نظام الاوقات کی اہمیت

Time Management) ) پانچویں اور آخری قسط

نظام الاوقات کی اہمیت

*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2022ء

ہم اس کائنات کو دیکھتے ہیں توایک عظیم نظام دیکھ کر عقل حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگتی ہے ،  ہمیں ہر شے وقت کے ساتھ جڑی نظر آتی ہے۔ چاند کی منزلیں ہوں یا سورج کا طلوع و غروب ،  رات کا آنا جانا ہو یا دن کا آغاز و اختتام تمام چیزیں جہاں ایک خدا کے وجود کا پتا دیتی ہیں وہیں وقت کی تنظیم کی ضرورت واہمیت کو اجاگر کرتی ہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :  لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَاۤ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَ لَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِؕ-وَ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ (۴۰) ترجَمۂ کنزُ الایمان :  سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑلے اور نہ رات دن پر سبقت لے جائے اور ہر ایک ایک گھیرے میں پیر رہا ہے۔[1] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یعنی سورج اور چاند میں سے ہر ایک کے ظاہر ہونے کے لئے ایک وقت مقرر ہے ، سورج کے لئے دن اور چاند کے لئے رات۔   رات اور دن دونوں معیّن حساب کے ساتھ آتے جاتے ہیں ،  کوئی ان میں سے اپنے وقت سے قبل نہیں آتا ۔  [2]

اللہ تعالیٰ دن اور رات کے بارے میں فرماتا ہے : وَ مِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (۷۳)  ترجَمۂ کنزُالعرفان : اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لیے رات اور دن بنائے کہ رات میں آرام کرو اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم  ( اس کا )  شکر ادا کرو۔[3]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)   اس سے معلوم ہوا کہ کمائی کے لیے دن اور آرام کے لیے رات مقرر کرنی بہتر ہے۔ رات کو بلاوجہ نہ جاگے ،  دن میں بیکار نہ رہے ،  اگر معذوری  ( یعنی مجبوری )  کی وجہ سے دن میں سوئے اور رات کو کمائے تو حرج نہیں جیسے رات کی نوکریوں والے ملازم وغیرہ۔[4]

قراٰنِ کریم کے علاوہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے شیڈول سے بھی وقت کی تقسیم کاری کی اہمیت واضح ہوتی ہے جیسا کہ تیسری قسط میں گزرچکاہے ، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر بنیادی عبادات کا بھی وقت مقرر ہے، نماز ، روزہ  ، حج ، زکوۃ ، قربانی وغیرہ سب میں تنظیم اوقات پائی جاتی ہے۔اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ ہم بھی اپنے وقت کوترتیب دیں اور شیڈول بناکر زندگی گزاریں۔ آج بہت سے لوگ وقت کی کمی اور مصروفیات کی زیادتی کا یوں شکوہ کرتے نظرآتے ہیں کہ ”آج کل تو مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اگر دن رات کے 24 گھنٹے بھی کام میں صرف کردیں تب بھی کام پورا ہونے کا نام نہیں لیتے۔“ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دوسری جانب ایسے افراد بھی ملیں گے جو انہی  24 گھنٹوں میں اپنی روزمرہ کی تمام کاروباری ،  دفتری ،  گھریلو اور دینی مصروفیات کو نہ صرف پورا کرتے ہیں بلکہ ان کی زندگی میں کوئی افراتفری بھی نظر نہیں آتی۔ دراصل یہ وقت کی تقسیم کاری  کا کمال وبرکت ہے۔

