حضرت عَیّاش بن ابی ربیعہ رضی اللہُ عنہ

روشن ستارے

حضرت عَیّاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ

*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2023ء

حضرت عَیّاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ ایک بلند پایہ اور عظیم صحابیِ رسول ہیں ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دارِ ارقم میں داخل ہونے سے پہلے ہی آپ مسلمان ہوچکے تھے۔[1]جب حبشہ کی جانب دوسری ہجرت ہوئی تو آپ اپنی زوجہ کے ساتھ حبشہ چلے گئے اور وہیں آپ کے ایک فرزند حضرت عبد اللہ بن عیاش کی ولادت ہوئی پھر مکے واپس آئے اور یہیں قیام کیا ، جانبِ مدینہ ہجرت کی لیکن کفار کے دھوکے میں آکر پھر مکہ آگئے اور قید وبند کی طویل صعوبتیں اٹھائیں۔[2] ہجرت کا واقعہ کچھ یوں ہے :

ابو جہل کا دھوکا : آپ نے حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی ہمراہی میں مدینے کی جانب ہجرت کی جب آپ مقامِ قباء پر ٹھہرے تو آپ کے ماں شریک بھائی ابو جہل اور حارث بن ہشام آپہنچےاور کہنے لگے : والدہ نے قسم کھالی ہے کہ جب تک تمہیں نہ دیکھ لے تب تک نہ سر میں تیل ڈالے گی اور نہ کسی سائے دار چیز کے نیچے بیٹھے گی ، یہ دیکھ کر حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ نے آپ پر انفرادی کوشش کی : اور فرمایا : یہ تم سے تمہارا دین چھڑوانا چاہتے ہیں ، اگر تمہاری ماں کو مکہ کی گرمی لگے گی تو وہ خود سائے میں چلی جائے گی اور جوئیں اسے کاٹیں گی تو وہ کنگھی کرلے گی ، آپ نے کہا : مکہ میں میرا کچھ مال بھی ہے ، شاید میں اس مال کو لینے میں کامیاب ہوجاؤں ، حضرت عمر فاروق نے فرمایا : میرا آدھا مال لے لو مگر لوٹ کر نہ جاؤ ، لیکن آپ نے مکہ جانا ہی مناسب خیال کیا ، یہ دیکھ کر حضرت عمر فاروق نے فرمایا : اچھا! یہ میری اونٹنی لے لو یہ سدھائی ہوئی  ( یعنی فرمانبردار )  اور تیز رفتار ہے اس پر ہی سوار رہنا اگر مشرکین کی جانب سے تمہیں کچھ بھی خطرہ لاحق ہوتو تم اس کےذریعہ بچاؤ کرلوگے۔ آخرِ کار آپ اپنے بھائیوں کے ساتھ چل پڑے مکے کے قریب پہنچ کرابو جہل نے کہا : میرا اونٹ تھک گیا ہے ، تم مجھے اپنی اونٹنی پر بٹھا لو تمہاری اونٹنی تیز رفتار ہے ، آپ نے جوں ہی اونٹنی بٹھائی ان دونوں نے حملہ کردیا[3]اور آپ کو کَجاوہ کی رسیوں سے باندھ دیا پھر ہر ایک نے 100 کوڑے مارے اس کے بعد کافره والدہ کے پاس لائے ، اس نے کہا : میں تجھے تب تك نہ کھولوں گی جب تک تو اسلام کا انکار نہ کردے ، پھر آپ کو رسیوں میں جکڑے جکڑے دھوپ میں ڈال دیا گیا[4] اور مکہ والوں کو ہر طرح کے ظلم وستم کرنےکی اجازت دے دی۔[5]اسی قید میں غزوۂ بدر ، اُحد اور سن 5ھ معرکۂ خندق کے ایام بھی گزر گئے لیکن رہائی کی کوئی صورت نہ بَن پائی۔[6]

دعائے نبوی ملی : واقعۂ بدر سے پہلے اور بعد نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا آپ کے لئے دعا کرنا ثابت ہے۔[7] نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یوں دعا کرتے : اے اللہ! تو عَیّاش بن ابی ربیعہ کو  ( کفار کے ظلم سے )  نجات دے۔[8] بعض روایتوں میں ہے کہ 40 دن تک نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دعا کرتے رہے : اے اللہ !نجات دے ولید بن ولید ، عیاش بن ابی ربیعہ ، ہِشام بن عاص اور مکہ کے کمزور مسلمانوں کو۔[9]

قید سے خلاصی : جب حضرت ولید رضی اللہ عنہ اپنے گھر والوں کی قید سے چھٹکارا پاکربارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کون ہے جو میرے لئے عیاش اور ہشام کو لائے ، یہ کلمات سنتے ہی حضرت ولید نے کہا : یارسول اللہ! میں آپ کے لئے ان دونوں کو لے کر آؤں گا ، اس کے بعد حضرت ولید چھپتے چھپاتے مکہ آئے ،  ( حالات کا جائزہ لیا یہاں تک کہ ) ایک عورت کو دیکھا وہ کھانا لے کر جا رہی ہے ، پوچھا : کہاں جارہی ہو ؟ اس نے کہا : ان دونوں قیدیوں کو کھانا دینے ، حضرت ولید اس عورت کا پیچھا کرتے ہوئے اس مکان تک پہنچ گئے جہاں یہ دونوں حضرات قید تھے ، اس مکان کی کوئی چھت نہ تھی ، جب شام ہوئی تو حضرت ولید دیوار پھلانگ کر اندر کُود گئے ، پھر ایک پتھر لیا اور ان دونوں حضرات کی بیڑیوں کے نیچے رکھا اور تلوار کا بھرپور وار کرکے بیڑیوں کو توڑ ڈالا ، پھر اپنے اونٹ پر ان دونوں کو بٹھاکر مدینے لے آئے نبی کریم اس پر خوش ہوگئےاور آپ کے اس کام پر اللہ کا شکر ادا کیا۔  [10]  دورانِ قید حارث بن زید آپ کو کوڑے مارتا اور سخت سزادیتا تھا ایک مرتبہ آپ نےاس سے کہا : اگر تو مجھے کسی جگہ تنہا ملا تو تجھے قتل کردوں گا ، بعد میں حضرت حارث  رضی اللہ عنہم سلمان ہوگئے لیکن آپ کو معلوم نہ ہوسکا لہٰذا فتحِ مکہ کے بعد آپ نے حضرت حارث کو مقامِ قباء میں قتل کردیا ، پتا چلنے پر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوگئے اور معاملہ گوش گزار کردیا ، اس پر سورة النسآء آیت 92 نازل ہوئی[11]اور کفارے کی صورت بیان کی گئی۔[12]

