سوانحِ اعلیٰ حضرت بزبانِ اعلیٰ حضرت
*مولانا حفیظ الرحمٰن عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2022ء
امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضاخان رحمۃُ اللہ علیہ کا وصال 25 صفر المظفر 1340ھ کو ہوا ، آپ رحمۃُ اللہ علیہ سے محبت ، عقیدت اور تعارف رکھنے والے مسلمان 25 صفر کو آپ کا عُرس مناتے ہیں ، آپ کی سیرت اور آپ کے کارنامے بیان کرتے ہیں۔ آئیے! اسی مناسبت سے ہم بھی امامِ اہلِ سنّت کا کچھ ذکر خیر کرتے ہیں ، چنانچہ ذیل میں امامِ اہلِ سنّت کے ملفوظات اور تحریرات کی روشنی میں مختصر حیاتِ اعلیٰ حضرت پیش کی جاتی ہے۔
ولادت : ( میری ولادت ) 10شوال 1272ھ روز شنبہ ( یعنی ہفتہ ) وقت ظہر مطابق 14 جون 1856ء کو ہوئی۔[1]
اسمِ گرامی : آپ کا نامِ مبارَک محمد ہے ، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ [2]
اندازِ تعلیم : ( فرماتے ہیں : ) میرے استاد جن سے میں ابتدائی کتاب پڑھتا تھا ، جب مجھے سبق پڑھا دیا کرتے ، ایک دو مرتبہ میں دیکھ کر کتاب بند کر دیتا ، جب سبق سنتے تو حَرف بَحرف لفظ بہ لفظ سنا دیتا ۔روزانہ یہ حالت دیکھ کر سخت تعجب کرتے ۔ایک دن مجھ سے فرمانے لگے کہ احمد میاں ! یہ تو کہو تم آدَمی ہو یا جِنّ؟ کہ مجھ کو پڑھاتے دیر لگتی ہے مگر تم کو یاد کرتے دیر نہیں لگتی!میں نے کہا : اللہ پاک کا شکر ہے میں انسان ہی ہوں ہاں اللہ پاک کا فضل وکرم شامِل حال ہے۔ [3]
ایک روز اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقِف حضرات میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں ، حالانکہ میں اِس لقب کا اَہل نہیں ہوں ( پھر کچھ مدت کے بعد فرمایا : ) میں نے کلامِ پاک بالتَّرتیب بکوشِش یاد کرلیا اور یہ اِس لیے کہ ان بندگانِ خُداکا ( جو میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں ) کہنا غلط ثابت نہ ہو۔ [4]
سنِ فراغت اور فتویٰ نویسی : میں نے جب پڑھنے سے فراغت پائی اور میرا نام فارغُ التحصیل علما میں شمار ہونے لگا تو 14 شعبان 1286ھ کو منصب افتا عطا ہوا اور اسی تاریخ سے بحمدِ اللہ نماز فرض ہوئی۔ منصب افتا ملنے کے وقت فقیر کی عمر 13 برس دس مہینہ چار دن کی تھی جب سے اب تک برابر یہی خدمتِ دین لی جارہی ہے۔ [5]
مدتِ تربیت : ( بد مذہبوں کے رد اور فتویٰ نویسی کے بارے میں فرماتے ہیں ) : یہ دونوں ایسے فن ہیں کہ طِب کی طرح یہ بھی صِرف پڑھنے سے نہیں آتے۔ان میں بھی طبیبِ حاذِق کے مطب میں بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ میں بھی ایک حاذِق طبیب ( یعنی ماہر استاذ والدِ ماجد رئیس المتکلمین مفتی نقی علی خان رحمۃُ اللہ علیہ ) کے مطب میں سات برس بیٹھا ، مجھے وہ وقت ، وہ دن ، وہ جگہ ، وہ مسائل اور جہاں سے وہ آئے تھے اچھی طرح یاد ہیں۔ [6]
شرفِ بیعت : آپ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں دوپہر کو سویا تو ( خواب میں ) حضرت جدِّ اَمجد رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ایک صندوقچی عطا فرمائی اور فرمایا عنقریب آنے والا ہے وہ شخص جو تمہارے دردِ دل کی دوا کرے گا۔ دوسرے یا تیسرے روز حضرت مولانا عبدُ القادر رحمۃُ اللہ علیہ بدایون سے تشریف لائے اور اپنے ساتھ مارہرہ شریف لے گئے۔ وہاں جاکر شاہ آلِ رسول مارہروی سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ [7]
پہلا حج : آپ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : پہلی بار کی حاضری حضرات والدینِ ماجِدَیْن رحمۃُ اللہ علیہ ما کے ہمراہ رِکاب ( یعنی ہمراہی میں ) تھی۔ اُس وقت مجھے تیئیسواں سال تھا۔ [8]
دوسرا اور آخری حج : مدینہ طیبہ کی دوبارہ حاضری کے وقت میری عمر اکیاون برس پانچ مہینے کی تھی۔ [9]
حرمِ مکہ میں امامت : اس ( دوسری ) بار کی حاضریِ مدینہ میں مکہ کے جلیل علمائے حنفیہ مثل مولانا شیخ صالح کمال مفتی حنفیہ ومولانا سید اسماعیل محافظِ کتبِ حرم حنفی وقت پر اپنی جماعت کرتے جس میں وہ اکابر اس فقیر کو امامت پر مجبور فرماتے۔ [10]
