دارالافتاء اہل سنت
* مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
ماہنامہ اپریل 2021
(1)کیا بے ہوش ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کی نیت سے سحری کی ، تقریبا 3 گھنٹے 7 تا 10طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اچانک خود بخود بے ہوش ہو گیا ، 3 گھنٹے کے بعد ہوش میں آگیا۔ پوچھنا یہ ہے کہ آیا اس بے ہوشی کی وجہ سے روزے پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں؟ شرعی راہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں بے ہوش ہونے کے بعد ہوش میں لانے کیلئے ناک یا منہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ڈالی گئی جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہو ، مثلاً دوائی ، پانی وغیرہ نہیں پلایا گیا ، تو صرف بے ہوشی کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ، کیونکہ خالی بے ہوش ہونا ، ایسا سبب نہیں ہے جس سے روزہ فاسد ہو جائے۔
(المبسوط للسرخسی ، 3 / 70 ، بہار شریعت ، 1 / 967)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2) بلا عذر بیٹھ کر تراویح پڑھنا
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ “ مکتبۃ المدینہ “ کی شائع کردہ کتاب “ فیضانِ رمضان “ صفحہ : 175 پر پوائنٹ نمبر 11 میں ہے : “ بلا عذر تراویح بیٹھ کر پڑھنا مکروہ ہے۔ ۔ ۔ الخ “ اس پر میرا سوال یہ ہے کہ یہاں مکروہ سے مراد مکروہِ تحریمی ہے یا مکروہِ تنزیہی؟ راہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تراویح کی نماز بغیر کسی عذر کے بیٹھ کر پڑھنا خلافِ مستحب ہے ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں یہاں مکروہ سے مراد مکروہِ تنزیہی و خلافِ مستحب ہے۔
البتہ یہ مسئلہ ذہن نشین رہے کہ صحیح قول کے مطابق اگرچہ بغیر کسی عذر کے تراویح کی نماز بیٹھ کر پڑھنے سے بھی ادا ہوجائے گی لیکن اس صورت میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کے مقابلے میں آدھا ثواب ملے گا ، لہٰذا اگر کوئی عذر نہ ہو تو پوری کوشش یہی ہونی چاہئے کہ تراویح کی نماز کھڑے ہوکر ہی ادا ہو تاکہ پورا ثواب حاصل ہو۔
(رد المحتار مع در المختار ، 2 / 603 ، بہارِ شریعت ، 1 / 693ملخصاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(3)زکوٰۃ کا ایک اہم مسئلہ
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1)بعض لوگ اس نیت سے مرغیاں خریدتے ہیں ، کہ ان کو پال کر بڑا کرکے بیچ دیں گے۔
(2)بعض لوگ اس نیت سے مرغیاں خریدتے ہیں کہ ان کی پرورش کرکے ان سے انڈے حاصل کریں گے اور ان کے انڈے بیچیں گے ، مرغیاں بیچنا مقصود نہیں ہوتا۔
ان دونوں صورتوں میں مرغیاں خریدنے والے شخص کے لئے زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)پوچھی گئی پہلی صورت میں یہ مرغیاں مالِ زکوٰۃ میں شامل ہوں گی ، لہٰذا اگر یہ تنہا نصاب کو پہنچ جاتی ہیں ، یا دیگر اموالِ زکوٰۃ (سونا ، چاندی ، مالِ تجارت ، پرائز بانڈز اور کسی بھی ملک کی کرنسی) کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جاتی ہیں ، اور دیگر شرائط بھی پائی جائیں ، تو اب ان پر زکوٰۃ لازم ہوگی۔ نصاب سے مراد ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے مساوی کوئی مال مثلاً رقم وغیرہ ہے۔ (الدرالمختار متن ردالمحتار ، 3 / 234 ، بہارِ شریعت ، 1 / 892)
(2)اس صورتِ حال کے مطابق مرغیوں پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی اور ان سے حاصل ہونے والے انڈوں پر بھی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی کیونکہ یہ مالِ تجارت نہیں ہے۔ مرغیوں کو بیچنا مقصود نہیں ہے ، اس لئے وہ مالِ تجارت نہیں ہے اور انڈوں کو خریدا ہی نہیں ، اس لئے وہ بھی مالِ تجارت نہیں بنے گا ، کیونکہ مالِ تجارت کےلئے کسی چیز کو خریدنا ضروری ہے۔ البتہ ان انڈے یا مرغیوں کو بیچنے کی صورت میں جو رقم حاصل ہوگی ، وہ ضرور مالِ زکوٰۃ میں شامل ہوگی۔ (العنایہ ھامش فتح القدیر ، 2 / 178 ، ملتقط از بہارِ شریعت ، 1 / 883)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(4)پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا اور اس رات عبادت کرنا
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا اور رات کو عبادت کرنا حدیث سے ثابت ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں! حدیثِ پاک میں شعبان المعظم کی پندرھویں رات کو عبادت کرنے اور پندرہ شعبان المعظم کا روزہ رکھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
چنانچہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : “ جب شعبان کی پندرھویں رات آجائے تو اس رات کو قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کہ رب تعالیٰ غروبِ آفتاب سے آسمانِ دنیا پر خاص تجلی فرماتا ہے اور کہتا ہے ، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ اسے بخش دوں! ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں! ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اسے عافیت بخشوں! ہے کوئی ایسا! ہے کوئی ایسا! اور یہ طلوعِ فجر تک فرماتا ہے۔ “
(سنن ابن ماجہ ، 2 / 160 ، حدیث : 1388)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محققِ اہلِ سنّت ، دار الافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان کھارادر ، کراچی
Comments