سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ( قسط : 19 )
دوجہاں کے والی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
*مولانا ابو الحسن عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر2022ء
گزشتہ سے پیوستہ
پچھلے ماہ کے شمارے میں حدیثِ پاک ” اَنَا اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ یعنی میں مؤمنین کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ “ [1] کے معانی و مفاہیم کے تحت علمی اور عشق و محبت سے لبریز 5 نکات ذکر ہوئے ، مزید نکات اس مضمون میں ملاحظہ کیجئے :
( 6 ) مفتی احمدیار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” اَولیٰ “ کے ایک معنیٰ ” زیادہ لائق “ کے بھی ہیں یعنی حضور علیہ السّلام جان سے بھی زیادہ اطاعت کے لائق ہیں۔ اگر سردی کا موسم ہے ، جان و دل چاہتے ہیں کہ پانی کو ہاتھ نہ لگاؤ ، مگر رات میں غسل واجب ہوگیا ، حکمِ سَروَرِ عالَم علیہ السّلام ہے کہ فجر کی نماز سے پہلے غسل کرلو۔ اب جان و دل کی بات نہ مانو بلکہ رسول علیہ السّلام کی اطاعت کرو ، اور بات بھی یہ ہے کہ جس قدر احسانات حضور علیہ السّلام کے ہم پر ہیں وہ کسی کے بھی نہیں ، موت کے بعد ہاتھ پاؤں بے کار ، قیامت میں یہ ہی ہاتھ پاؤں خلاف گواہی دیں۔ مگر محبوب علیہ السّلام کا کرم زندگی ، موت ، قبر ، حشر ہر جگہ شاملِ حال ہے۔ اسی طرح ماں باپ ، قرابت دار کی محبتیں فنا ہونے والی ہیں ، کہ قیامت میں کوئی پہچانے گا بھی نہیں ، مگر حضور علیہ السّلام کسی جگہ فراموش نہیں فرماتے ، اور جس قدر احسان زیادہ اسی قدر استحقاق ( یعنی حقداری ) زیادہ۔[2]
( 7 ) اَولیٰ کے ایک معنیٰ مالک اور والی کے بھی ہیں۔ امامِ اہلِ سنّت اس معنیٰ کی تفصیل اپنے رسالہ ” اَلنُّوْرُ وَالضِّیَاء فِی اَحْکَامِ بَعْضِ الْاَسْمَاء “ میں کچھ یوں فرماتے ہیں : ” سچی کامل مالکیت وہ ہے کہ جان و جسم سب کو محیط اور جن و بشر سب کو شامل ہے ، یعنی اَوْلیٰ بِالتَّصَرُّف ( تصرف کرنے کا ایسا مالک ) ہونا کہ اس کے حضور کسی کو اپنی جان کا بھی اصلاً اختیار نہ ہو۔ یہ مالکیتِ حقہ ، صادقہ ، محیط ، شاملہ ، تامہ ، کاملہ حضور پُرنور مَالِکُ النَّاس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بخلافت ِکبریٰ حضرتِ کبریا عَزَّوَعَلَا تمام جہاں پر حاصل ہے۔ قَالَ اللہ تَعَالٰی : ( اللہ تَعَالیٰ نے فرمایا : ) اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ نبی زیادہ والی و مالک و مختار ہے ، تمام اہلِ ایمان کا خود ان کی جانوں سے۔ وَقَالَ اللہ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی ( اور اللہ تَبَارَک وَتَعَالیٰ نے فرمایا : ) وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ (۳۶) [3] نہیں پہنچتا کسی مسلمان مرد نہ کسی مسلمان عورت کو جب حکم کردیں اللہ اور اس کے رسول کسی بات کا کہ انہیں کچھ اختیار رہے اپنی جانوں کا ، اور جو حکم نہ مانے اللہ و رسول کا تو وہ صریح گمراہ ہوا۔ (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : ” اَنَا اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ میں زیادہ والی و مالک ومختارہوں ، تمام اہلِ ایمان کاخود ان کی جانوں سے۔ “ [4]
حضورِ اَکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولایت ِمُطْلَقہ کو اپنے اوپر تسلیم نہ کرنے والے کے بارے میں امامِ اہلِ سنّت لکھتے ہیں کہ حضرت امامِ اَجل عارف بِاللہ سیّد سَہْل بن عبدُاللہ تُسْتَرِی رضی اللہ عنہ پھر امام اجل قاضی عِیاض شفا شریف پھر امام احمد قسطلانی مواھبِ لدنیہ شریف میں نقلاً و تذکیراً پھر علامہ شہاب الدین خَفَاجِی نسیم الریاض پھر علامہ محمد بن عبدالباقی زُرقانی شرح مواھب میں شرحاً و تفسیراً فرماتے ہیں : مَنْ لَّمْ يَرَ وِلَايَةَ الرَّسُولِ عَلَيْهِ فِي جَمِيعِ اَحْوَالِہٖ وَلَم يَرَ نَفْسَه فِي مِلْكِهٖ لَا يَذُوقُ حَلَاوَةَ سُنَّتِهٖ جو ہر حال میں نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنا والی اور اپنے آپ کو حضور کا مملوک نہ جانے وہ سنّتِ نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حَلاوَت سے اصلاً خبردار نہ ہوگا۔[5]