نظام الاوقات کے اصول : بعض اصول ایسے ہیں کہ اگر ہم انہیں اپنالیں تو اپنے اوقات کو منظم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ذہنی انتشار سے نجات حاصل کرلیں گے ، نظام الاوقات کے وہ اصول درج ذیل ہیں :   ( 1 ) اپنے کاموں میں سنجیدگی کو اپنائیں ، اس کی اہمیت سے کوئی بھی عقل مند انکار نہیں کرسکتا  (2 ) مناسب منصوبہ بندی  ( Planning )  کریں کہ کس وقت میں کون سا کام کرنا ہے؟ ورنہ بے ترتیبی کے ساتھ جہاں کام صحیح نہیں ہوپاتا وہاں بہت سا وقت بھی ضائع ہو جاتا ہے  ( 3 ) ایک وقت میں ایک کام کیا جائے  ، کیونکہ ٹائم مینجمنٹ کا ایک بنیادی اصول ہے کہ ایک وقت میں ایک کام پر توجہ دی جائے تو اُسے بہتر اور تیزی سے سر انجام دیا جا سکتا ہے  ( 4 ) ہر کام پورا کرنے کا ایک وقت مقرر کیا جائے یعنی ہدف بنا کر کام کیا جائے کہ”مجھے اتنےمنٹ /  گھنٹوں / دنوں /  مہینوں یا سالوں میں یہ کام مکمل کرنا ہے ۔“مگراس وقت میں اتنی لچک ضرورہو کہ وہ کام اس میں پورا ہوسکے۔ خلاصہ یہ کہ نظامُ الاوقات مقرر کرتے ہوئے کام کی نوعیت اورکیفیت کولازمی پیش نظر رکھیں  ( 5 ) بعض اوقات ایک وقت میں دو کام آسانی سے کئے جاسکتے ہیں لہٰذا ایسے وقت کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے جیسے ڈرائیونگ کرتے /  آفس جاتے /  ورزش کرتے وقت اپنے موبائل سےتلاوت وترجمہ سن سکتے ہیں ،  اور اد ووظائف پڑھ سکتے ہیں ، ذکرودرود کرسکتے ہیں یا کوئی بیان یا نعت سن سکتے ہیں  ( 6 ) آنے والے کل کا اہم ترین کام آج ہی سوچ لیں اور اگلے دن اُسے دوسرے کاموں سے پہلےمکمل کریں  ( 7 ) اہم اور علمی کاموں کوصبح کے وقت انجام دیں کہ اس وقت تازگی زیادہ ہوتی ہے ، حدیث پاک میں ہے : رزق اور حاجتوں کی طلب دن کے آغاز میں کرو کیونکہ صبح کے وقت میں برکت اور کامیابی ہے۔[5]نیز صبح کا وقت باعثِ برکت ہوتا ہے ،  حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے لئے  یوں دعا فرمائی : اےاللہ ! میری اُمّت کے لئے صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما۔[6]حکیمُ الامت مفتی احمد یارخان  رحمۃُ اللہ علیہ نے اس کی شرح یوں کی ہے :  یعنی  ( اے اللہ !  ) میری اُمّت کے تمام اُن دینی ودنیاوی کاموں میں برکت دے جو وہ صبح سویرے کیا کریں۔ جیسے سفر ،  طلبِ علم ،  تجارت وغیرہ۔[7] ( 8 ) بعض بڑے کام ایک ساتھ نہیں ہوسکتے لہٰذا ایسے کاموں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ لیں ( 9 ) حساس اور اہم ترین کام کرتے وقت انٹرنیٹ اور موبائل فون وغیرہ بند کر دیں تاکہ توجہ نہ بٹے ( 10 ) ایک آدھ میسج / ای میل سے بات نہ بنے تو وقت ضائع کرنے کے بجائے فون اٹھائیں اور بات ختم کریں  ( 11 ) کچھ لوگ اِن باکس کو اپنی” ٹوڈولسٹ “بنالیتے ہیں ( یعنی کرنے والے کاموں کی فہرست الگ نہیں بناتے ) ، ایسا نہ کریں بلکہ ان باکس سے باہر نکلیں ،  اپنے ٹاسک  / کرنے والے کام الگ رکھیں اور ان باکس کی لسٹ کا پرنٹ نکال لیں یوں آپ کا ”فوکس “ایک چیز پر رہے گا   ( 12 ) ای میل میں ایکشن آئٹمز  ( کرنے والے کاموں کی فہرستوں ) اور ریفرنس آئٹمز  ( بوقت ضرورت کام آنے والی چیزوں )  کے الگ الگ فولڈرز بنا ئیں اوریہی طریقہ اپنے لیپ ٹاپ / کمپیوٹر ڈیٹا کے لئے بھی اپنائیں کہ ہر چیز کا فولڈر الگ ہواورڈیٹا کی حفاظت کے لئے ایکسٹرنل ہارڈ ڈسک /  یوایس بی کا استعمال کریں  ( 13 ) کام کے دوران ہر دو گھنٹے بعدچند منٹ کا وقفہ /  بریک ضرور ہونا چاہئے (  کمپیوٹر پر کام کرنے والے ہر 20 سے 25 منٹ بعد چند سیکنڈز کے لئے اپنی نظریں اسکرین سے ہٹالیا کریں )   ( 14 )  رات دیر تک کام کرنے والوں کو چاہئے کہ رات میں آرام کریں اور صبح جلدی اٹھ کر وہ کام پورا کرلیں ۔

