انٹرویو
مفتی سجاد عطّاری مدنی (دوسری اور آخری قسط)
ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2022ء
مہروز عطّاری : آپ کی شادی کب ہوئی ؟
مفتی سجاد عطّاری : 2003ء میں ۔
مہروز عطّاری : شادی سے پہلے اور بعد کی زندگی میں کیا فرق ہوتا ہے ؟
مفتی سجاد عطّاری : شادی کے بعد انسان کی زندگی کے معمولات بدل جاتے ہیں۔ شادی سے پہلے جو لااُبالی پَن ہوتا ہے وہ ختم یا کم ہوجاتا ہے ، انسان کی طبیعت میں ایک ٹھہراؤ آجاتا ہے ، اس کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، والدین اور بہن بھائیوں کے حقوق کے ساتھ بیوی بچوں کے حقوق بھی ذمہ آتے ہیں جن کی وجہ سے دوسروں کو یہ لگتا ہے کہ یہ بدل گیا ہے ، حالانکہ وہ شخص نہیں بدلتا بلکہ اب اس کی ذمہ داریاں اور وقت کے تقاضے بدل جاتے ہیں۔
مہروز عطّاری : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شادی ایک ایسا پھل ہے کہ جسے کھانے والا بھی پچھتاتا ہے اور نہ کھانے والا بھی پچھتاتا ہے ، آپ کی کیا رائے ہے ؟
مفتی سجاد عطّاری : یہ ایک عوامی جملہ ہے جو نامناسب ہے ، اس میں ایک طرح سے نکاح جیسی عظیم سنت کی مذمت ہے ۔
مہروز عطّاری : کہتے ہیں کہ ہر کامیاب انسان کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کیا مذہبی طور پر کامیاب افراد کا معاملہ بھی یہی ہوتا ہے ؟
مفتی سجاد عطّاری : اگر انسان اپنے گھریلو معاملات سے ہی مطمئن نہ ہو جیسے بچّوں کی تربیت ، کھانا پینا ، گھر کی صفائی ستھرائی ، لباس وغیرہ ضروریات ، جب وہ کام سے تھکا ہارا گھر پہنچے تو آگے سے شکوہ و شکایت ، لڑائی جھگڑا شروع ہوجائے تو ایسا انسان دینی طور پر بھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ گھر کی خواتین کا تمام گھریلو ذمہ داریوں کو اچھے انداز میں پورا کرنا ہی ہمارے ساتھ سب سے بڑا تعاون ہے۔ جسے یہ تعاو ن حاصل ہو تو وہ ذہنی طور پر مطمئن اور یَک سُو ہوکر اپنے کام پر توجہ کرسکتا ہے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ مجھے بھی یہ نعمت حاصل ہے!
مہروز عطّاری : دارُ الافتاء اہلِ سنّت میں آپ بالخصوص وقف کے مسائل کو دیکھتے ہیں۔ اس شعبے کی اہمیت سے متعلق کچھ بیان فرمادیں۔
مفتی سجاد عطّاری : صرف وقف ہی نہیں بلکہ دعوتِ اسلامی کے تمام تنظیمی شرعی مسائل کو اِفتا مکتب سے حل کیا جاتا ہے۔ شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت کی یہ کڑھن ہے کہ دعوتِ اسلامی کا ہر کام شریعت کے مطابق ہو نا چاہئے۔ آپ کی اسی سوچ کے تحت عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں افتا مکتب قائم کیا گیا تاکہ تمام شعبہ جات کے اسلامی بھائی تنظیمی مسائل کے شرعی حل کے لئے یہاں رابطہ کرسکیں۔
مہروز عطّاری : بعض لوگ کہتے ہیں کہ دین تو آسان ہے لیکن مولوی حضرات نے اسے مشکل بنادیا ہے۔ ایسے لوگوں کو آپ کس طرح سمجھائیں گے ؟
