فریاد
بےجابحث مت کیجئے!
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شور ی کے نگران مولانا محمد عمران عطاری
ماہنامہ اپریل 2021
16جنوری 2021 کی بات ہےکہ میں بیرونِ ملک سے جہاز کے ذریعے واپس پاکستان آرہا تھا ، ایس اوپیزکے مطابق مسافروں نےچہروں پر ماسک لگا رکھے تھے ، ابھی جہاز اُڑا نہیں تھا کہ اتنےمیں ایک بڑے میاں جن کی عمر 70سال سےزائد لگ رہی تھی ، ان کی آوازسنائی دی جو چیخ کر کسی اور پیسنجر کو ماسک لگانے کا کہہ رہےتھے ، اس آدمی نے جواب دیا : میں بات کر رہا ہوں۔ بڑے میاں نےپھرچیخ کر کہا : بات نہیں کر اور ماسک لگا ، کیا پتا نہیں ہے کہ “ کرونا “ ہے؟ یوں کچھ دیر تک دونوں کی بحث چلتی رہی۔
اے عاشقانِ رسول! میرے خیال میں بڑے میاں کی بات غلط نہیں تھی البتہ ان کا اندازکچھ جارحانہ تھا جو کہ نہیں ہونا چاہئے تھا ، مگر سامنے والا شخص اگر بحث کرنے کے بجائے بڑے میاں کی بات مان لیتا اور توجہ دلانے پر یہ کہہ دیتا کہ “ سوری “ میں بات کر رہا تھا ابھی ماسک لگا لیتا ہوں تو اس شخص کا کیا جاتا ، بلکہ اسے یہ محسوس کرنا چاہئے تھاکہ شاید میرے ماسک نہ لگانے سے بڑےمیاں کو ڈر لگ رہا ہے اور انہیں تکلیف ہورہی ہے ، کیونکہ ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق زیادہ تر بچّے اور بڑی عمر کے افراد کرونا کا شکار ہوسکتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ مجھے ماسک لگانےکاکہہ رہے ہوں۔ نیز وہ شخص یہ بھی تو سوچ سکتا تھا کہ یہاں اس وقت ماسک لگاناایک رول اور قانون ہے جسے فالو نہ کرنے پر بڑے میاں میری توجہ دلارہے ہیں لہٰذا مجھے تو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے نہ کہ ان سے بحث۔ بہرحال معاشرے کے اندر اس طرح کے افراد کی کمی نہیں کہ جنہیں ان کی غلطیوں پر توجہ دلائی جائے تو بات کو تسلیم کرنے اور اپنی غلطی کو سدھارنے کے بجائے اُلٹا بحث کرنے پر اتر آتے ہیں اور بالآخر وہ بحث و مباحثہ جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتا ہے ، اس کا کم از کم نقصان دل میں نفرت بیٹھ جانے کی صورت میں نکلتا ہے ، میرا تو مشورہ یہ ہے کہ آدمی اگر حق پر ہے تو بھی اپنے دلائل تب دے کہ سامنے والے کے ماننے کی امید ہو یا جب اپنے دلائل دے لے اور دیکھے کہ سامنے والا نہیں مان رہا تو بحث میں ہرگز نہ پڑے اور ممکن ہو تو وہاں سے آگے پیچھے ہوجائے اسی میں عقل مندی ہے ، کیونکہ عقل مند آدمی بےجا بحث مباحثوں میں پڑکر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔
بعض اوقات کچھ مذہبی معاملات میں بحث کرنی ہوتی اور اپنے دلائل لانا پڑتے ہیں ، یہ الگ صورتیں ہیں ، اس حوالے سے احیاءُ العلوم کی تیسری جلدمیں امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نے بہت کچھ بیان فرمایا ہے۔
