تفسیر قراٰنِ کریم
خدا کی شان
*مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر 2022
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍۚ (۲۹) ترجمہ : وہ ( اللہ ) ہر دن کسی کام میں ہے۔ ( پ27 ، الرحمٰن : 29 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تفسیر : اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان یہودیوں کے رَدّ میں نازل ہوئی جو کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہفتے کے دن کوئی کام نہیں کرتا۔ ( خازن ، الرحمٰن ، تحت الآیۃ : 29 ، 4 / 211 ) اِس پر فرمایا گیا کہ افعالِ الٰہیہ کا ظہور ہر دن ، ہر وقت ، ہر لمحہ ہوتا رہتا ہے۔ صفاتِ باری تعالیٰ کی تجلیات کی کثرت ہماری سوچ سے بلند ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر وقت اپنی قدرت کےآثار ظاہر فرماتا ہے ، کسی کو روزی دیتا ہے ، کسی کو زندگی بخشتا ہے ، کسی کو موت سے ہم کنار کرتا ہے ، کسی کو عزت سے نوازتا ہے اورکسی کو ذِلَّت میں مبتلا کر دیتا ہے ، کسی کو مال و دولت کے ڈھیر عطا کرتا ہے اور کسی کواپنی حکمت سےمحتاجی کا شکار کرتا ہے ۔ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ گناہ بخشتا ہے ، مَصائب و آلام دور کرتا ہے ، کسی قوم کو بلندی عطا فرماتا ہے اور کسی قوم کو پَستی سے دوچار کر دیتا ہے۔ ( ابن ماجہ ، 1 / 134 ، لحدیث : 202 ) اللہ تعالیٰ ہر وقت کسی کام میں ہے لیکن یوں نہیں کہیں گے کہ ’’ وہ مصروف ہے یا وہ مشغول ہے ‘‘ کیونکہ یہ الفاظ اپنے بنیادی عربی معنیٰ کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں۔
اَفعالِ الٰہیہ کا ظُہُور ہر دن ، ہر وقت اور ہر لمحہ اربوں کھربوں صورتوں میں ہوتا ہی رہتا ہے ، اگر تمام انسان مل کر بھی اپنی تمام تر ذہانتوں اور عقلوں کا استعمال کر کے ، افعالِ الٰہیہ کا احاطہ کرنا چاہیں ، تو ممکن نہیں ، سمجھنے کےلئے چند مثالوں پر غور کرلیں کہ آپ نظامِ کائنات دیکھ لیں ، جہاں تک انسانی آنکھ کی بغیر آلات کے یا آلات کے ساتھ رسائی ہے وہاں تک ہر آن تغیرات کے جہان آباد ہیں ۔ دن کا رات میں بدلنا اور رات کا دن میں چھپنا ، ایک لمحے کا کام تو نہیں بلکہ بتدریج سورج چڑھتا ، اترتا اور رات کو اپنی آغوش میں چھپاتا ہے اور اِس سارے نظام میں موثر ِ حقیقی رب تعالیٰ ہے : تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ٘ ترجمہ : تو ( خدا ) رات کا کچھ حصہ دن میں داخل کردیتا ہے اور دن کا کچھ حصہ رات میں داخل کردیتا ہے۔ ( پ3 ، اٰل عمرٰن : 27 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یونہی نئی نئی مخلوق وجود میں آرہی ہے۔انسانی و حیوانی حیات میں ہر وقت اضافہ ہو رہا ہے ، اور اسی وقت میں ایک تعداد حیات سے ممات کی طرف بھی رواں دواں ہے ، فرمایا : وَ تُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِ جُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ٘ ترجمہ : اور تو مردہ سے زندہ کونکالتا ہے اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے۔ ( پ3 ، اٰل عمرٰن : 27 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اُس مولاکریم کی پاک بارگاہ میں دعائیں پیش کی جارہی ہیں ، بیمار صحت کے لیے ، پریشان حال اچھے حالات کی خاطر ، بے اولاد حصولِ اولاد کے لیے ، تنگ دَسْت فراخی ِرزق کے لیے اور مصیبت زدہ مصائب سے نجات کے واسطےمشغولِ دعا ہیں اور یہ دعائیں ساری مخلوقات کی طرف سے مختلف خطوں اور زبانوں میں ہوتی ہیں اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ سب کی دعائیں سنتا بھی ہے اور اپنی مشیت و حکمت کے مطابق بندہ پروری بھی فرماتا ہے۔