مفتی سجاد عطّاری : اس طرح کی بات ناسمجھ اور دین کو دور سے دیکھنے والا ہی کرسکتا ہے۔ جو شخص کبھی پانی میں اترا ہی نہ ہو تو وہ دور سے دیکھ کر یہی کہتا ہے کہ پانی بہت گہرا ہے ، اس میں اترنے والا ڈوب جائے گا۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شرعی مسئلہ کسی کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے یا اس کے مفادات پر زَد پڑتی ہے تو وہ بھی ایسا کلام کرتا ہے۔ ڈاکٹر اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں مریض کا علاج کرتا ہے نہ کہ مریض کی مرضی پر چلتا اور اس کی خوشی کو دیکھ کر دوا دیتا ہے۔
مہروز عطّاری : عموماً آپ کے مطالعہ میں رہنے والی کتب کون سی ہیں ؟ کوئی سی تین ارشاد فرمائیں۔
مفتی سجاد عطّاری : صحیح مسلم شریف ، فتاویٰ رضویہ ، بہارِ شریعت۔
مہروز عطّاری : طلبۂ کرام اور فارغ التحصیل حضرات کو آپ کون سی تین کتابیں بالخصوص پڑھنے کا مشورہ دیں گے ؟
مفتی سجاد عطّاری : بہارِ شریعت کو ضرور مطالعہ میں رکھیں کہ اس میں علم کی تازگی بھی ہے ، اپنی زندگی کو شریعت کے مطابق گزارنے کا سامان بھی ہے۔ فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ بھی ضرور کریں کہ اس میں علم کے انمول موتی چھپے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سیرتِ رسول سے متعلق کوئی کتاب مثلاً ’’ سیرتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم “ بھی ضرور مطالعہ میں رکھیں۔
مہروز عطّاری : ایک عام مسلمان کو آپ کن کتابوں کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیں گے ؟
مفتی سجاد عطّاری : مکتبۃُ المدینہ کا لٹریچر بالخصوص ہر ہفتے امیرِ اہلِ سنّت کی طرف سے مطالعہ کے لئے ملنے والا رسالہ اور ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ اپنے مطالعہ میں رکھیں۔ یہ علم حاصل کرنے کا شارٹ کٹ ہے۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ دعوتِ اسلامی کے جو ذمہ داران بلکہ گھر وں میں ہمارے جو بچے ہفتہ وار رسالہ اور ماہنامہ فیضانِ مدینہ پڑھتے اور ہفتہ وار مدنی مذاکرہ سنتے ہیں ، اللہ پاک کے کرم سے ان میں علم اور شعور کی جھلک نظر آتی ہے۔
مہروز عطّاری : امیرِ اہلِ سنّت سے آپ کی پہلی ملاقات کب اور کیسے ہوئی ؟
مفتی سجاد عطّاری : زمانۂ طالبِ علمی میں تقریباً ہر ہفتے لائن میں لگ کر امیرِ اہلِ سنّت سے ملاقات کی کوشش ہوتی تھی۔ پھر جب صبح امیرِ اہلِ سنّت فیضانِ مدینہ سے اپنے گھر جاتے تو ہم کچھ طالبِ علم بھی ساتھ ساتھ جاتے اور آپ خصوصی شفقتوں سے نوازتے تھے۔ اس طرح کے چند مواقع پر مجھے بھی خصوصی شفقتیں حاصل ہوئیں اور یہ میری زندگی کے یادگار لمحات بلکہ گویا کہ میری عید ہوتی تھی۔
مہروز عطّاری : بہت سے لوگ شرعی معاملات کے علاوہ اپنے ذاتی مسائل میں بھی آپ سے مشورہ کرتے ہوں گے ، آپ اپنے معاملات میں کس سے مشورہ کرتے ہیں ؟
