ ہیں جوخواہشات ِ نفس کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات ہی سرے سے ختم کردیں لیکن انہیں پرابلم یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں مسلمانوں کے سامنے یہ کہنامشکل ہے کہ اسلام کی تعلیمات اب قابلِ عمل نہیں ہیں کیونکہ جوایسا کہے گا ، ذلت و رسوائی اٹھائے گا لہٰذا ان نااہلوں نے یہ حیلہ نکالا کہ اسلامی تعلیمات کی جگہ یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ تو ’’ مولویوں کی باتیں ہیں“ ”یہ قبائلی روایات ہیں“”یہ دقیانوسی چیزہے“ آپ ان سے پردے کی بات کریں تو فورا ًاسے ”قبائلی پردہ“ کہنا شروع کردیں گے۔ یہ لوگ چونکہ اسلامی تعلیمات کاڈائریکٹ انکارکرنے کی ہمت نہیں رکھتے تو ”مولویوں“ کا نام بطورِ حیلہ استعمال کرکے بالواسطہ انکار بھی کردیتے ہیں اورتبرا کرکے دل بھی خوش کرلیتے ہیں حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ جن باتوں کا یہ انکار کرتے ہیں ، وہ مولویوں کی باتیں نہیں بلکہ اسلام کی باتیں ہیں۔ آپ یقین کریں کہ ایسی جگہ ” مولوی“ کا لفظ نکال کر”اسلام “ کا نام لکھ دیں تو ان لوگوں کے دلوں کا اصل جملہ بن جائے گایعنی ”آج اسلام کی باتیں قابلِ عمل نہیں ہیں“۔ ”مولوی“ کی جگہ ”اسلام“ کا نام لکھنے کی بات اس لئے کررہا ہوں کیونکہ پردے کا حکم مولویوں نے نہیں دیا بلکہ قرآن و حدیث نے دیا ہے۔یونہی باجوں کی حرمت علماء نے اپنی طرف سے نہیں بنائی بلکہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایاہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تمام قسم کے باجوں کے آلات مٹادینے کا حکم دیا ہے۔ ( مسند احمد ، 8 / 286 ، حدیث : 22281 ) تو اس ممنوع گانے باجے کو جائز کہنے والے افراد نااہل خود ساختہ مجتہدین کا پہلا گروہ ہیں۔
اب ذرا اجتہاد کے دعوے دار نااہلوں کے دوسرے گروہ کی سنئے۔ یہ دوسرا گروہ وہ ہے جوجانتے ہیں کہ مسلمان اپنی تمام تعلیمات قرآن و حدیث سے لیتے ہیں لہٰذا قرآن و حدیث ہی کو اپنی جدید تاویلات کے لئے تختۂ مشق بنالیں ، چنانچہ یہاں پھر دو گروہ ہیں ، ایک وہ جس نے دیکھا کہ حدیثوں میں تو احکام نہایت صراحت سے لکھے ہوتے ہیں جن کی تاویل نہیں ہوسکتی ، ہاں قرآن میں اصولی حکم دیا جاتا ہے جبکہ تفصیل نہیں ہوتی جیسے قرآن میں ہے کہ سودحرام ہے لیکن اس کی تفصیلات نہیں بیان کی گئی ، یونہی نمازکی فرضیت کا حکم ہے لیکن نمازوں کی تعداد وغیرہ صراحت سے بیان نہیں کی گئی۔ اس طرح دیگربہت سے احکام ہیں تو اس گروپ والے سمجھ گئے کہ حدیث کو دلیل و حجت ماننے کے بعد ان کا داؤ نہیں چل سکے گا لہٰذا انہوں نے آسان طریقہ یہ نکالا کہ حدیث کاانکارکردیا اور نعرہ لگادیا کہ حدیث معتبرہی نہیں ہے ، صرف قرآن معتبر ہے ، نیز چونکہ قرآن میں سب کچھ ہے ، لہٰذا قرآن ہی کافی ہے۔ یوں منکرینِ حدیث نے جو دل کیا ، اجتہاد کیا اورجو چاہا ، حلال یا حرام کیا۔
اجتہاد کی بات کرنے والے دوسری قسم کے دوسرے گروہ نے ذرا چالاکی سے کام لیا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ منکرینِ حدیث کو تو پوری امت نے مستردکردیا لہٰذا اب کوئی اور طریقہ تلاش کرنا چاہیے کہ لوگ ہمیں منکرینِ حدیث بھی نہ کہیں اور حدیث سے معاذ اللہ جان چھڑانے کا طریقہ بھی ہاتھ آجائے۔ چنانچہ اس دوسرے گروہ نے کہا : ہم قرآن کو مانتے ہیں اور حدیث کو بھی مانتے ہیں بلکہ اس حوالے سے یہ چالاک لوگ ایسے جملے استعمال کرتے ہیں کہ عام مسلمان تو واہ واہ سبحان اللہ کہتے ہی رہ جائیں ، چنانچہ ان کا مشہور جملہ ہے : ”دین کا تنہا ماخذ محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلّم کی ذات والا صفات ہے۔“یہ جملہ لکھ کر واہ واہ تو کافی سمیٹ لی گئی لیکن حدیث پر اصل حملہ اس کے بعد کیا گیا اور وہ یہ کہ حدیث کو ماننے میں پوری امت کے محدثین کے معیار کے علاوہ فلاں فلاں مزید شرطیں بھی ضروری ہیں اور وہ شرطیں اس گروہ نے ایسی لگائیں کہ سو میں سے اٹھانوے احادیث ویسے ہی خارج ہوجائیں مثلاً یہ شرط رکھی کہ ایک صحابی سے ”سوفیصد مستند تابعی“ اوراس سے آگے بھی ”سو فیصد مستند راوی“ بھی اگر روایت کرے تب بھی ان کی حدیث معتبر نہیں جب تک کہ ایک سے زائد افراد روایت نہ کریں۔ یوں اٹھانوے فیصد روایات کا پتّا صاف کردیا کیونکہ روایات ایسی ہی ہوتی ہیں جنہیں خبر واحد کہا جاتا ہے اورخبر واحد کے بعد جو دو فیصد باقی بچیں ان میں کچھ تاویل وغیرہ کردی۔
گویا عملی طور پر وہی کیا جو منکرینِ حدیث نے کیا لیکن پہلوں کی ناتجربہ کاری نے انہیں مردود بنادیا تو اس بعد والے ہوشیار گروپ نے ذرا ہٹ کے طریقہ اختیار کیا اور کھلی بدنامی سے بچ گئے لیکن اہل ِ علم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اس گروہ کاہدف اور منزل بھی وہی ہے جو منکرینِ حدیث کی ہے اور ان کا اجتہاد بھی اسی نفس پرستی ، تن آسانی اور آزاد روی کی طرف لے جاتا ہے جہاں پہلے کے نااہلوں کا اجتہاد لے گیا اور یہ بات دوسرے چالاک گروہ کی مختلف باتوں سے بھی ظاہر ہوتی رہتی ہے کیونکہ یہ لوگ تحریر میں تو بڑے محتاط الفاظ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب زبانی کلامی گفتگو ہوتی ہے تو نہایت بے باکی سے بول دیتے ہیں کہ یہ حدیثیں تو قصے کہانیاں ہیں جوصحابہ و تابعین آپس میں وقت گزاری کے لئے معاذ اللہ گپ شپ کے طور پر ایک دوسرے کو سناتے تھے جیسے آج کل رات کو لوگ چوک چوراہے یا چائے کے ہوٹل پر بیٹھ کر دن بھر کی کارستانی یا پرانے واقعات ایک دوسرے کو سناتے ہیں ، معاذ اللہ ۔ یہ ہے اصلیت ان لوگوں کے حدیثوں کو ماننے کی اور ان کے اجتہاد کی کہانی کی اور یوں خبر واحد کا انکار کرکے اور اسے داستانیں قرار دے کر حدیث کی مستند کتابوں بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابو داؤد ، سب کتابوں کی اکثر احادیث سے جان بھی چھڑالی۔
( جاری )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی
Comments