قبر میں دیدارِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

باتیں میرے حضور کی

 قبر ميں ديدارِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

* مولانا کاشف شہزاد عطاری مدنی

ماہنامہ اپریل 2021

اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو جو خصوصی شانیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مرنے والے سے قبر میں آپ کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔ [1]

2فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

(1)جب بندے کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے اس کے پاس آکر اسے بٹھادیتے ہیں اور پوچھتے ہیں : مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تم اس مرد یعنی محمد  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  کے بارے میں کیا کہتے تھے؟  [2] (مسلمان) مردہ جواب میں کہتا ہے : اَشْهَدُ اَنَّهٗ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُہٗ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ پاک کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ [3]

(2)اَمَّا فِتْنَةُ الْقَبْرِ فَبِیْ تُفْتَنُوْنَ وَعَنِّيْ تُسْاَ لُوْنَ یعنی قبر کا امتحان اس طرح ہوگا کہ تم میرے ذریعے آزمائے جاؤ گے اور تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ [4]

امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : اس کے بعد (فرشتے) سوال کرتے ہیں : مَا تَقُوْلُ فِی ھٰذَا الرَّجُل ان کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ اب نہ معلوم کہ سرکار ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) خود تشریف لاتے ہیں یا رَوضۂ مُقَدّسہ سے پردہ اٹھا دیا جاتا ہے ، شریعت نے کچھ تفصیل نہ بتائی ، اور چونکہ امتحان کا وقت ہے اس لیے “ ھٰذَا النَّبی “ نہ کہیں گے “ ھٰذَا الرَّجُل “ کہیں گے۔ [5]

دولہا کے دیدار کی رات : حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان  رحمۃُاللہِ علیہ  لکھتے ہیں : قبر میں میت کو حضور علیہ السّلام کا دیدار کراکر سوال ہوتا ہے کہ تُو اس شَمْسُ الضُّحیٰ بَدْرُ الدُّجیٰ  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  کو جو تیرے سامنے جلوہ گر ہیں ، کیا کہتا تھا؟ ’’ہٰذَا‘‘ اشارہ قریب ہے ، معلوم ہوا کہ دِکھا کر قریب کرکے پھر پوچھتے ہیں۔ اسی لیے حضرات صوفیائے کرام اور عُشّاق موت کی تمنا کرتے ہیں اور قبر کی پہلی رات کو “ دولہا کے دیدار کی رات “ کہتے ہیں۔

اعلیٰ حضرت ( رحمۃُ اللہِ علیہ ) فرماتے ہیں :

جان تو جاتے ہی جائے گی قیامت یہ ہے

کہ یہاں مرنے پہ ٹھہرا ہے نظارہ تیرا

مولانا آسی ( رحمۃُ اللہِ علیہ ) فرماتے ہیں :

آج پُھولے نہ سمائیں گے کفن میں آسی

جس کے جَویاں تھے ہے اُس گل سے ملاقات کی رات[6]

موت کا وقت آنے پر خوشی : اے عاشقانِ رسول ! سركارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے محبت کی ایک نشانی یہ ہے کہ آپ سے ملاقات (اور زیارت) کا شوق ہو ، کیونکہ ہر محبت کرنے والا

 اپنے محبوب سے ملنے کا مُشتاق ہوتا ہے۔ [7]

چونکہ قبر میں سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا دیدار ہونے کی امید ہے نیز موت کے بعد نیک بندوں کی روحیں آپس میں ملاقات کرتی ہیں اس لئے بعض بزرگانِ دین  رحمۃُ اللہِ علیہم موت کا وقت آنے پر خوش ہوتے۔ اس حوالے سے 3 صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  کا ذکر ملاحظہ فرمائیے : (1)جب سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے عاشقِ صادق حضرت سیّدُنا بلال حبشی  رضی اللہُ عنہ  کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کی زوجہ محترمہ  رضی اللہُ عنہ ا نے بے قرار ہوکر پکارا : وَاحُزْنَاهْ یعنی ہائے غم۔ اس پرآپ  رضی اللہُ عنہ  نے فرمایا : وَاطَرَبَاہ یعنی واہ خوشی۔ غَدًا اَلْقَى الْاَحِبَّةْ مُحَمَّدًا وَحِزْبَهْ كل (یعنی مرنے کے بعد) میں (اپنے آقا) محمدِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اور آپ کے گروہ (یعنی صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان ) سے ملوں گا۔ [8] (2)حضرت سیّدُنا حذیفہ بن یمان   رضی اللہُ عنہما  سے متعلق بھی اسی طرح کی حکایت منقول ہے۔ [9] (3)حضرت سیّدُنا عمار بن یاسر   رضی اللہُ عنہما  نے جنگِ صِفِّین کے دوران یہ شعر پڑھا :