مفتی سجاد عطّاری : میں اپنے اساتذہ اور دوست احباب سے بھی مشورہ کرلیتا ہوں جبکہ فیملی میں اپنے بڑے بھائی سے اور چھوٹے بھائی مولانا فراز عطّاری مدنی سے بھی مشورہ کرلیتا ہوں۔
مہروز عطّاری : امیرِ اہلِ سنّت کی بے شمار خوبیوں میں سے کوئی تین خوبیاں بیان فرمائیں۔
مفتی سجاد عطّاری : (1)علما اور طلبہ سے آپ کی محبت جیسی پہلے تھی ویسی ہی آج بھی نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی تَصَنُّع یا بناوٹ نظر نہیں آتی بلکہ دل سے محبت کا رنگ جھلکتا ہے۔ بعض اوقات تو آپ کی طرف سے عزت ملنے پر بندہ شرمندہ ہوجاتا ہے کہ ہم نے جو دو حر ف پڑھے ہیں وہ انہی کے صدقے میں پڑھے ہیں لیکن یہ علم کی وجہ سے ہماری اتنی عزت فرماتے ہیں ، یہ ان کا بڑا پن ہے (2)آپ کی عاجزی و انکساری(3)شرعی مسائل پر آپ کی گرفت اور عمل ۔
مہروز عطّاری : لوگوں کی کون سی ایسی بات ہے جو آپ کو بری لگتی ہے ؟
مفتی سجاد عطّاری : بداخلاقی ، بالخصوص چھوٹے کی بڑے کے ساتھ بداخلاقی۔
مہروز عطّاری : آج کل خاندانوں میں ناراضگیاں اور ناچاقیاں بڑھتی جارہی ہیں ، اس سے متعلق کچھ رہنمائی فرما دیں۔
مفتی سجاد عطّاری : صلہ رحمی کے لئے رابطہ اور تعلق ضروری ہے۔ اگر رہائش دور دور مثلاً دوسرے شہر میں ہو تو ہفتے میں کم از کم ایک بار ان سے فون پر بات ضرور کریں۔ قریبی رشتے دار مثلاً چچا ، ماموں ، پھپھو وغیرہ سے رابطہ اور تعلق قائم رکھیں ، یہ چیز آپ کے دلوں کو جوڑ دے گی ، آپسی محبت اور رشتے داری کا احساس بھی قائم رہے گا۔ آج کل ہمارے معاشرے میں ایسا کسمپرسی کا عالَم ہے کہ بیٹا بھی اپنی ماں یا باپ کو دو دو ہفتے بعد فو ن کرتا ہے۔ رشتے داروں سے رابطہ رکھنے کے علاوہ وقتا فوقتا انہیں کوئی تحفہ مثلاً سوٹ وغیرہ تحفے میں پیش کیا کریں یا پیسوں کی صورت میں تحفہ دیں اگرچہ ان کی مالی حیثیت مضبوط ہو ، ایسا کرنے سے آپس کی محبتیں اور پیار کافی مضبوط رہتا ہے ۔ فی زمانہ بعض اولاد بھی اپنے ماں باپ کو نہیں پوچھتی ، اگر آپ اپنے بزرگ رشتے داروں سے رابطہ ، تعلق اور تحفے کا سلسلہ رکھیں گے تو اس سے ان کو بہت فرحت اور خوشی حاصل ہوگی۔
مہروز عطّاری : کن کن ممالک میں آپ کا سفر ہوا ہے ؟
مفتی سجاد عطّاری : الحمد للہ حرمین شریفین کے سفر کے علاوہ دعوتِ اسلامی کی برکت سے دینی کاموں کے لئے کئی ممالک میں جانا ہوا ہے جن میں متحدہ عرب امارات (UAE) ، سری لنکا ، نیپال اورساؤتھ کوریا شامل ہیں۔
مہروز عطّاری : آج کل بالخصوص ہمارا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ مختلف وسوسوں کا شکار رہتا ہے اور کچھ لوگ باقاعدہ یہ وسوسے پیدا کرتے ہیں ، ایسے نوجوانوں کو آپ کیا مشورہ دیں گے ؟
