جِنّات کے بارے میں عقائد و معلومات
* مولانا عدنان چشتی عطاری مدنی
ماہنامہ اپریل 2021
ہم جس دنیا میں رہتے ہیں یہاں انسانوں کے علاوہ دیگر بے شمار مخلوق بھی آباد ہے۔ بعض وہ ہیں کہ جن کے متعلق مختلف کہانیاں اور واقعات موجود ہیں جیسے عُنقا پرندہ یا ڈائنو سارس وغیرہ۔ بعض وہ ہیں جنہیں ہم انسانی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں جیسے ہمارے اِردگِرد پائے جانے والے بےشمار انسان اور حیوانات چرند پرند وغیرہ۔ بعض وہ ہیں جنہیں ہم انسانی آنکھ سے تو نہیں دیکھ سکتے ہاں البتہ محسوس ضرور کر سکتے ہیں جیسے ہوا ، خوشبو اور بدبُو وغیرہ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو یہ کہے کہ چونکہ میں نے ہوا کو نہیں دیکھا اس لئے میں اسے نہیں مانتا ، میں خوشبو کو نہیں مانتا کیونکہ میں نے اسے دیکھا نہیں ہے بلکہ صرف محسوس کر لینے پر ہوا کے وُجُود کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ بعض وہ ہیں کہ جنہیں مختلف آلات کے ذریعے ہی دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ انہیں بغیر کسی آلے کے دیکھنا انسانی آنکھ کے بس کا کام نہیں جیسے ہمارے گِرد و نَواح میں پائے جانے والے اَن گِنت جراثیم ، ہمارے خون میں پائے جانے والے ہیموگلوبن ، وائٹ سیلز ، جسم میں پائی جانے والی بیماریاں ، کیلشیم ، پروٹین ، وٹامنز کس کی کتنی مقدار موجود ہے؟ کتنی کمی ہے؟ یہ سب وہ چیزیں ہیں کہ جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا اگرچہ بے شمار افراد ایسے ہیں کہ جنہوں نے ان بیان کردہ اشیاء میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا لیکن پھر بھی ہم سب مانتے ہیں کہ ان کا وجود ہے۔
ذرا غور کیجئے ایسا کیوں ہے؟ شاید آپ کے ذہن میں یہ بات آئے کہ ان چیزوں سے انکار اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے وجود کا بتانے والے لوگ بےشمار ہیں اس لئے اگرچہ ہم نے نہیں دیکھا لیکن جب اتنی بڑی تعداد بتا رہی ہے تو مان لینے میں ہی عافیت ہے کہ ان کا وجود ہے۔ اب غور فرمائیے ایک مخلوق ایسی بھی ہے کہ جسےاس کی اصلی حالت میں ہم اپنی آنکھ سے تو نہیں دیکھ سکتے البتہ اللہ پاک نے ، اس کے نبیوں اور رسولوں نے ، صحابۂ کرام ، تابعین و صالحین ، اولیا اورعلما نے بتایا کہ نظر نہ آنے والی ایک مخلوق “ جِنّات “ بھی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک طرف بڑی تعداد کو دلیل بنا کر نظر نہ آنے والے جراثیم ، خون کے سفید و سرخ اجزاء اور کیلشیم وغیرہ کے وجود کا اقرار اور دوسری طرف مَعاذَ اللہ جنّات کاانکار۔ یقیناً یہ تضاد اور کم عقلی کی بات ہے کیونکہ جب سب سے سچے ہمارے رب اور اس کے سچے رسولوں ، بےشمار اولیا و علما نے فرما دیا کہ جِنّات کا وجود ہے تو بس بندۂ مؤمن کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ جنّات کاوجود ہے۔ جنّات کے وجود کا انکار دائرۂ اسلام سے نکل جانے کا سبب ہے۔
جنّات کا انکار کرنا کیسا؟ بعض لوگ یہ تو نہیں کہتے کہ جنات کا کوئی وجود نہیں ہے البتہ ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے جنّات کے وجود کا انکار لازم آتا ہے جیسے یہ کہنا کہ جنّات تو بَدی کی طاقت کو کہتے ہیں۔ خوب یاد رکھئے! شیطان یا شریر جنات کو بَدی کی طاقت کہنا دَرحقیقت ان کے جسمانی وُجود کا اِنکار کرنا ہے اور یہ کُفر ہے جیسا کہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : (جِنّات) کے وُجود کا اِنکار یا بَدی کی قوت کا نام جِنّ یا شیطان رکھنا کُفر ہے۔ [1]
قراٰنِ پاک میں “ سورۃُ الجِنّ “ کے نام سے پوری ایک سورت ہے اور جنات کے وُجُود کا اِنکار گویا قراٰنِ پاک کی آیات کا اِنکار ہے۔ کیونکہ اللہ پاک جنات کی تخلیق کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے : ( وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)) ترجَمۂ کنزُالایمان : اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی (اسی لئے) بنائے کہ میری بندگی کریں۔ [2] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : (وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ(۲۷)) ترجَمۂ کنزُالایمان : اور جِن کو اس سے پہلے بنایا بے دھوئیں کی آگ سے۔ [3] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