قرآن مجید کے کچھ حصے کا اِجمالی سا بھی مطالعہ کریں تو افعالِ الٰہیہ کچھ یوں سامنے آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ہدایت دیتا ہے ، فاسقوں کو گمراہی میں جانے دیتا ہے ، بندوں کی خطائیں بخشتا اور انعام عطا فرماتا ہے ، تمام مخلوق کا ہر ایک عمل پوری تفصیل سے دیکھتا جانتا ہے ، ذکرِ الٰہی میں مشغول لوگوں کو یاد فرماتا ہے ، بندوں کا مختلف طریقوں سے امتحان لیتا ہے ، توبہ قبول فرماتا ہے ، تمام مخلوقات کو رزق فراہم کرتا ہے ، مسلمانوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے ، ہدایت کے طلب گاروں کو ہدایت کی نعمت دیتا ہے ، جسے چاہتا ہے حکمت دیتا ہے ، بندوں کی نیکیاں قبول کرتا ہے ، سود مٹاتا اور صدقے میں برکت ڈالتا ہے ، بچوں کی پیدائش سے پہلے جیسی چاہتا ہے ان کی صورتیں بناتا ہے ، بے کسوں کی مدد فرماتا ہے ، جسے چاہتاہے سلطنت عطا فرماتا ہے اورجس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے ، جسے چاہتاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت کی گھاٹیوں میں اتار دیتا ہے۔
نیک لوگوں سے محبت فرماتااور بدوں کو ناپسند کرتا ہے ، شکر ادا کرنے والوں کو صلہ بخشتا ہے اور صبر ، نیکی اور توکل کرنے سے محبت فرماتا ہے ، اپنے علم کے خزانے سے عطا فرماتا ہے ، بندوں پر آسانی چاہتا اور انہیں آسانی دیتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ خود رب العالمین جل جلالہ نے اپنی باتوں کے متعلق جو فرمایا ہے وہی حرفِ آخر ہے اور اسی کے ذریعے ہمارے دل کی مرادوں کا کچھ اِظہار ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا ( ۱۰۹ ) ترجمہ : تم فرمادو : اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی ہو جاتا تو ضرور سمندر ختم ہوجاتااور میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوتیں ، اگرچہ ہم اس کی مدد کیلئے اُسی سمندر جیسا اور لے آتے۔ (پ16 ، الکہف : 109 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور وہ فرماتا ہے : وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ( ۲۷ ) ترجمہ : اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب قلمیں بن جاتے اور سمندر ( ان کی سیاہی ، پھر ) اس کے بعد اس (پہلی سیاہی ) کو سات سمندر مزید بڑھا دیتے تو بھی الله کی باتیں ختم نہ ہوتیں بیشک الله عزت والا ، حکمت والا ہے۔ ( پ21 ، لقمٰن : 27 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یعنی اگر ساری زمین میں موجود تمام درختوں کی قلمیں بنادی جائیں جو کھربوں سے بھی کھربوں گنا زیادہ ہوں گی اور لکھنے کے لئے سمندر بلکہ سات سمندروں کو سیاہی بنا لیاجائے اور ان قلموں اور سیاہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عظمت مثلاً علم ، قدرت ، صِفات کو لکھا جائے توسارے قلم اور سمندر ختم ہوجائیں لیکن عظمت ِ الٰہی کے کلمات ختم نہ ہوں کیونکہ سمندر سات ہوں یا کروڑوں ، جتنے بھی ہوں بہر حال وہ محدود ہیں اور ان کی کوئی نہ کوئی انتہا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی کوئی انتہا نہیں ، تو متناہی چیز غیر متناہی کا اِحاطہ کر ہی نہیں سکتی۔
اے اللہ ، ہمارے دلوں کو اپنی عظمت و محبت سے مالا مال کردے اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی
Comments