مفتی سجاد عطّاری : دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہیں ، ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات اور مدنی مذاکروں میں شرکت ، مدنی قافلوں میں سفر کو اپنا معمول بنالیں ، علمائے اہلِ سنّت کے دامن سے وابستہ رہیں۔ اِن شآءَ اللہ عقيده و عمل كی درستی نصیب ہوگی اور آئے دن ظاہر ہونے والے نئے نئے فتنوں سے محفوظ رہیں گے۔
مہروز عطّاری : نئے فارغ التحصیل علمائے کرام یا وہ جو دارالافتاء کی فیلڈ میں آنا چاہتے ہیں ، ان کو آپ کیا مشورہ دیں گے ؟
مفتی سجاد عطّاری : دارالافتاء میں آنا سعادت کی بات ہے لیکن زندگی میں کامیابی صرف دارالافتاء کے شعبے میں آنے ہی میں منحصر نہیں ، جس کا شوق ہو ، جستجوہو ، کثرت مطالعہ کا عادی ہو وہ ضرور آئے ۔ لیکن ہر طالبِ علم کو پڑھائی کے دوران ہی اپنے شوق اور دلچسپی کے اعتبار سے کسی شعبے کو فوکس کرلینا چاہئے۔ بعض طلبہ یہ سمجھتے ہیں کہ میں فلاں شعبے میں جاؤں گا تو ہی میری واہ وا ہوگی یا فلاں شعبہ ہی کامیابی کی علامت ہے ، اگر وہ شعبہ ان کی سوچ اور دلچسپی سے مطابقت ہی نہیں رکھتا تو پھر یہ کیسے اس میں کامیاب ہوسکتے ہیں ؟
مہروز عطّاری : آپ غالباً دورِ طالبِ علمی سے ہی امامت کررہے ہیں۔ اپنے تجربات کی روشنی میں دو تین ایسی باتیں بتائیں جن کے ذریعے امام اپنی عزت و وقار کو بحال رکھتے ہوئے اپنے منصب کے تقاضے پورے کرسکے ؟
مفتی سجاد عطّاری : سب سے پہلے تو ایک امام کے لئے وقت کی پابندی ضروری ہے ، اور وہ بھی بھاگ دوڑ کر نہیں بلکہ اطمینان و وقار کے ساتھ۔ اس سے مقتدیوں کو بھی اطمینان حاصل ہوتا ہے اور امام کی عزت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امام لوگوں کو وقت دے ، اس میں کنجوسی ہر گز نہ کرے اور نہ ہی خود کو حجرہ نشین بنائے۔ اس کے علاوہ امام کے لئے صاف ستھرا کردار اور خوش اخلاقی بھی نہایت ضروری ہے۔ اپنے کردار پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع ہرگز نہ دیں۔
مہروز عطّاری : مدنی چینل کے علاوہ کسی چینل پر بیانات وغیرہ کا اتفاق ہوا ؟
مفتی سجاد عطّاری : میری مادری زبان سرائیکی ہے اور سرائیکی زبان میں ’’ واسیب ‘‘ چینل ہے ۔ مدنی مرکز کے حکم پر اس چینل کے لئے دو تین سال رمضان ٹرانسمیشن کے لئے سلسلے ریکارڈ کروائے تھے۔
مہروز عطّاری : انٹرویو کے آخر میں ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین کے لئے کوئی پیغام دے دیجئے۔
مفتی سجاد عطّاری : قارئین کے لئے یہ پیغام ہے کہ ، اللہ و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی بسر کریں۔ نیز اس ماہنامہ فیضانِ مدینہ سے اپنا تعلق مضبوط رکھیں۔ اس میں مضامین اگرچہ مختصر ہو تے ہیں لیکن لکھنے والا انہیں کئی کتابوں سے لے کر ان کا خلاصہ بناکر ایک علمی خزانہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسے پڑھنے میں ہرگز سستی نہ کریں ، اِن شآءَ اللہ اس کی بدولت آپ کے علم میں بہت اضافہ ہوگا۔
Comments