جِن کیا ہیں اور وجہ تسمیہ : لغت میں جِن چھپے ہوئے ، ڈھانپے ہوئے اور خفی کو کہتے ہیں ، جن کو اسی لئے جن کہتے ہیں کہ وہ عام لوگوں کی نگاہوں سے چھپا ہوتا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگ فرشتوں کو بھی جن کہا کرتے تھے کیونکہ وہ ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتے تھے۔ [4]
جنّات کی قسمیں : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جنات کی مختلف شکلوں کے بارے میں فرمایا : جنات کی تین قسمیں ہیں : اوّل : جن کے پر ہیں اور وہ ہوا میں اڑ تے ہیں ، دوم : سانپ اور کتے اور سوم : جو سفر اور قیام کرتے ہیں۔ [5]ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس جنات کے وُفود کا آنا ، قراٰن کی سورت بھول جانے پر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ، اپنی خوراک کے لئے بارگاہِ مصطفےٰ میں سوال کرنا وغیرہ ایسی بے شمار احادیث ہیں کہ جن سے جنات کا وجود روزِ روشن کی طرح واضح ہوتا ہے ، جب اللہ پاک چاہے تو ان کی موجودگی کا احساس بھی ہوتا ہے جیسا کہ ایک دن رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کرام سے فرمایا : “ میں چاہتا ہوں کہ جنات کو قراٰنِ مجید پڑھ کرسناؤں ، تم میں سے کون میرے ساتھ آئے گا؟ “ تو صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے اپنے سر جھکا لئے۔ دوسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ جب آپ نے تیسری مرتبہ ارشاد فرمایا تو حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ آپ کے ساتھ ہولئے۔
حضرت عبدُاللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے علاوہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ کوئی دوسرا نہ تھا۔ ہم چلتے رہے یہاں تک کہ مکۂ مکرمہ کی ایک وادی “ شِعْبُ الحَجُوْن “ میں داخل ہوئے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے لئے ایک دائرہ کھینچا اور مجھے اس میں بیٹھنے کا حکم فرمایا اور تاکید فرمائی کہ “ میرے واپس آنے تک یہاں سے باہرنہ نکلنا۔ “ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہاں سے تشریف لے گئے اور کھڑے ہوکر تلاوتِ قراٰن کرنے لگے۔ میں نے گِدھ کی مثل اڑتے ہوئے پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنی۔ میں نے شدید شور بھی سنا حتّٰی کہ مجھے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے متعلق اندیشہ ہوا۔ پھر بہت سی کالی چیزیں میرے اور حضور کے درمیان حائل ہوگئیں حتّٰی کہ مجھے آپ کی آواز مبارک سنائی نہ دیتی تھی پھروہ سب بادل کی طرح چھٹنا شروع ہوئیں یہاں تک کہ غائب ہوگئیں۔ اسی دوران فجر کا وقت ہو چکا تھا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان سے فارغ ہوکر میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے استفسار فرمایا : “ کیا سو گئے تھے؟ “ میں نے عرض کی : “ اللہ پاک کی قسم! نہیں! یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میں نے کئی مرتبہ ارادہ کیا کہ لوگوں کو مدد کے لئے بلاؤں ، یہاں تک میں نے سنا کہ آپ جنات کو عصا مبارَکہ سے مارتے ہوئے ارشاد فرما رہے تھے : “ بیٹھ جاؤ۔ “ تو سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : “ اگر تم یہاں سے باہر نکل جاتے تو تمہاری خیر نہ تھی ، ان جنات میں سے کوئی تم کو پکڑ لیتا۔ “ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : “ کیا تم نے کچھ دیکھا؟ “ میں نے عرض کی : “ جی ہاں! میں نے کالے رنگ کے کچھ آدمی دیکھے جن پر سفید کپڑے تھے۔ “ حضور نے فرمایا : “ وہ نصیبین کے جنات تھے۔ “ میں نے عرض کی : “ میں نے شدید قسم کا شور بھی سنا تھا۔ “ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : “ وہ اپنے درمیان ایک مقتول کے فیصلے میں جلدی کررہے تھے انہوں نے مجھ سے فیصلے کے لئے کہا تو میں نے ان کے درمیان حق فیصلہ کردیا۔ “ [6]
جنات کی تفصیلی معلومات کے لئے حضرت علّامہ بَدرُالدّین ابو عبداللہ محمد حنفی علیہ الرَّحمہ کی کتاب “ آکَامُ الْمَرْجَانِ فِیْ اَحْکَامِ الْجَانِ “ اور حضرت امام جلالُ الدّین سیوطی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب “ لَقْطُ الْمَرْجَانِ فِیْ اَحْکَامِ الْجَان “ نیز مکتبۃُ المدینہ کی کتاب “ قومِ جنات اور امیرِ اہلِ سنّت “ کا مطالعہ بےحد مُفید ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی
[1] بہارِشریعت،1/97
[2] پ 27، الذّٰرِیٰت:56
[3] پ 14، الحجر:27
[4] عمدۃ القاری، 10/644ملخصاً
[5] مستدرک، 3/254،حدیث:3754
[6] الجامع لاحکام القراٰن، الاحقاف، تحت الآیۃ:29، جز16، 8/153
Comments