حضرت سیّدُنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہُ عنہما
* مولانا بلال حسین عطّاری مدنی
ماہنامہ اپریل 2021
مختصر تعارف : پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چچا ، خاتمُ المہاجرین حضرت سیّدنا ابو الفضل عباس بن عبدُالمطلب رضی اللہُ عنہما کی پیدائش واقعۂ فیل سے پہلے ہوئی ، آپ غزوۂ بدر سے پہلے ہی ایمان لاچکے تھے مگر مصلحتاً ایمان خفیہ رکھا ہوا تھا ، جنگِ بدر میں کفّار زبردستی آپ کو لائے چنانچہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اعلان کیا کہ کوئی عباس کو قتل نہ کرے کہ وہ مجبوراً لائے گئے ہیں ، اسی غزوے میں آپ قیدی ہوئے اور فدیہ دے کر چھوٹے۔ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان بھی آپ کی عظمت و شان کے معترف تھے ، صحابۂ کرام آپ سے مشاورت کرتے اور آپ کی رائے لیا کرتے تھے۔ آپ کی وفات88سال کی عمر میں ہوئی ، نمازِ جنازہ امیرُ المؤمنین حضرت سیّدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ نے پڑھائی اور تدفین جنّتُ البقیع میں ہوئی۔ [1]
تجارتی زندگی : آپ رضی اللہُ عنہ عطر اور کپڑے کے تاجر تھے ، حضرت عفیف کِندی رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اپنے اہل و عیال کے لئے مکّے کے کپڑے اور عطر لینا تھاتو میں مکّے کے تاجر حضرت عباس کے پاس آیا۔ [2]
پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں وفدِ داریین آیا جنہوں نے آپ کو کئی تحائف دئیے ، ان میں ایک ریشمی جبہ بھی تھا جو سونے سے آراستہ تھا ، حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ جبہ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ کو دیا تو آپ نے عرض کی : میں اس کا کیا کروں گا! (کہ ریشم اور سونا تو مَردوں پر حرام ہے۔ ) حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اس سے سونا الگ کرکے اپنی خواتین کے لئے زیور بنالیں یا ویسے ہی اس سونے کو اپنے اہلِ خانہ پر خرچ کرلیں اور ریشمی جبہ فروخت کرکے اس کی قیمت کو استعمال میں لے لیں۔ چنانچہ وہ جبہ آپ نے ایک یہودی کو آٹھ ہزار درہم میں بیچ دیا۔ [3]
ناصرف آپ بلکہ آپ کے غلام بھی تجارت میں ماہر تھے ، خود بیان کرتے ہیں کہ 20 اوقیہ سونے کے بدلے (جو بدر میں فدیہ ادا کیا تھا) اللہ پاک نے مجھے 20 غلام عطا کئے ، وہ سب کے سب تاجر تھے اور بہت سارا مال کما کر دیتے تھے ، ان میں سے جو غلام سب سے کم کما کر دیتا تھا اس کی مقدار بیس ہزار درہم تھی۔ [4]
سخاوت : آپ نے 70 غلام آزاد کئے[5] اور اپنا گھر مسجدِ نبوی کی توسیع کے لئے وقف کردیا۔ [6] نیز آپ کے سخی ہونے کو تو خود حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیان فرمایا ہے چنانچہ ایک موقع پر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لشکر کی تیاری میں مصروف تھےکہ اتنے میں حضرت عباس بھی آگئے ، آپ نے حضرت عباس کو دیکھ کر ارشاد فرمایا : یہ تمہارے نبی کے چچا ہیں جوکہ عرب میں سب سے بڑھ کر سخی اور صلہ رحمی (یعنی عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک) کرنے والے ہیں۔ [7]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، شعبہ ذمہ دار ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
[1] اکمال مع مشکاۃ ، ص606 ، اسد الغابہ ، 3 / 166 ، الاصابہ ، 3 / 512
[2] تاریخ ابن عساکر ، 8 / 313
[3] سبل الہدیٰ والرشاد ، 6 / 334 ، مدارج النبوہ ، 2 / 365
[4] طبقات ابن سعد ، 4 / 10 ، تفسیر بغوی ، الانفال ، تحت الآیۃ : 70 ، 2 / 221
[5] اسد الغابہ ، 3 / 166
[6] طبقات ابن سعد ، 4 / 15
[7] تاریخ ابن عساکر ، 26 / 324
Comments