بددعائیں کیوں؟
* مولانا ابورجب محمد آصف عطاری مدنی
ماہنامہ اپریل 2021
کم وبیش 12سو سال پہلے کے بُزرگ حضرت سیّدنا معروف کرخی رحمۃُ اللہِ علیہ کچھ لوگوں کے ساتھ دریائے دجلہ کے کنارے جا رہے تھے کہ راستے ميں ايک گروپ ڈانس پارٹی اور شراب نوشی وغیرہ میں مصروف تھا۔ یہ دیکھ کرآپ کے ساتھیوں نے عرض کی : دعا کیجئے کہ اللہ ان کوغرق کردے۔ آپ نے ہاتھ اٹھا کر کہا : یااللہ! جس طرح یہ اِس جہاں میں عیش اور خوشی سے زندگی گزار رہے ہیں اگلے جہان یعنی آخرت میں بھی انہیں عیش نصیب فرما۔ آپ کے ساتھیوں نے عرض کی کہ حضور! آپ نے جو دعا کی ہے اس میں کیا راز ہے ، ہم سمجھ نہیں سکے؟ آپ نے فرمایا : جس سے دعا کی ہے وہ اس راز کو جانتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ وہ نوجوان شراب و رَباب پھينک کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرکے بُرے کاموں سے تائب ہوگئے۔ اس کے بعد آپ نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر فرمايا : تم نے دیکھا کہ کسی کے غرق ہوئے اور تکلیف پہنچے بغیر ہی ہمیں ہماری مراد حاصل ہوگئی۔ [1]
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! دعا ہماری زندگی کی اہم عبادت اور اپنے ربِّ کریم سے حاجتیں مانگنے کا آسان ذریعہ ہے ، دعا کی قبولیت اللہ پاک نے اپنے ذمۂ کرم پر لی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ( ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ- ) ترجمۂ کنزُالایمان : مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔ [2] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
دعا کی دو قسمیں : ہم عموماً دو قسم کی دعائیں مانگتے ہیں ، ایک وہ جس میں اپنی یا کسی اور کی بھلائی ، خیرخواہی یا نفع شامل ہوتا ہے جیسے یااللہ! مجھے نیک بنادے ، یااللہ! میری روزی میں برکت عطا فرما ، یااللہ! میرے بیٹے کو بیماری سے شفا دے ، یاالٰہی ہمارا سارا قرضہ اُتر جائے وغیرہ ، اور دوسری وہ دعا جوخود اپنے یا کسی اور کے خلاف مانگی جاتی ہے ، اسے بددُعا کہا جاتا ہے جیسے اللہ کرے اس کا ایکسیڈنٹ ہوجائے ، یہ ایک ایک روپے کا محتاج ہوجائے ، اس کے گھر کو آگ لگ جائے ، اس کا کاروبار تباہ ہوجائے ، یہ اندھا ہوجائے ، اس کے بدن میں کیڑے پڑیں وغیرہ۔ دونوں قسم کی دعاؤں کا ذکر قراٰنِ پاک میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے : ( وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا(۱۱)) ترجمۂ کنزُالایمان : اور آدمی برائی کی دعا کرتا ہے جیسے بھلائی مانگتا ہے اور آدمی بڑا جلد باز ہے۔ [3] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یعنی اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے اور اپنے مال کے لئے اور اپنی اولاد کے لئے اور غصّہ میں آ کر ان سب کو کوستا رہتاہے اور ان کے لئے بددعائیں کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کی یہ بددُعا قبول کر لے تو وہ شخص یا اس کے اہل و مال ہلاک ہو جائیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول نہیں فرماتا۔ [4]
خود کو بددُعا نہ دو : اللہ پاک کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی ہمیں اپنے آپ کو اور دوسروں کو بددُعا دینے سے روکا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا : تم نہ اپنے آپ کو بددُعا دو ، نہ اپنی اولاد کو بد دُعا دو اور نہ اپنے اَموال کو بددُعا دو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وہ گھڑی ہو جس میں اللہ پاک سے جس عطا کابھی سوال کیا جائے تو وہ دُعا قبول ہوتی ہو۔ [5]
اب کسی کے لئے بددُعا نہ کرنا : تابعی بُزرگ حضرت سیِّدُنا سعید بن جُبَیر رحمۃُ اللہِ علیہ کے پاس ایک مرغا تھا ، (رات کےوقت) جب وہ اذان دیتا تو آپ اُٹھ کر نماز پڑھتے تھے ، ایک رات مرغ نے اذان نہ دی تو آپ نماز کے لئے بیدار نہ ہو سکے ، صبح آپ کو اس معاملے کا بڑا صدمہ پہنچا ، آپ نے کہا : آج مرغ کو کیا ہو گیا؟اللہ اس کی آواز ختم کر دےچنانچہ اس کے بعد کبھی کسی نے اس مرغ کی آواز نہیں سُنی۔ آپ کی والدہ نے فرمایا : بیٹا!اب کبھی کسی کے لئے بد دُعا مت کرنا۔ [6]
ہم بددُعا کیوں کرتے ہیں؟ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس کے ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو درد پورا بدن محسوس کرتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف دعا کرنے لگتا ہے! دیکھا جائے تو اس کا سبب غصہ ، حسد (جیلسی) ، بغض و کینہ اور سامنے والے کا ظالم اور گناہوں میں مبتلا ہونا ہوسکتا ہے ۔