خدمات : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو یمن کی جانب اپنا قاصد بنایا  [13]نبیِّ رحمت نے آپ کو ایک خط دیا اور فرمایا : تم وہاں صبح کے وقت داخل ہونا پھر اچھی طرح وضو کرنا اور دو رکعتیں پڑھنا پھر اللہ پاک سے کامیابی کی دعا کرنااور ربِّ کریم کی پناہ لینا ، خط کو سیدھے ہاتھ میں پکڑنا اور سیدھے ہاتھ سے ہی ان کے سیدھے ہاتھ میں دینا ، وہ  ( اسلام )  قبول کرنے والی قوم ہے ، آپ فرماتے ہیں : میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ زیب و زینت سے آراستہ ہیں ، میں انہیں دیکھتا ہوا آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ ایک جگہ جاکر رک گیا ، وہاں تین دروازوں پر بڑے بڑے پردے لٹکے ہوئے تھے میں درمیان والے دروازے میں داخل ہوگیا پھر ایک بڑے صحن میں موجود قوم کے پاس پہنچا اور کہا : میں رسول ُاللہ کا قاصد ہوں ، اور جیسا مجھے حکم ملا تھا ویسا ہی کیا تو انہوں نے اسلام کی دعوت قبول کرلی ، سب کچھ ویسا ہی ہوا جیسا حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تھا۔[14]

عام زندگی : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ظاہری وصال کے بعد آپ شام تشریف لے گئے اور جہاد میں حصہ لیا پھر مکہ تشریف لائے اور اپنی زندگی کے باقی دن یہیں گزار دیئے۔[15]

واقعۂ شہادت : ایک قول کے مطابق ماہِ رجب 15 ہجری جنگِ یرموک میں کئی صحابہ  رضی اللہ عنہم شدید زخمی ہوئے ، اسی حالت میں حضرت حارث بن ہشام نے پانی طلب کیا ، پانی پیش کیاگیا تو انہیں حضرت عکرمہ زخمی نظر آئے ، انہوں نے پانی پئے بغیر فرمایا : پانی عکرمہ کو دو ، حضرت عکرمہ نے حضرت عیاش کو زخمی دیکھا تو پانی پئے بغیر فرمایا : پانی انہیں دے دو ، پانی ابھی حضرت عیاش کےپاس نہ پہنچا تھا کہ وہ شہید ہوگئے ، یوں تینوں حضرات شربتِ شہادت سے سیراب تو ہوگئے لیکن پانی کا ایک قطرہ حلق سے نیچے نہ اتارسکے۔[16]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] اسد الغابہ ، 4 / 342

[2] تاریخ ابن عساکر ، 47 / 236 تا 238 ملتقطاً

[3] مسند بزار ، 1 / 258 ، حدیث : 155-تاریخ ابن عساکر ، 47 / 236 ، 238 ، 243

[4] تفسیر بغوی ، 1 / 368 ، النسآء : 92

[5] تاریخ ابن عساکر ، 47 / 243

[6] سیرت ابن ہشام ، ص145

[7] تاریخ ابن عساکر ، 47 / 245

[8] بخاری ، 1 / 345 ، حدیث : 1006

[9] سیرت حلبیہ ، 2 / 31

[10] بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت عیاش اور حضرت ہشام تکالیف برداشت نہ کرپائے اور دینِ اسلام سے پھر گئے تھے لیکن سیرت حلبیہ میں ہے اگر ایسا ہوتا تو ان دونوں حضرات کو رسیوں اور قید وبند سے آزاد کردیا جاتا ، البتہ! ہوسکتا ہے کہ کفار نے ان حضرات کی بات پر اعتبار نہ کیا اور اس وجہ سے رسیوں سے باندھے رکھا ہو۔ اور اگر اسلام سے پھر جانے کی بات درست بھی ہو تو یہ صرف ظاہراً ہی لیا جائے گا کیونکہ نبی کریم نے ان دونوں کے لئے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی تھی۔ (  سیرت حلبیہ ، 2 / 31 ، 126 )

[11] ترجمۂ کنز العرفان : اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو قتل کرے مگر یہ کہ غلطی سے ہوجائے اور جو کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کردے تو ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا اور دیت دینا لازم ہے جو مقتول کے گھروالوں کے حوالے کی جائے گی۔

[12] تفسیر خازن ، 1 / 413 ، النسآء تحت الآیہ : 92

[13] سبل الہدیٰ والرشاد ، 11 / 369

[14] تاریخ ابن عساکر ، 47 / 246 ملخصاً

[15] تاریخ ابن عساکر ، 47 / 238

[16] اسد الغابہ ، 1 / 515- الاستیعاب 1 / 366 ملخصاً


Share