کوشش کریں کہ صبح اٹھنے کے بعد سے لیکر رات سونے تک سارے کاموں کے اوقات مقرَّر ہوں مَثَلاً اتنے بجے تہجد ، علمی کام ، مسجد میں تکبیراُولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز فجر  ( اسی طرح دیگر نمازیں ) ، ناشتہ  ، روزگار  ( آفس یاشاپ یا پھرکالج ویونیورسٹی )  ، دوپہر کا کھانا ،  گھریلو معاملات ،  شام کی مصروفیات  ( اکیڈمی / ٹیوشن ) ، اچھی صحبت ،  ( اگر یہ میسر نہ ہو توتنہائی کہیں زیادہ بہتر ہے )  ، محدود پیمانے پرضروری ملاقاتوں وغیرہ کے اوقات متعین کر لئے جائیں ۔جولوگ اس کے عادی نہیں ہیں ، ممکن ہے انہیں شروع میں کچھ دشواری پیش آئے ۔ پھر جب عادت پڑجائے گی تو اس کے فائدے ، برکتیں اورمنافع خود ہی ظاہر ہوجائیں گی۔ اِن شآءَ اللہ !  نظامُ الاوقات کے بعض فوائد حسبِ ذیل ہیں :

نظامُ الاوقات کے فوائد :  ( 1 ) اوقات کے ڈسپلن سے ترجیحات  ( Priorities )  متعین کرنا آسان ہوجاتا ہے  ( 2 )  اہم اور غیراہم کاموں کی درجہ بندی ہوجاتی ہے  ( 3 ) اہم کام بروقت اوردرست طریقے پر انجام پاتے ہیں  ( 4 ) اطمینان نصیب ہوگا اورکم وقت میں زیادہ کام کیا جاسکے گا کیونکہ اس وقت دوسرے کام پر   توجہ نہیں ہوگی  ( 5 ) شیڈول بنانے کی وجہ سے ٹائم بچے گا اور مزید نئے نئے کاموں کا عزم وحوصلہ ملے گا  ( 6 ) وقت طے ہونے کی وجہ سے لوگوں سے کئے گئے وعدے پورے ہوں گے ، ورنہ جو وقت پر پیمنٹ نہ کریں / آرڈر پورا نہ کریں یا ڈلیوری نہ دیں تو ایسوں کے کاروبار سخت متاثر ہوتے ہیں  ( 7 ) لوگوں سے ملاقات کا وقت خاص ہوگاجس کی بدولت بے وقت  ملاقاتوں سے آرام ملے گا  ( 8 ) زندگی کا مقصد بنانے میں مدد ملے گی اور  ( 9 ) زندگی میں مشکلات کم اور آسانیاں زیادہ ہوجائیں گی وغیرہ وغیرہ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*   فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ،  شعبہ تراجم ،  المدینۃُ العلمیہ کراچی



[1] پ23 ، یٰسٓ : 40

[2] ماخوذ ازخزائن العرفان ،  ص 820 ،  پ23 ،  یٰسٓ ،  تحت الآیۃ :  40

[3] پ20 ، القصص : 73

[4] نور العرفان ،  ص 629 ،  پ20 ، القصص ،  تحت الآیۃ :  73

[5] جامع الصغیر ، ص187 ،  حدیث : 3123

[6] ترمذی ،  3 / 6 ، حدیث :  1216

[7] مراٰۃ المناجیح ، 5 / 491


Share

Articles

Comments


Security Code