اَلْآنَ اَلْقَى الْاَحِبَّةْ                                                                        مُحَمَّدًا ثُمَّ حِزْبَهْ

یعنی عنقریب(مرنے کے بعد) میں اپنے پیاروں یعنی محمدِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اور آپ کے صحابہ سے ملوں گا۔ [10]

ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ بھی کہا : اَلْيَوْمَ نَلْقٰى حَبِیْبَنَا مُحَمَّدًا صلَّی اللہ علیہ وسلَّم یعنی آج ہم اپنے محبوب محمدِ عربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے ملنے والے ہیں۔ [11]

روح نہ کیوں ہو مُضْطَرِب موت کے انتظار میں

سنتا ہوں مجھ کو دیکھنے آئیں گے وہ مزار میں[12]

مُشتاقانِ زیارتِ نبوی کے لئے خوش خبری : شیخِ مُحَقِّق شیخ عبدالحق محدث دہلوی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : لفظ “ ہٰذَا “ کے ساتھ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی طرف جو اشارہ ہے یہ یا تو اس وجہ سے ہے کہ آپ کی رسالت مشہور ہے اور آپ کا تصوُّر ہمارے ذہنوں میں حاضر ہے ، یا پھر قبر میں آپ کی ذاتِ مبارک لائی جائے گی اس طرح کہ آپ کی ایک مثال لائی جائے گی تاکہ آپ کے جمالِ جہاں آرا کے مُشاہدے سے فرشتوں کے سوال کی مشکل حل ہوجائے اور آپ کی ملاقات کے نور سے فِراق و دوری کا اندھیرا دور ہوجائے۔ اس بات میں (سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی) زیارت کی حسرت رکھنے والوں کے لئے یہ خوش خبری ہے کہ اگر وہ قبر میں آپ کی زیارت کی امید پر (اللہ پاک کی راہ میں) جان دے دیں تو اس کی گنجائش ہے۔ [13]

جان دے دو وعدۂ دیدار پر

نقد اپنا دام ہوہی جائے گا[14]

قبر میں مردے سے سوال کی3صورتیں : شارحِ بخاری مفتی شریفُ الحق امجدی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : (قبر میں مردے سے سوال کس طرح ہوتا ہے) شارحینِ حدیث نے اس کی تین توجیہیں (یعنی 3 صورتیں بیان ) کی ہیں : ایک تو یہ کہ قبر سے گنبدِ خَضریٰ تک کے سارے حِجابات (یعنی پردے) اٹھا دیئے جائیں گے اور مُردہ جمالِ جہاں آرا سے مُشَرّف ہوگا ، اب نَکِیْرَین (یعنی قبر میں سوالات کرنے والے دو فرشتے مُنْکَر نَکِیر) حضورِ اقدس  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی طرف اشارہ کرکے پوچھیں گے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ حضورِ اقدس  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  کی شبیہ مبارک نَکِیْرَین کے پاس ہوگی ، اُس کی طرف اشارہ کرکے پوچھیں گے۔ تیسری توجیہ یہ کی ہے کہ حضورِ اقدس  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  خود تشریف لاتے ہیں۔ [15]

جب قبر میں دیکھوں گا کہہ دوں گا یہ آقا سے

یاں کھینچ کے لایا ہے اَرمان زِیارت کا[16]

اے ہمارے پیارے اللہ پاک! موت کے بعد ہماری قبر کو سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے جلووں سے پُرنور فرما دے۔  اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



[1] مواہب لدنیہ ، 2 / 289 ، کشف الغمۃ ، 2 / 55

[2] نوٹ : یاد رہے کہ قبر میں مردے سے تین سوالات کئے جاتے ہیں۔ اس روایت میں ان تین میں سے صرف تیسرے سوال  کا ذکر کیا گیا ہے۔

[3] بخاری ، 1 / 450 ، حدیث : 1338

[4] مسند احمد ، 9 / 469 ، حدیث : 25143

[5] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص526

[6] جاء الحق ، ص121

[7] الشفا ، 2 / 25

[8] الشفا ، 2 / 23 ، نسیم الریاض ، 4 / 430

[9] نسیم الریاض ، 4 / 430

[10] شرح الشفا ، 2 / 43

[11] دلائل النبوۃ ، 2 / 552

[12] دیوانِ سالک ، ص22

[13] اشعۃ اللمعات ، 1 / 124

[14] حدائقِ بخشش ، ص40

[15] فتاویٰ شارحِ بخاری ، 1 / 406

[16] قبالۂ بخشش ، ص79


Share