حضرت عبدُاللہ بن خباب رضی اللہُ عنہما
* مولانا عدنان احمد عطاری مدنی
ماہنامہ اپریل 2021
بھلائی اور نیکوکاری جیسی عمدہ صفات سے موصوف شخصیات میں صحابیِ رسول سیِّدنا عبدُاللہ بن خَبَّاب رضی اللہُ عنہما کا شمار بھی ہوتا ہے۔ [1] آپ کے والدِ ماجد مشہور قدیمُ الاسلام صحابی حضرت سیِّدنا خباب بن اَرَت رضی اللہُ عنہ ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ ہجرت کے بعد سب سے پہلے حضرت عبدُاللہ بن زُبیر اور حضرت عبدُاللہ بن خَبَّاب رضی اللہُ عنہم پیدا ہوئے۔ مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کا نام عبدُاللہ رکھا ، آپ کے والد حضرت خباب رضی اللہُ عنہ سے فرمایا : تم ابو عبدُاللہ ہو۔ [2]
نہروان پر عامل : جب اہلِ نَہروان نے حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کی مخالفت کی اور حضرت علی سے جدا ہوگئے تو حضرت علی نے حضرت عبدُاللہ بن خباب کو نہروان پر عامل مقرر کر دیا۔ [3]
خوارج سے ٹکراؤ : (حضرت علی رضی اللہُ عنہ کی مخالفت کرنے والے اہلِ نہروان کو خوارج کہا جاتا ہے ، جب ان خوارج کی سرکشی بڑھی تو) حضرت عبدُاللہ بن خباب رضی اللہُ عنہما بصرہ کے ایک قریبی گاؤں سے کوچ کرکے کوفہ میں حضرت علی رضی اللہُ عنہ کی جانب روانہ ہوگئے اس وقت آپ کے ساتھ زوجہ ، اولاد اور کنیز بھی تھی ، راستے میں خوارج موجود تھے ، ایک خارجی نے آپ کی جانب اشارہ کرکے کہا : یہ اصحابِ محمد میں سے ہیں ، یہ ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ان سے پوچھتے ہیں۔
قراٰن حلق سے نیچے نہیں اُترے گا : وہ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے : کیا آپ ہمیں نہیں بتائیں گے کہ آپ نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ہمارے بارے میں کیا سنا ہے؟ آپ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا : خاص تمہارے بارے میں تو نہیں ، لیکن میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میرے بعد ایک ایسی قوم ہوگی جو قراٰن پڑھے گی لیکن قراٰن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا ، وہ دین سے نکل جائیں گے پھر واپس نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ تیر لوٹ کر آجاتا ، خوش خبری ہے اس شخص کے لئے جو ان لوگوں کو قتل کرے اور خوش خبری ہے اس شخص کے لئے جسے یہ لوگ قتل کریں۔ [4]
فتنہ کے وقت شہید ہوجانا : ایک روایت یوں ہے کہ میرے والدِ ماجد رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کرتے ہوئے ایک فتنے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اس وقت بیٹھ جانے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا ، اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا ، اور چلنے والا کوشش کرنے والے سے بہتر ہوگا ، اگر تم اس وقت کو پاؤ تو اللہ کا بندہ ہوکر شہید ہوجانا ، خوارِج نے دوبارہ پوچھا : کیا آپ نے اپنے والد صاحب سے یہ حدیث سنی ہے؟ فرمایا : ہاں ! سنی ہے ، [5]
شام کو مؤمن ، صبح کو کافر : ایک روایت میں ہے کہ آپ نے یہ حدیثِ پاک سنائی تھی : ایک فتنہ ہوگا جس میں آدمی کا دل اس طرح مَر جائےگا جیسے اس کا بدن مرجاتا ہے ، وہ شام کرے گا حالتِ ایمان میں اور اس کی صبح حالتِ کُفر میں ہوگی۔ [6]
خلفائے راشدین کے لئے تعریفی کلمات : خوارج نے کہا : اسی حدیث کی وجہ سے ہم نے آپ سے سُوال کیا تھا ، خوارج نے دوسرا سوال کیا : حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟آپ نے ان دونوں بُزرگ اور مقدس حضرات کے لئے تعریفی اور توصیفی کلمات کہے ، خوارج نے تیسرا سوال کیا : حضرت عثمانِ غنی کے شروع اور آخر دورِ خلافت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : محترم ومعظم حضرت عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ اپنے دورِ خلافت کے شروع میں بھی اور آخر میں بھی حق پر تھے ، خوارج نے پھر سوال کیا : آپ حضرت علی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : معزز و مکرم حضرت علی رضی اللہُ عنہ اللہ پاک کو تم سے زیادہ جانتے ہیں ، وہ اپنے دین کی حفاظت تم سے زیادہ کرنے والے ہیں ، وہ فہم و فراست میں تم سے آگے ہیں۔
