ٹھوکراور چوٹ لگے تو “ بِسمِ اللہ “ کہیں!
ماہنامہ مارچ2022ء
از : شیخِ طریقت ، امیر اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ
ٹھوکر لگتے یا گِرتے وقت بعض لوگوں میں “ بِسمِ اللّٰہ “ کہنے کا جو عُرف و رواج ہے اس میں کوئی حرج نہیں ، یہ اللہ کا ذِکْر ہے ، یہ ایسا ہے جیسے اس طرح کے مواقع پر بعض لوگوں کے منہ سے بے ساختہ “ یَااللہ “ نکل جاتا ہے ، البتہ یہ الگ بات ہے کہ کوئی کھانا کھا رہا ہو اور وہ کسی کو کہے کہ آئیے میرے ساتھ کھا لیجئے! تو پھر بعض لوگ جواب میں کہتے ہیں : “ بِسمِ اللّٰہ “ کرو! یا “ بِسمِ اللّٰہ “ کیجئے ، یہ غلط ہے ، اس موقع پر “ بَارَکَ اللّٰہ “ کہنا چاہئے ، عربی نہیں آتی تو کوئی بات نہیں اُردو میں کہہ دیں ، اللہ پاک آپ کو برکت دے یا صرف یوں کہیں کہ اللہ برکت دے ، یہی الفاظ اپنی زبان میں بھی کہہ سکتے ہیں۔ اَلحمدُلِلّٰہ!میری عادت ہے کہ گاڑی پر سفر کرتے وقت کبھی اسپیڈ بریکر وغیرہ سے گاڑی کو جھٹکا لگے تو میرے منہ سے “ بِسمِ اللّٰہ “ نکل جاتا ہے ، میرے ساتھ جو سفر پر ہوتے ہیں شاید انہوں نے بھی کبھی سنا ہو۔ سواری کو ٹھوکر لگتے وقت “ بِسمِ اللّٰہ “ کہنے کے متعلق فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجئے : اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک بار اپنے ساتھ اونٹ پر اپنے کسی صحابی کو سوار ہونے کا شرف بخشا ، اچانک اس اونٹ نے ٹھوکر کھائی ، اس پر ان صحابی نے کہا کہ “ شیطان ہلاک ہو “ ، تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ایسا مت کہو!کیونکہ اس طرح کہنے سے شیطان گھر کی طرح بڑا بنتا اور طاقتور ہوجاتا ہے ، بلکہ (ایسے موقع پر) “ بِسمِ اللّٰہ “ کہا کرو!جب تم ایسا کہو گے تو شیطان چھوٹا ہو کر مکھی کی طرح ہوجاتا ہے۔ (مستدرک ، 5 / 415 ، حدیث : 7863) اور چوٹ لگتے وقت بھی “ بِسمِ اللّٰہ “ کہنا چاہئے ، اس کے متعلق بھی روایت ملاحظہ کیجئے : جنگِ اُحد میں صحابیِ رسول حضرت سیّدُنا طلحہ بن عبیدُاللہ رضی اللہُ عنہ کے ہاتھ میں چوٹ لگی اور آپ کی انگلیاں کَٹ گئیں ، (درد کے سبب تکلیف پہنچنے کے وقت بولا جانے والا) ایک لفظ آپ کے منہ سے نکلا ، تو پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : لَو قُلتَ بِسْمِ اللّٰہِ لَرفَعَتْکَ الْمَلَائِکَۃُ وَالنّاسُ یَنْظُروْنَ یعنی اگر تم “ بِسمِ اللّٰہ “ کہتے تو اللہ کے فرشتے تمہیں اٹھالیتے اور لوگ دیکھتے رہتے۔ جبکہ ایک روایت میں ہے : اگر تم “ بِسمِ اللّٰہ “ کہتے یا “ اللہ کا نام ذکر کرتے “ تو فرشتے تمہیں اٹھا لیتے اور لوگ تمہاری طرف دیکھتے رہتے یہاں تک کہ فرشتے تمہیں آسمان کی فضا میں لے کر چلے جاتے۔ (نسائی ، ص512 ، حدیث : 3146 ، دلائل النبوۃ ، 3 / 237) سُبحٰنَ اللہ! کتنی بڑی فضیلت اس صحابی کو بیان کی گئی اَللّٰہُ اَکْبَر۔ خَیر وہ تو جنگ کا موقع تھا اور اللہ پاک کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے جاں نثار صحابی کی شان بیان فرمائی۔ واقعی صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان قسمت والے لوگ تھے ، کاش! ان کا صدقہ ہمیں بھی نصیب ہوجائے تو ہمارا بھی بیڑا پار ہوجائے۔ اے عاشقانِ رسول! آپ میں سے بھی اگر کسی کو ٹھوکر لگے ، پاؤں کو ٹھیس لگ جائے ، کسی سے ٹکر ہوجائے ، اسکوٹر یا گاڑی کو جھٹکا لگے ، گرجائیں ، ایکسیڈنٹ ہوجائے ، چوٹ لگے یا پھر اس طرح کا کوئی اور معاملہ ہو تو منہ سے ہائے ہُو ، فضول باتیں اور گالیاں وغیرہ نکالنے کے بجائے “ بِسمِ اللّٰہ “ کہہ لیا کریں۔ اللہ پاک نے چاہا تو اس کی برکتیں نصیب ہوں گی۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ : یہ مضمون 12ربیعُ الاوّل 1443ھ کو عشا کی نماز کے بعد ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرکے امیر اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے نوک پلک سَنورواکر پیش کیا گیا ہے۔
Comments