احکام تجارت
* مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی
ماہنامہ اپریل 2021
تصویر والا لباس بیچنا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل کپڑوں پر انسان یا جانور کی تصاویر بنی ہوتی ہیں۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ ایسالباس پہننا یا بچّوں کوپہناناکیسا ہے؟ نیز ایسے کپڑے بیچنے کا کیا حکم ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : اگر کپڑوں پر بنی ہوئی جاندار کی تصویر اتنی بڑی ہے کہ زمین پر رکھ کر کھڑے ہو کر دیکھیں تو چہرہ واضح ہو تو ایسا لباس پہننا یا بچوں کو پہنانا ، جائز نہیں ۔ نیز ایسا لباس بیچنا بھی ناجائز ہے۔ ہاں اگر کسی طرح اس کا چہرہ مٹادیا جائے تو پھر اس کا پہننا ، بچوں کو پہنانا اور بیچنا بھی جائز ہوگا۔
اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں : “ کسی جاندار کی تصویر جس میں اس کا چہرہ موجود ہو اور اتنی بڑی ہو کہ زمین پر رکھ کر کھڑے سے دیکھیں تو اعضاء کی تفصیل ظاہر ہو ، اس طرح کی تصویر جس کپڑے پر ہو اس کا پہننا ، پہنانا یا بیچنا ، خیرات کرنا سب ناجائز ہے اور اسے پہن کر نماز مکروہِ تحریمی ہے جس کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ ۔ ۔ ایسے کپڑے پر سے تصویر مٹادی جائے یا اس کا سر یا چہرہ بالکل محو کردیا جائے ، اس کے بعد اس کا پہننا ، پہنانا ، بیچنا ، خیرات کرنا ، اس سے نماز ، سب جائز ہوجائے گا۔ اگر وہ ایسے پکے رنگ کی ہو کہ مٹ نہ سکے دھل نہ سکے تو ایسے ہی پکے رنگ کی سیاہی اس کے سر یا چہرے پر اس طرح لگادی جائے کہ تصویر کا اتنا عضو محو ہوجائے صرف یہ نہ ہو کہ اتنے عضو کا رنگ سیاہ معلوم ہو کہ یہ محو ومنافی صورت نہ ہوگا۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 24 / 567)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
شہد کی مکھیوں کی خرید و فروخت کرنا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ شہد کی مکھیوں کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : شہد کی مکھی کی خرید و فروخت جائز ہے ، محرر مذہب حنفی امام محمد رحمۃُ اللہِ تعالیٰ علیہ کے نزدیک شہد کی مکھی کا بیچنا جائز ہے۔ علمائے احناف نے امام محمد رحمۃُ اللہِ تعالیٰ علیہ کے مذہب کو مفتیٰ بہٖ قرار دیا ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے : “ وقال محمد رحمه الله تعالى يجوز إذا كان مجموعا كذا في الحاوي بيع النحل يجوز عند محمد رحمه الله تعالى وعليه الفتوى كذا في الغياثية “ یعنی شہد کی مکھی کی خرید و فروخت کے متعلق امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب ان کو جمع کر لیا جائے تو جائز ہے اسی طرح حاوی میں ہے کہ شہد کی مکھی کی خرید و فروخت جائز ہے اور اسی پر فتویٰ ہے غیاثیہ میں یونہی ہے۔ (فتاویٰ ھندیہ ، 3 / 114)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کاریگروں کا گھروں میں کام کرتے ہوئے پرانا سامان خود رکھ لینا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایک پلمبر ہوں ہم گھروں میں کام کرتے ہیں اور بعض اوقات پرانی چیزیں اتار کر نئی لگاتے ہیں۔ کیا ہم یہ پرانی چیزیں جو اتاری ہیں وہ خود رکھ سکتے ہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : جو چیز مالک اپنی مرضی سے آپ کو دے دے وہی آپ لے سکتے ہیں۔ مالک کی اجازت کے بغیر خود سے کوئی چیز لے جانا ، جائز نہیں ۔ البتہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے پھینک دینے کا عرف ہوتا ہے ایسی چیزوں کا حکم الگ ہے مگر احتیاط اسی میں ہے کہ کسی چیز کے بارے میں آپ کا خیال یہ ہے کہ یہ پھینکی جائے گی تب بھی مالک سے پوچھ لیا جائے۔ جب تک چیز مالک کے گھر میں موجود ہے کچرے میں پھینکی گئی چیز کے حکم میں نہیں آسکتی ۔ اور چھوٹی سے چھوٹی چیز کے متعلق بھی قوی شبہات برقرار ہوں گے کہ ممکن ہے مالک نے اسے کسی استعمال میں لینا ہو یا یہ کہ وہ اس بات پر رضا مند نہ ہو کہ کوئی اس کی چیز اٹھا کر لے جائے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اُدھار مال کی خرید و فروخت کرکے قیمت کا ادلا بدلا کرنا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کا کپڑے کا ہول سیل کا کاروبار ہے۔ زید نے 50,000 روپے کا کپڑا بکر سے اُدھار خریدا ، اس کے بعد بکر کو بھی زید سے کچھ خریدنے کی ضرورت پیش آئی اور بکر نے 35,000 روپے کا کپڑا زید سے اُدھار خریدا۔ یہ دونوں سودے الگ الگ مال پر ہوئے جب ادائیگی کرنے کا وقت آیا تو زید نے 50,000 روپے میں سے 35,000 روپے منہا کرکے باقی 15,000 روپے بکر کو ادا کردئیے۔ کیا ایسا کرنا ، جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : جی ہاں! پوچھی گئی صورت کے مطابق رقم کی ادائیگی کرنا ، جائز ہے۔ ادائیگی کے اس طریقہ کار کو اصطلاحِ شرع میں “ مُقَاصَّہْ “ (Replacement / Clearness) کہتے ہیں۔ منع کی کوئی وجہ نہ پائی جاتی ہو تو بہت ساری ایسی جگہیں ہیں جہاں مقاصہ سے کام لینا جائز ہے۔
چنانچہ صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ القوی لکھتے ہیں : ’’ایک شخص کے دوسرے پر پندرہ روپے ہیں مدیون نے دائن کے ہاتھ ایک اشرفی پندرہ روپے میں بیچی اور اشرفی دیدی اور اس کے ثمن و دین میں مُقَاصَّہْ کرلیایعنی ادلا بدلا کرلیا کہ یہ پندرہ ثمن کے ان پندرہ کے مقابل میں ہوگئے جو میرے ذمّے باقی تھے ایسا کرنا صحیح ہے۔ “ (بہارِ شریعت ، 2 / 828)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنّت ، دار الافتاء اہلِ سنّت نور العرفان کھارادر ، کراچی
Comments