خوارج کی قید میں : یہ سب سُن کر خوارج نے کہا : بے شک! آپ خواہش کے پیچھے چل پڑے ہیں ، آپ ان ہستیوں کے نام دیکھ کر ان سے محبت کررہے ہیں ، ان کے کام و افعال دیکھ کر نہیں۔ ہم آپ کو ایسے انداز میں قتل کریں گے کہ ہم نے پہلے کسی کو اس طرح قتل نہیں کیا ہوگا۔ پھر خوارج نے آپ رضی اللہُ عنہ کو پکڑ لیا اور آپ کے دونوں ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھ دیئے۔ [7]
کم ظرف لوگ : پھر یہ لوگ آپ کو (دیگر ساتھیوں سمیت) لے کر ایک باغ کے پاس سے گزرے تو کسی خارجی نے گری ہوئی کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی تو دوسرے خارجی نے کہا : کیا تم اس کھجور کو حلال کئے بغیر نہیں کھا رہے کہ اس کی قیمت نہیں دی ہے؟ یہ سُن کر اس خارجی نے اپنے منہ سے وہ کھجور نکال کر پھینک دی اور اپنی تلوار میان سے نکال کر لہرانے لگا (جیسے کوئی خوشی مل گئی ہو) ، پھر یہ لوگ کسی ذمی کے خنزیر کے پاس سے گزرے تو ایک خارجی نے اس خنزیر کو مار دیا ، یہ دیکھ کر دوسرے خارجی کہنے لگے : یہ زمین میں فساد پھیلانا ہے۔ پھر اسی خارجی نے خنزیر کے مالک کو بلوایا اور اسے راضی کیا ، [8]
درد ناک شہادت : یہ دیکھ کر حضرت عبدُاللہ بن خباب رضی اللہُ عنہما نے فرمایا : کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو اس خنزیر سے زیادہ حُرمت و عظمت والا ہے ، انہوں نے کہا : ضرور بتاؤ ، آپ نے فرمایا : وہ میں ہوں ، [9] ایک قول کے مطابق آپ نے یہ فرمایا : جو میں دیکھ اور سُن رہا ہوں اگر تم لوگ اس میں سچے ہو تو میں تمہارے شَر سے ضرور محفوظ ہوں ، (مگر یہ لوگ سچے کہاں تھے کہ آپ کی رعایت کرتے اور آپ کو امان دیتے ، بالآخر) خوارج آپ کو نہر کے کنارے لائے اور اسی مرے ہوئے خنزیر پر لٹاکر آپ کا سَر تَن سے جدا کردیا ، آپ کا خون پانی پر ایسے بہنے لگاگویا کہ جوتے کا تسمہ بہہ رہا ہو۔ پھر آپ کی زوجہ یا کنیز کا پیٹ چاک کردیا جو کہ حاملہ تھیں اور وقتِ ولادت قریب تھا ، ان کے ساتھ مزید تین عورتوں کو بھی قتل کردیا۔ [10] حضرت عبدُاللہ بن خباب رضی اللہُ عنہما کی اَلَم ناک شہادت کا یہ واقعہ ماہِ شعبان سِن 38 ہجری میں ہوا تھا۔ [11]
کم عقلی پر تعجب : ان خارجیوں نے ایک نصرانی سے کھجور کے ایک درخت کا سودا کیا تو اس نصرانی نے کہا : یہ درخت میں تمہیں تحفۃً دیتا ہوں۔ خوارج نے کہا : ہم قیمت دئیے بغیر کچھ نہیں لیں گے۔ ا س پر وہ نصرانی کہنے لگا : اس سے زیادہ اور تعجب کیا ہوگا کہ عبدُاللہ بن خباب جیسی شخصیت کو تو تم لوگ قتل کردیتے ہو اور مجھ سے ٹوٹی ہوئی کھجور بھی نہیں لے رہے ہو۔ [12]
الٹی عقل کسی کو بھی ایسی خدا نہ دے
دے آدمی کو موت ، پر یہ بَد ادا نہ دے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ ، کراچی
[1] تاریخ بغداد ، 1 / 219
[2] الاصابۃ ، 4 / 64 ، معرفۃ الصحابہ ، 3 / 132
[3] الحاوی الکبیر للماوردی ، 16 / 371 ، تاریخ بغداد ، 7 / 244
[4] معرفۃ الصحابہ ، 3 / 132
[5] طبقات ابن سعد ، 5 / 190ملخصاً
[6] انساب الاشراف ، 3 / 142 ، نھایۃ الارب ، 20 / 105
[7] نھایۃ الارب ، 20 / 105ملخصاً
[8] نھایۃ الارب ، 20 / 105
[9] مصنف ابن ابی شیبہ ، 21 / 431 ، رقم : 39048
[10] طبقات ابن سعد ، 5 / 190 ، انساب الاشراف ، 3 / 142
[11] العبر فی خبرمن غبر ، 1 / 32
[12] العقد الفرید ، 2 / 232
Comments