اپنے بزرگوں کو یاد رکھئے

اپنے بزرگوں کو یاد رکھئے

* مولانا ابوماجد محمد شاہد عطّاری مدنی

ماہنامہ اپریل 2021

رَمَضانُ المبارَک اسلامی سال کا نواں مہینا ہے۔ اس میں جن صحابۂ کرام ، اَولیائے عظّام اور عُلمائے اسلام کا وِصال یا عُرس ہے ، ان میں سے 58 کا مختصر ذِکْر “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ رَمَضانُ المبارَک 1438ھ تا 1441ھ کے شماروں میں کیا جاچکا ہے ، مزید14 کا تعارف ملاحظہ فرمائیے :

صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان : (1)صحابیِ رسول حضرت ابوصخر حُبَيْش بن خالد خزاعی  رضی اللہُ عنہ  مشہور صحابیہ حضرت اُمِّ معبد خزاعیہ کے بھائی ہیں جن کے ہاں رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دورانِ ہجرت تھوڑی دیر قیام فرمایا تھا ، حدیثِ اُمِّ معبد کے راوی بھی آپ ہی ہیں۔ آپ فتحِ مکہ کے دن بطحا میں شہید ہوئے۔ فتحِ مکہ 20 رمضان 8ھ کو ہوا۔ [1] (2)صحابیِ رسول حضرت سیّدُنا ابوموسیٰ سہیل بن بیضاء فہری قرشی  رضی اللہُ عنہ  قدیمُ الاسلام صحابی ہیں ، آپ نے حبشہ پھر مدینۂ منوّرہ ہجرت فرمائی ، غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں حصّہ لیا ، چالیس سال کی عمر میں غزوۂ تبوک سے واپسی پر وصال فرمایا ، رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ غزوۂ تبوک سے واپسی رمضان 9ھ کو ہوئی۔ [2]

اولیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم : (3)عارفِ ربانی حضرت شیخ سیّد شرفُ الدّین عیسیٰ جیلانی  رحمۃُ اللہِ علیہ  صاحبزادہ و تلمیذِ غوثِ اعظم ، عالمِ باعمل ، مدرس و واعظ ، شیخِ طریقت اور صاحبِ تصنیف بزرگ ہیں ، وصالِ غوثِ اعظم کے بعد آپ دمشق سے ہوتے ہوئے مصر تشریف لائے اور پھر یہیں مقیم ہوگئے ، کئی مصری محدثین اور عُلَما و مفتیانِ کرام نے آپ سے استفادہ کیا۔ آپ کا وصال 12 رمضان573ھ مصر میں ہوا ، قرافہ قبرستان میں آپ کا مزار مرجعِ خاص و عام ہے۔ جواهر الاسرار و لطائف الانوار علمِ تصوف پر آپ کی بہترین تصنیف ہے۔ [3] (4)قطبِ عالم حضرت پیر سیّد ابوالمکارم قطبُ الدّین موسیٰ گیلانی قادری  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 936ھ ٹھٹھہ سندھ میں ہوئی اور وصال 25 رمضان 999ھ کو قبولہ شریف (نزد پاکپتن ، پنجاب) میں ہوا ، عالیشان مزار منبعِ برکات ہے۔ آپ خاندانِ غوثیہ کے چشم و چراغ ، ظاہری وباطنی علوم سے مالامال ، صاحبِ دیوان شاعر اور صاحبِ تصنیف بزرگ ہیں۔ تحفۃ السالکین آپ کی تصنیف ہے۔ [4] (5)شاہ جہاں حضرت سیّد ابوصالح بدرُالدّین محمد باقر رفاعی حسینی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 1207ھ کو ہوئی اور وصال 15رمضان 1255ھ کو ہوا ، مزار خانقاہِ رفاعیہ ، بریا بھاگل ، سورت ، گجرات ہند میں ہے۔ آپ سلسلہ احمدیہ رفاعیہ کے عظیم فرزند ، صاحبِ عظمت و جلال بزرگ اور سجادہ نشین خانقاہِ رفاعیہ تھے۔ [5] (6)سلطانُ المشائخ ، حضرت پیر آقا سیّد سکندر شاہ پشاوری  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 1266ھ کو پشاور میں ہوئی اور یہیں 14 رمضان1331ھ کو وصال فرمایا ، آپ خاندانِ غوثیہ کے فرزند ، عالمِ دین ، خواجہ شمسُ العارفین کے مرید و خلیفہ ، بارعب و خوب صورت ، کثیرُ الفیض اور مستجابُ الدّعوات بُزرگ تھے۔ آپ کے بڑے صاحبزادے علّامہ سیّد محمد سعید آغا جان صاحب نے 7 رمضان 1353ھ اور چھوٹے صاحبزادے حضرت پیر علّامہ سیّد تجمل حسین آغا گل صاحب نے 21 رمضان 1366ھ کو وصال فرمایا۔ [6] (7)پیرِ طریقت حضرت سیّد محمد خلیلُ اللہ جنیدی قادری  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 1350ھ کو غازی پورہ یوپی ہند میں ہوئی اور 21رمضان 1427ھ کو مدینۂ منوّرہ میں وصال فرمایا ، تدفین جنّتُ البقیع میں کی گئی۔ آپ سلسلہ قادریہ جنیدیہ اجملیہ کی روحانی شخصیت ، دینی و دنیوی تعلیم سے آراستہ ، شاعرِ اسلام اور بانی ضیاءُ العلوم اسکول ناظم آباد کراچی ہیں۔ [7]