غیر مسلم کے لئے بددعا : اگر کسی کافر کے ایمان نہ لانے پر یقین یا ظنِّ غالِب ہو اور اس کے جینے سے دین کا نقصان ہو تو ایسے شخص پر بد دُعا (یعنی مرنے کی دعا کرنا) دُرُست ہے۔ [7]
مسلمان کے لئے بددُعا : اس کی چند صورتیں ہیں : (1)سُنّی مسلمان اگر کسی پر ظالم نہیں تو اس کے لئے بددعا نہ چاہئے بلکہ دعائے ہدایت کی جائے کہ جو گناہ کرتاہے چھوڑ دے ، اور اگر ظالم ہے اور مسلمانوں کو اس سے ایذا (یعنی تکلیف)ہے تو اس پر بد دعا میں حرج نہیں ، وَھُوَتعالیٰ اعلم۔ [8] (2) کسی مسلمان کو یہ بد دُعا کہ تجھ پر خدا کا غضب نازل ہو اور تو آگ یا دوزخ میں داخل ہو! نہ دے کہ حدیث شریف میں اس کی ممانعت وارِد ہے ۔ [9] (3) کسی ظالم سے امید توبہ اور ترکِ ظلم کی نہ ہو اور اس کا مرنا تباہ ہونا خَلْق (یعنی مخلوق)کے حق میں مفید ہو ، ایسے شخص پر بددعا دُرُست ہے۔ [10] (4)ظالم کے خلاف دعا کرنے والا اپنا بدلہ لے لیتا ہے ، چنانچہ سلطانِ بَحروبَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے : مَنْ دَعَا عَلٰی مَنْ ظَلَمَہ ، فَقَدْاِنْتَصَرَ ترجمہ : جس نے اپنے اوپر ظلم کرنے والے کے خلاف بد دُعا کی تو اس نے اپنا بدلہ لے لیا۔ [11] (5)جس نے کسی پر ظلم کیا ہو تو وہ اتنی ہی بد دعا دے جتنا اُس نے ظلم کیا ہے ، اس سے آگے مت بڑھے ، اور اگر اس کی طرف سے ملنے والی تکلیف پر صبر کرے اور درگزر سے کام لے تو یہ اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔
چور کو بددُعا دینے سے روکا : حضرت سیِّدُنا رَبیع بن خَیْثم رحمۃُ اللہِ علیہ نماز پڑھ رہے تھے کہ کسی نے ان کاگھوڑا چوری کرلیا ، جس کی قیمت بیس ہزار درہم تھی۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اسے پکڑنے کے لئے نہ تو نماز توڑی نہ ہی پریشان ہوئے۔ کچھ لوگ تسلّی دینے آئے تو فرمایا : میں نے اسے رسی کھولتے دیکھ لیاتھا۔ عرض کی گئی : آپ نے اُسے بھگایا کیوں نہیں؟ فرمایا : میں گھوڑے سے زیادہ پسندیدہ کام یعنی نماز میں مصروف تھا۔ لوگ چور کے لئے بددُعا کرنے لگے تو فرمایا : اسے بددُعا نہ دو اور اچھی بات کرو کیونکہ میں اپنا گھوڑا اس پر صدقہ کرچکا ہوں![12] (6) ظالم کے خلاف بددُعا کرنا چاہے تو اس کے اہلِ خانہ کو اس میں شامل نہ کرے جب تک کہ وہ ظالم کے ظلم کے ذمّہ دار اور اس کے ساتھ شریک نہ ہوں۔
مظلوم کی بددُعا سے بچو : ہمیں ظلم کرنے اور مظلوم کی بددُعا سے بچنا چاہئے ، سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’ مظلوم کی بد دُعا سے بچو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حقدار کو اس کے حق سے منع نہیں کرتا۔ [13] ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ، “ مظلوم کی بد دعا مقبول ہےاگرچہ وہ فاجر ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس کا فجور تو اس کی اپنی جان پرہے ۔ “ [14]
ظالم کا پیٹ پھٹ گیا : حضرت سیِّدُنا عبدُ المطلب بن ربیعہ بن حارث رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں : بنی کِنانہ کا ایک شخص زمانۂ جاہلیت میں اپنے چچا کے بیٹے پر ظلم کرتاتھا۔ اس نے اسے اللہ اور اپنی رشتہ داری کے واسطے دیئے مگر وہ ظلم کرتا رہا۔ اس لڑکے نے حرم شریف میں داخل ہوکر دُعا مانگی : اے اللہ! میں تجھ سے ایک مجبور شخص کی طرح دعا کرتاہوں کہ تو میرے چچا کے بیٹے کو ایسی بیماری میں مبتلا کر جس کا کوئی علاج نہ ہو۔ جب وہ لڑکا واپس آیا تو اس کے چچا کا بیٹا پیٹ کےمرض میں مبتلا تھا ، اس کا پیٹ مشکیزے کی طرح پھول کر پھٹ گیا۔ [15]
اللہ کریم ہمیں دعا ئے خیر کرنے اور لینے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* اسلامک اسکالر ، رکنِ مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی
[1] تذکرۃ الاولياء 1 / 242ملتقطاً
[2] پ 24 ، المؤمن : 60
[3] پ15بنی اسرآءیل : 11
[4] خزائن العرفان ، ص527
[5] مسلم ، ص1226 ، حدیث : 3009
[6] حلیۃ الاولیاء ، 4 / 303
[7] فضائل دعاء ، ص187
[8] فتاویٰ رضویہ ، 23 / 182
[9] فضائل دعاء ، ص203
[10] فضائل دعاء ، ص187
[11] ترمذی ، 5 / 324 ، حدیث : 3563
[12] احیاء العلوم ، 4 / 349
[13] کنزالعمال ، 2 / 200 ، حدیث : 7594
[14] الترغیب والترہیب ، 3 / 130 ، حدیث : 18
[15] درمنثور ، 1 / 302
Comments