فتاویٰ رضویہ شریف سے منقول اس کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے خلیفۂ اکبر ہیں ، ربِّ کریم نے آپ کو تمام جہانوں کے اختیارات و کمالات اور مالکیت و بادشاہت سے نوازا ہے ، اس لئے اہلِ ایمان پر بھی لازم ہے کہ خود کو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مِلک جانیں اور مانیں کہ اسی میں برکت ہے ، اسی میں کامیابی ہے۔ خود کو حضور کی مِلک سے باہر جاننے والا ایمان کی حلاوت نہیں پاسکتا اور حضور کے فرمان و فیصلہ کو تسلیم نہ کرنے والا کسی صورت فلاح نہیں پاسکتا۔
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مالک کہا جانا اور حضور کا اس پر انکار فرمانے کے بجائے کرم فرمانا بھی منقول ہے جیسا کہ امامِ اہلِ سنّت لکھتے ہیں :
حضرت اَعْشَی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ خدمتِ اقدس حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اپنے بعض اقارب کی ایک فریاد لے کر حاضر ہوئے اور اپنی منظوم عرضی مسامعِ قدسیہ پر عرض کی ( یعنی اپنی فریاد نظم کی صورت میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی ) جس کی ابتداء اس مصرع سے تھی :
؏ یَامَالِکَ النَّاسِ و دَیَّانَ العَرَبِ
( اے تمام آدمیوں کے مالک اور اے عرب کے جزا و سزا دینے والے ) [6]
( 8 ) مفسرِ شہیر حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ نے ” اَولیٰ “ کا ایک معنیٰ ” زیادہ قریب “ بھی بیان کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں : نبی مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں ، بمقابلہ ان کی جان کے۔ اور یہ معلوم ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قریب ہماری جان ہے ، اسی لئے اگر جسم کو ذرا بھی تکلیف پہنچ جاوے ، تو روح کو خبر ہو جاتی ہے۔ اور جان سے بھی زیادہ قریب محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔ اس سے مسئلہ حاضر و ناظر بھی حل ہو گیا کہ جان جسم کے ہر عضو میں حاضر و ناظر ہوتی ہے تو حضور علیہ السّلام ہر مسلمان کے پاس حاضر ہیں اور ناظر ، اور مسلمان تو زمین و آسمان کے ہر گوشہ میں رہتے ہیں۔ کیوں کہ فرشتہ اور جنّ و انسان سب ہی میں مسلمان ہیں ، تو حضور علیہ السّلام ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔
اسی لئے شیخ عبدُالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ نے لکھا کہ بہت سے فِرقے ہوئے اور ان میں بہت سے اختلافات بھی ہیں۔ مگر اس پر سب متفق ہیں کہ حضور علیہ السّلام ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ اسی لئے التحیات میں ہر شخص ہی کہتا ہے ” اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا النَّبِيُّ “ اے نبی آپ پر سلام۔ قبر میں ہر شخص کو حضور علیہ السّلام کا دیدار کرایا جاتا ہے ، چاہے وہ کہیں بھی مرے ، جب تنہا گھر میں جائے تو کہے کہ ” اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُه “ غرض کہ بہت سی آیات و احادیث اور اقوالِ فقہاء سے حضور علیہ السّلام کا حاضر و ناظر ہونا ثابت ہوتا ہے ، اور بہت سے مسائل اس پر مبنی ہیں۔[7]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
[1] بخاری ، 4/320 ، حدیث : 6745
[2] شانِ حبیب الرحمٰن ، ص153
[3] پ22 ، الاحزاب : 36
[4] بخاری ، 2/77 ، حدیث : 2298 ، فتاویٰ رضویہ ، 24/703 تا 704
[5] فتاویٰ رضویہ ، 24/701 ، مواھب اللدنیۃ ، 2/494 ، شرح زرقانی علی المواہب ، 9/128
[6] فتاویٰ رضویہ ، 24/703 ، مسند احمد ، 2/644 ، حدیث : 6902 ، شرح معانی الآثار ، 4/115 ، حدیث : 6872
[7] شانِ حبیب الرحمٰن ، ص153 تا 154۔
Comments