اگر اپنے بچوں کو دوست نہ بنایا تو!

ماں باپ کے نام

اگراپنے بچوں کودوست نہ بنایاتو !

*مولانا آصف جہانزیب عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2023ء

عام طورپرہماری گفتگو کا موضوع  چھوٹے بچوں کی تربیت  کے متعلق ہوتا ہے ، لیکن آج ہم ان بچوں کے بارے میں بات کریں گے جو ٹین ایج کہلاتے ہیں ،  یعنی  وہ بچے جن کی عمر 13 سے  19 سال  تک ہوتی ہے۔ اس عمر کے بچّوں  کا ذہن ، ان کی سوچ ، ان کے جذبات الگ ہی  رو میں بہہ رہے ہوتے ہیں۔ یہ  وہ عمر ہوتی ہے  کہ اگر والدین اس عمر کے بچوں کو صحیح  طریقے سے کنٹرول نہ کریں تو یہ  بچے والدین کو اپنا دشمن   سمجھنے لگتے ہیں۔

یہاں پہلے تو یہ  جاننے  کی  ضرورت ہے کہ اس عمر کے بچوں کی سوچ  اور خواہشات کس طرح کی ہوتی ہیں ، جب  والدین یہ  جان لیں گے  تو پھر انہیں اپنے بچوں کے مسائل  سمجھنا اور  انہیں  اپنا دوست بنانا مشکل نہیں ہوگا ۔

 ( 1 ) اس عمر کے  بچوں  کی  ایک کیفیت یہ  ہوتی ہے  کہ   اپنی عمر سے بڑے اور مشکل کام کرنا  ان کواچھالگتا ہے۔ اس لئے  وہ ایسے  کام کرلیتے ہیں جو بعد میں ان کے لئے  اور ان کے  والدین کے  لئے بہت تکلیف کا باعث بن  جاتے  ہیں ۔

والدین کےلئےضروری ہے کہ بچّوں کی انرجی اچھے کاموں میں لگائیں تاکہ ان کےجوش و جذبےکوقرار مل سکے ، اس کے لئے والدین اپنے وسائل کے مطابق  بچوں  سے  ایکسرسائز کروا سکتے ہیں ، انہیں مناسب پارک یا کھلے میدان میں لے جائیں ، جہاں وہ بھاگ دوڑ اور اچھل کود کریں ، اس کے علاوہ  وقتاً فوقتاً ان سے کوئی  جسمانی مشقت والا تھوڑابہت کام ( باہرسے سامان لانا ، گھرکی چھوٹی موٹی صفائی میں مدد لیناوغیرہ ) بھی  کروا یا جا سکتا ہے۔ اس طرح بچّوں کی جسمانی  و ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔

 ( 2 ) اس عمر کے بچے آزادی پسند اور من موجی ہوتے ہیں ،   ایسے میں جب والدین انہیں روکتے ٹوکتے ہیں  تو وہ سمجھتے ہیں  والدین ان کی  آزادی کے  دشمن ہیں۔

یہاں والدین کو چاہئے کہ وہ آرڈر دینے کے بجائے بچے کو دلیل سے سمجھا ئیں ، بچےکو ذہنی طور پر  اپنے  خیالات سے مطمئن کریں ، ایک بار  آپ کے بچے  کے ذہن میں آپ کی دلیل بیٹھ گئی پھر دوبارہ آپ کو اسے ڈانٹنے یا زور زبردستی کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

 ( 3 ) اس عمر کے  بچوں کے عموماً  دوست بھی ہوتے ہیں ، ان میں اچھے اور بُرے دونوں ہوتے ہیں۔ سب دوست آپس میں ملتے ہیں تفریح کرتے ہیں ، اپنے  مسائل ، خواہشات ایک دوسرے کو بتاتے ہیں ، اب چونکہ دوست بھی کم عمر اور ناتجربہ کار ہوتے ہیں ، نتیجۃً غلط مشورے اور غلط آئیڈیاز شیئر ہوتے ہیں ،  اس طرح غلط  کاموں میں پڑجانے کا خطرہ بہت بڑھ جاتاہے ۔

یہاں والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ شروع سے ہی ایسے تعلقات بنائیں کہ بچہ ان سے اپنی  ہر بات ، اپنی  ہر خواہش  چاہے وہ اچھی ہو یا بری بغیرڈرے شیئر کر سکے ، اس  طرح بچے  غلط دوستوں اور غلط  کاموں سے  کافی حد تک محفوظ رہ سکیں گے۔ والدین سے بڑھ کر بچوں کا خیر خواہ اور کون ہو سکتا ہے ! اس کے  لئے ضروری ہے کہ  والدین  بچوں کے  لئے روزانہ کی بنیاد پر وقت نکالیں کیونکہ اگر آپ انہیں وقت نہیں دیں گے تو کوئی  اور انہیں وقت دے گا۔ پھر جو بھی انہیں وقت دے گا وہی ان کے نزدیک ان کا دوست اور ہمدرد  ہوگا  اگرچہ حقیقت اس کے برخلاف ہو ۔

 محترم والدین ! کوشش کر کے بچوں کو اپنے قریب لائیے ، انہیں احساس دلائیے کہ آپ ان کے دشمن نہیں خیر خواہ ہیں۔ جب بچے آپ سے اٹیچ ہوں گے  تب ہی آپ  اپنے  بچوں کی اچھی تربیت کر سکیں گے ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ بچوں کی دنیا ( چلڈرنز لٹریچر ) المدینۃ العلمیہ  Islamic Research Center


Share

Articles

Comments


Security Code