میں ایک جنرل بات کررہا ہوں کہ عام طور پر جھگڑے کی زیادہ تر وجہ بحث اور تکرار ہوا کرتی ہے ، بھائی بہنوں کی لڑائیوں ، شوہر اور بیوی کے درمیان نفرتوں ، ساس بہو کی جنگوں ، سینیئرز اور جونیئرز میں آپس کی کھینچاتانیوں کی ابتدا عموماً اسی بےجا بحث سے ہوتی ہے ، میری گزارش ہے کہ اگر آپ غلطی پر ہیں تو توجہ دلانے پر فوراً مان لیں ، یہ عادت آپ کے ساتھ ساتھ سامنے والے شخص کو بھی امن و سکون میں رکھے گی ، ہوسکے تو جسے آپ نے بڑا تسلیم کیا ہے یا جسے شریعت و معاشرے نے آپ کا بڑا بنایا ہے تو اس کی بات کو اہمیت دیں اور کسی بھی معاملے میں اس سے بےجا بحث نہ کریں ، میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ غلطی نہ کرنے کے باوجود آپ غلطی کو تسلیم کرلیں ، میری عرض صرف اتنی ہے کہ بحث و تکرار سے خود کو بچائیں اور اِگنور کریں ، امن ، مَحبّت اور پیار کی طرف آئیں ، سامنے والے کی بات اگر درست ہے مگر لہجہ غلط ہے تو فی الحال اس کی بات مان لیں اور جب موقع ملے تو اچھے انداز سے اُس لہجے کی طرف اس کی توجہ دلائیں یا پھر صبر کرکے ثواب کمائیں ، مثلاً آپ کو کسی نے جھڑک کر کہا کہ “ جوتے یہاں کیوں اتارے یہ کوئی جوتے اتارنے کی جگہ ہے؟ “ اور واقعی وہ جوتے اتارنے کی جگہ نہیں تھی تو لہجہ اگرچہ غلط ہے مگر بات درست ہے ، لہٰذا آپ کہیں : معذرت! پھر کبھی موقع ملے تو اسے کہہ دیں : آپ یہ بات نرمی سے کہتے تو بہت اچھا تھا ، یونہی آپ کو تلخ لہجے میں کہا گیا کہ یہ چائے کا کپ یہاں کیوں رکھا اور واقعی وہاں نہیں رکھنا تھا یا غصے میں کہا گیا کہ یہ کوئی آنے کا ٹائم ہے؟ واقعی وہ ٹائم آنے کانہیں ہے ، تو “ معذرت معذرت “ یا “ سوری سوری “ کہہ کربات ختم کردیں ، اب اگر آپ نے سخت لہجہ اپنایا تویہ اس طرح ہوگا جیسے پتھر سے پتھر ٹکراتا ہے تو چنگاری نکلتی ہے ، آگ سے آگ بجھتی نہیں ہے ، آگ تو پانی سے بجھتی ہے۔ حضرت سیِّدُنا معروف کرخی رحمۃُ اللہِ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : “ جب اللہ پاک کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے لئے عمل کا دروازہ کھول دیتاہے اور بحث و مباحثہ کا دروازہ بند کر دیتاہے اور جب اللہ پاک کسی بندے سے شَر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے لئے عمل کا دروازہ بند کر دیتاہے اور بحث و مباحثہ کادروازہ کھول دیتاہے۔ “ (حلیۃ الاولیاء ، 8 / 405 ، رقم : 12690) تابعی بزرگ حضرت سیِّدُنا ابو ایوب میمون بن مہران رحمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھا گیا : کیا وجہ ہے کہ آپ کا کوئی دوست آپ سے متنفر ہو کر جدا نہیں ہوا؟ فرمایا : کیونکہ نہ میں اس سے بحث کرتا ہوں اورنہ ہی اسے کسی بات کا نشانہ بناتا ہوں۔ (حلیۃ الاولیاء ، 4 / 110 ، رقم : 4817)
میری تمام عاشقانِ رسول سےفریادہے!اپنی گفتگو اورلہجہ دونوں ہی شریعت کےمطابق رکھئے ، بےجا بحثوں میں مت پڑیئے ، اپنی غلطیوں کو قبول کرتے ہوئےتوجہ دلانے والے کا شکریہ بھی اداکیجئے ، بلکہ آپ کی غلطی نہ بھی ہوپھربھی بحث و مباحثےکی طرف مت جائیےاورسامنےوالےکےساتھ خوش اَخلاقی سےہی پیش آئیے ، اللہ پاک نےچاہا تو آپ کی یہ عادت دینی کاموں میں ترقی کے لئے آپ کی معاون ثابت ہوگی۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments