تفسیر قراٰنِ کریم

ریاضت و مجاہدہ کیا ہے؟( دوسری اور آخری قسط)

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ مارچ2022ء

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ( وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۠(۶۹))ترجمہ : اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ، ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔ (پ21 ، العنکبوت : 69)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : مجاہدہ کی دوسری قسم ، باطنی عبادات بجا لانا اور باطنی اخلاق واحوال پاکیزہ بنانا۔ گویا دوسری قسم کی پھر دو قسمیں ہیں ، ایک باطنی عبادات اور دوسری تزکیہ نفس۔

باطنی عبادات سے مراد اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی محبت ، یقین ، اِخلاص ، معرفت ، توکل ، قناعت ، صبر ، شکر ، توبہ ، انابت ، ندامت ، محاسبہ ، مراقبہ ، تفکر ، تدبر ، شوق ، حزن ، حیاء ، تعظیم اور ہیبت ، رحمتِ خداوندی کی امید ، عذابِ الٰہی کا خوف ، خشیت ، تقویٰ ، ہر معاملے میں خدا کی طرف رجوع ، خدا کے ہر فیصلے کو خوشی سے تسلیم کرنا اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے راضی رہنا۔ یہ سب اعلیٰ درجے کی عبادات ہیں ۔

 باطنی اخلاق و احوال کو پاکیزہ بنانا تزکیۂ نفس کہلاتا ہے ۔ تزکیہ ِ نفس کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک عظیم مقصد اللہ تعالیٰ نے یہی تزکیہ نفس بیان فرمایا ہے چنانچہ قرآنِ مجید میں چار مقامات پر یہ مقصد بیان ہوا جن میں سے ایک آیت یہ ہے : وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔ (پ28 ، الجمعۃ : 2)نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے تزکیہ فرمانے کا معنی یہ ہے کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  لوگوں کے نفس کو گناہوں کی آلودگیوں ، شہوات و خواہشات کی آلائشوں اور ارواح کی کدورتوں سے پاک و صاف کرکے آئینۂ دل کو تجلیات و انوارِ الٰہیہ دیکھنے کے قابل بناتے ہیں تاکہ اسرارِ الٰہی اور انوارِ باری تعالیٰ اس میں جلوہ گر ہوسکیں۔ تمام غوث ، قطب ، ابدال ، اولیاء ، اصفیاء ، صوفیاء ، فقہاء و علماء کا تزکیہ اِسی مقدس بارگاہ سے ہوتا ہے۔ ایک اور مقام پر نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا یہی مقام و اندازِ تزکیہ یوں بیان فرمایا : (خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ) اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو (پ11 ، التوبۃ : 103)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اسی تزکیہ کے لئے افضل البشر بعد الانبیاء ، سیدنا صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  کی قلبی حالت و عملی کیفیت کی گواہی اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمائی : (وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ(۱۷) الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ(۱۸))اور عنقریب سب سے بڑے پرہیزگارکو اس آگ سے دور رکھا جائے گاجو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اسے پاکیزگی ملے۔ (پ30 ، اللیل : 17 ، 18)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) تزکیہ ٔنفس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ، مال و دنیا کی محبت اورخواہشات و شہوات میں انہماک ہے اسی لئے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے اس معاملے میں صحابۂ کرام کی بہت مؤثر انداز میں تربیت فرمائی۔ دنیا کے متعلق یوں سمجھایا “ (اے ابنِ عمر!)دنیا میں اس طرح ہو جاؤ ، جیسے تم مسافر یا راستہ چلنے والے ہو۔ “ حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہُ عنہما  خود فرمایا کرتے تھے : شام ہو جائے تو صبح کا انتظارنہ کرو اور صبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو ، اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو۔ (بخاری ، 4 / 223 ، حدیث : 6416) اور دنیا کے مال اور نفسانی شہوات کے متعلق نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یوں فرمایا : بے شک دنیا میٹھی ہے ، سر سبز ہے ، بےشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس میں نائب بنایا ہے۔ پس وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ تو دنیا اور عورتوں کے فتنے سے بچو۔ بےشک بنی اسرائیل کا جو پہلا فتنہ تھا وہ عورتوں ہی کے بارے میں تھا۔ (مسلم ، ص1124 ، حدیث : 6948)

قرآن مجید میں تزکیہ نفس کی عظمت و اہمیت یوں بیان فرمائی : (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴) وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(۱۵))بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔ (پ30 ، الاعلیٰ : 14 ، 15)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور فرمایا : (وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَاﭪ(۷) فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَاﭪ(۸) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ(۱۰))’’اور (قسم ہے) جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایاپھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری دل میں ڈالی۔ بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیااور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چُھپایا۔ “ (پ30 ، الشمس : 7 تا 10)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) راہِ طریقت میں اسی تزکیہ نفس اور تطہیرِ قلب پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کیونکہ دل کی اصلاح سے ظاہر کی بھی اصلاح ہوجاتی ہے جیسا کہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : سن لو جسم میں گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہو تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے اور یاد رکھو وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔ (بخاری ، 1 / 33 ، حدیث : 52)

معرفتِ الٰہی اور قرب ِ خداوندی کے حصول کے لئے اس قسم کا حصول بھی ضروری ہے اور یہ قسم پہلی سے زیادہ مشکل ہے لیکن باہمت لوگ فضلِ خداوندی سے اسے بھی عبور کرلیتے ہیں۔ اس قسم میں مشکل اس لئے پیش آتی ہے کہ نفس کی چالیں بہت پوشیدہ ہیں اورتعداد میں بےشمار ہیں۔ نفس کس پھندے میں انسان کو پھنسا کر رکھتا ہے ، اس کا عام حالات میں اندازہ نہیں ہوتا لیکن جب کوئی صورتِ حال پیش آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں باطنی مرض تو ابھی تک موجود ہے۔ جیسے انسان سمجھتا ہے کہ اس میں صبر کا مادہ موجود ہے اور بے صبری نہیں ہے لیکن جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دل کی حالت کیا ہے اور وہ اس مصیبت کے وقوع پر کس قدر ناراض ہے اور اس کی زبان سے کیسے شکوہ کے الفاظ ادا ہورہے ہیں ، یہی معاملہ کسی جگہ عزت نہ ملنے پر سامنے آتا ہے کہ اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ خود پسندی اور عزت و تعریف کی طلب کا مرض دل میں کس قدر بھرا ہوا ہے۔ امام ابوالقاسم قشیری  علیہ الرّحمہ  نے اس پر ایک بہت خوبصورت واقعہ نقل فرمایا ہے ، لکھتے ہیں : ایک شیخ اپنی مسجد کی پہلی صف میں کئی سال تک نماز پڑھتے رہتے تھے۔ ایک دن کسی وجہ سےمسجد میں جلدی نہ پہنچ سکے تو انہوں نے آخری صف میں نماز پڑھی پھر اس کے بعدایک مدت تک وہ دکھائی نہ دئیے۔ جب عرصہ دراز کے بعد نظر آئے توان سے غائب ہونے کا سبب پوچھا گیا۔ انہوں نے جواب دیاکہ میں ان تمام سالوں کی نمازیں قضا کررہا تھا جو میں نے مسجد کی پہلی صف میں ادا کیں تھی ۔ میرا گمان یہ تھا کہ میری ان نمازوں میں اللہ کے لیے اخلاص ہے لیکن ایک دن مسجد میں تاخیر سے آنے پر لوگوں نے مجھے آخری صف میں نماز پڑھتے دیکھا تو میرے دل میں شرمندگی پیدا ہوئی ، تو میں نے جانا کہ پوری عمر میرا مسجد میں جلدی آنا صرف لوگوں کو دکھانے کی وجہ سے تھا ، (اس لیے) میں نے اپنی نمازوں کی قضا کی۔ اسی طرح دوسرا واقعہ ہے کہ حضرت ابو محمد المرتعش علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سےحج ادا کیے لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ ان سب میں میرے نفس کا حصہ ملا ہوا تھا اور یہ اس لئے کہ ایک دن میری والدہ نے مجھ سے پانی کا گھڑا لانے کا کہا تو یہ بات میرے نفس پر گراں گزری ، تو میں نے جان لیا کہ تمام حجوں کی ادائیگی میں نفس کاخوشی خوشی میری بات ماننا ، نفس کی آمیزش اور اس کے اپنے حصے کی وجہ سے تھا کیونکہ اگر میرا نفس فنا ہوچکا ہوتا تو شریعت کی ایک حق بات یعنی والدہ کی اطاعت اس پر دشوار نہ ہوتی۔ (الرسالۃ القشیریۃ ، ص309) تزکیۂ نفس کی ضرورت و اہمیت بہت واضح ہے اور اس کے حصول کا طریقہ ہے : علمِ دین پڑھنا ، بزرگانِ دین کے احوال کا مطالعہ کرنا ، کتبِ تصوف نظر میں رکھنا اور کسی ایسے شیخِ کامل کی صحبت و تربیت میں رہناجس کا عمل فکرِ آخرت میں اضافہ کرے ، جس کی باتیں اصلاح کا ذریعہ ہوں اور جو ہمارے نفس کی شرارتوں پر ہمیں متنبہ کرتا رہے۔ آیت میں مزید فرمایا : ( وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۠(۶۹) اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔ )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) کہ دنیا میں ان کی مدد و نصرت فرماتا ہے اور آخرت میں انہیں مغفرت اور ثواب سے سرفراز فرمائے گا۔ ( مدارک ، العنکبوت ، تحت الآیۃ : 69 ، ص900)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دار الافتاء اہل سنت فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code