علمائے اسلام رحمۃُ اللہِ علیہم : (8)امامِ زمانہ حضرت سیّدُنا محمد بن عبدُالرحمٰن بن ابی لیلیٰ انصاری  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 74ھ میں ہوئی اور رمضان 148ھ میں وصال فرمایا۔ آپ حافظِ قراٰن ، محدثِ کبیر ، مفتیِ اسلام ، مصنفِ کتب اور قاضیِ کوفہ تھے۔ کتابُ الفرائض آپ کی تصنیف ہے۔ [8] (9)شیخُ الاسلام حضرت شیخ ابوالحسن بُنان الحمال  رحمۃُ اللہِ علیہ  واسط (عراق) کے باشندے تھے ، مصر میں سکونت اختیار فرمائی اور یہیں رمضان 316ھ میں وصال فرمایا ، نمازِ جنازہ میں لوگوں کا اِزدحام تھا۔ آپ ثقہ محدث ، زہد و تقویٰ کے پیکر ، صاحبِ کرامت ولیُّ اللہ ، انتہائی عبادت گزار ، نیکی کا حکم کرنے اور بُرائی سے روکنے کے جذبے سے سرشار تھے۔ [9] (10)حضرت امام عبدُاللہ بلحاج بافضل الحضرمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 850ھ کو تریم یمن میں ہوئی اور 5رمضان 918ھ کو وصال فرمایا ، مزار الشحر (حضر موت) یمن میں ہے۔ آپ حافظِ قراٰن ، فقیہ شافعی ، عارف باللہ ، مصنّفِ کتب کثیرہ اور استاذُ العلماء ہیں۔ “ المقدمۃ الحضرمیۃ فی فقہ السادۃ الشافعیۃ “ آپ کی مشہور کتاب ہے۔ [10] (11)استاذُ العلماء حضرت مولانا حافظ محمد نور عالم چشتی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت کَڑی شریف (نزد سنگھوئی تحصیل و ضلع جہلم) میں 1248ھ میں ہوئی۔ یہیں 3رمضان1311ھ کو وصال فرمایا اور جانبِ جنوب ایک چار دیواری میں مزار بنا۔ آپ استاذُ العلماء علّامہ احمد الدین کرسالوی کے شاگرد ، حافظ و قاریِ قراٰن ، جید عالمِ دین ، درسِ نظامی کے بہترین مدرس ، منکسرُالمزاج ، حلیمُ الطبع ، صاحبِ کشف ، خلیفۂ شمسُ العارفین سیالوی اور انتہائی سادگی پسند شخصیت کے مالک تھے ، کثیر علما نے آپ سے علمی فیضان حاصل کیا۔ [11] (12)شیخُ العلمائے انڈونیشیا حضرت علّامہ حاجی محمد ہاشم اشعری جومبانی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 1282ھ کو جومبان (مشرقی جاوا) انڈونیشیا میں ہوئی اور یہیں 7رمضان1366ھ کو وصال فرمایا ، مزار جومبان (مشرقی جاوا) میں ہے۔ آپ تلمیذِ خلیفۂ اعلیٰ حضرت شیخ عابد بن حسین مکی ، فیض یافتہ علمائے انڈونیشیا و مکہ مکرمہ ، بانی و رئیس جمیعۃُ نہضۃ العُلَماء (عظیم دینی و فلاحی تنظیم) ، استاذُ العلماء ، مفتیِ اسلام ، صاحبِ کرامات ولیُّ اللہ ، کئی کتب کے مصنف اور انڈونیشیا کی مؤثر ترین شخصیت ہیں۔ [12] (13) شاعرِ اسلام مولانا سیّد محمد ناصر جلالی دہلوی اشرفی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت دہلی میں ہوئی اور انتقال 7 رمضان 1385ء کو کراچی میں ہوا ، تدفین خاموش کالونی قبرستان لیاقت آبادمیں ہوئی۔ آپ عالمِ دین ، شیخِ طریقت ، علمی و ادبی شخصیت ، سحرُ البیان خطیب اور اچھے شاعر تھے ، آپ نے چھ اخبار یا ماہنامے جاری کئے ، آپ شبیہِ غوثُ الاعظم حضرت شاہ سیّد علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی کے خلیفہ تھے۔ [13] (14)محدّثِ اعظم حجاز ، فضیلۃُ الشیخ سیّد محمد بن علوی مالکی ادریسی مکی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 1362ھ مکہ شریف میں ہوئی اور 15رمضان 1425ھ کو وصال فرمایا ، جنۃ المعلیٰ میں تدفین ہوئی۔ آپ جیّد عالمِ دین ، عارفِ کامل ، استاذالعلماء ، کئی کتب کے مصنف ، خلیفۂ مفتیِ اعظم ہند اور عالمگیر شہرت کے مالک تھے۔ [14]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکنِ شوریٰ و نگرانِ مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی



[1] الاستیعاب ، 1 / 453 ، مواھب لدنیہ ، 1 / 327

[2] طبقاتِ ابن سعد ، 3 / 317 ، زرقانی علی المواھب ، 11 / 133

[3] اتحاف الاکابر ، ص374

[4] انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام ، 1 / 130

[5] تذکرۃ الانساب ، ص203

[6] تذکرۂ علماء و مشائخ سرحد ، ص198 تا 206

[7] اللہ والے کلیات مناقب ، ص 467

[8] سیراعلام النبلاء ، 6 / 476 ، شذرات الذھب ، 1 / 366

[9] سیراعلام النبلاء ، 11 / 438 ، طبقات الصوفیہ للسلمی ، ص224

[10] المقدمۃ الحضرمیۃ ، ترجمۃ المؤلف ، ص13تا 34

[11] فوز المقال فی خلفائے پیر سیال ، 1 / 469تا477

[12] نثر الجواهر و الدرر ، 2 / 1521

[13] حیات مخدوم الاولیاء ، ص 395 ، 396 ، انوار علمائے اہل سنت سندھ ، ص986 تا 991

[14] محدث اعظم حجازکی وفات اورسعودی صحافت ، ص20 تا30


Share