ماں کی محبت : ( دوسرے حج کے لئے ) چلتے وقت جس لگن ( یعنی برتن ) میں میں نے وضو کیا تھا ، والدہ ماجدہ نے اس کا پانی میری واپسی تک نہ پھینکنے دیا کہ اُس کے وضو کاپانی ہے ۔ [11]
اَعْداءُ اللہ سے نفرت : بحمدِ اللہ تَعالیٰ بچپن سے مجھے نَفرت ہے اَعْداءُ اللہ ( اللہ کے دشمنوں ) سے اور میرے بچوں کے بچوں کو بھی بفضلِ اللہ تعالیٰ عَداوَتِ اَعْداءِ اللہ ( یعنی اللہ کے دشمنوں سے دشمنی ) گھٹی میں پِلا دی گئی ہے۔ [12]
مال و اولادسے محبت کا معیار : الحمدُلِلّٰہ میں نے مال ” مِنْ حَیثُ ھُوَ مَال “ ( یعنی اس طور پر کہ وہ مال ہے ) سے کبھی محبت نہ رکھی صرف ” اِنْفَاق فِی سَبِیْلِ اﷲ “ ( یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے ) کے لیے اس سے محبت ہے ۔اسی طرح اولاد ” مِنْ حَیْثُ ھُوَ اَوْلَاد “ ( یعنی اس طور پہ کہ وہ اولاد ہے ) سے بھی محبت نہیں ، صرف اس سبب سے کہ صلہ رحم عملِ نیک ہے اس کا سبب اولاد ہے اور یہ میری اختیاری بات نہیں میری طبیعت کا تقاضا ہے۔ [13]
خدا اور محبوبِ خدا کی محبت : بحمدِ اللہ اگر ( میرے ) قلب ( دل ) کے دوٹکڑے کئے جائیں تو خدا کی قسم ایک پر لکھا ہوگا ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ دوسرے پر لکھا ہوگا ” مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم “ [14]
اپنی خبرِ رحلت : اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنی وفات سے 4ماہ 22 دن پہلے خود اپنے وِصال کی خبر دے کر پارہ29 سورۃُ الدّھر کی آیت15 سے سالِ انتِقال کا استخراج فرمادیا تھا۔اِس آیتِ شریفہ کے علمِ اَبْجد کے حساب سے 1340عَدَد بنتے ہیں اور یہی ہجری سال کے اعتبار سے سنِ وفات ہے۔وہ آیتِ مبارَکہ یہ ہے : وَیُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ ترجمۂ کنز الایمان : اور ان پر چاندی کےبرتنوں اور کوزوں کا دور ہوگا۔ ( پ29 ، الدھر : 15 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) [15]
وصال مبارک : 25 صفر ُالمظفَّر1340ھ مطابق28 اکتوبر 1921ء کو جمعۃُ المبارک کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق2 بجکر 38 منٹ ( اور پاکستانی وقت کے مطابق 2بجکر8منٹ ) پر ، عین اذانِ جُمعہ کے وَقت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے وصال فرمایا۔آپ رحمۃُ اللہ علیہ کا مزارِ پُرانوار مدینۃُ المرشد بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہِ خاص وعام ہے۔[16]
تُم کیا گئے کہ رونقِ محفِل چلی گئی شِعر و ادب کی زُلف پریشاں ہے آج بھی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ( فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی )
[1] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص63
[2] تذکرہ امام احمد رضا ، ص2
[3] حیاتِ اعلیٰ حضرت1 / 68 ، تذکرہ امام احمد رضا ، ص5
[4] حیاتِ اعلیٰ حضرت ، 1 / 208
[5] تذکرۂ جمیل ، ص101 ، حیاتِ اعلیٰ حضرت1 / 280 ، 279
[6] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص141
[7] ملفوظات اعلیٰ حضرت ، ص412
[8] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص181
[9] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص205
[10] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص84 ، حیاتِ اعلیٰ حضرت ، 1 / 399ملخصاً
[11] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص183
[12] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص410
[13] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص497
[14] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص 411
[15] سوانح امام احمد رضا ، ص384 ، وصایا شریف ، ص25
[16] تذکرہ امام احمد رضا ، ص18۔
Comments