روشن ستارے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
* مولانا عدنان احمد عطاری مدنی
ماہنامہ مارچ2022ء
علم ایسا کہ جس کی روشنی ہر سمت پھیلی ، عمل ایسا کہ جس کی خوشبو ہر جانب مہکی ، عشقِ رسول ایسا کہ جس کی گرمی عُشّاق کے دِلوں کو گرما گئی ، بےپناہ فضائل ، بےحد کمالات اور بےشمار عُمدہ اوصاف کے مالک مشہور صحابیِ رسول حضرت سَیّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما کےمختصر حالات ومعاملات ملاحظہ کیجئے :
قبولِ اسلام : آپ حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے سب سے بڑے صاحب زادے ہیں ، آپ سنِ بلوغت سے پہلے والدِ ماجد کے ساتھ اسلام لائے اور ان کے ساتھ ہی مدینے کی طرف ہجرت کی۔ [1]
غزوات : غزوۂ بدر کے موقع پر 13 سال کی کم عمری کی وجہ سے واپس لوٹا دئیے گئے ، اگلے سال غزوۂ احد کے لئے حاضر ہوئے مگر واپس بھیج دیئے گئے آخر کار سن 5 ہجری غزوۂ خندق میں شریک ہوئے ، [2] پھر بعد کے تما م غزوات میں شریک رہے ، معرکۂ موتہ ، فتحِ مصر و افریقہ میں بھی شامل تھے۔ [3]
حلیہ : رنگت گندمی اور قَد لمبا تھا ، زلفیں کندھوں کے قریب ہوتیں ، [4]سر پر عمامہ سجا ہوتا جبکہ اس کا شملہ دونوں کندھوں کے درمیان (پیٹھ پر) رکھتے ، [5] داڑھی میں زرد خضاب لگاتے ، ٹھوڑی کے پاس سے داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور مٹھی سے زائد بال تراش دیتے ، مونچھوں کو اتنا تراشتے کہ جِلد کی سفیدی نظر آجاتی۔ [6]
معمولات : کھانا کھاتے تو دستر خوان پر کوئی نہ کوئی یتیم ضرور موجود ہوتا ، [7] رات کو سونے سے قبل مسواک کرتے ، پھر صبح کا اُجالا پھیلنے سے پہلے اور بعد بھی مسواک کرتے ، [8] کوئی رات نہ گزرنے پاتی تھی کہ آپ کا وصیت نامہ آپ کے پاس نہ ہو ، سلام کرناآپ کی عادتِ مبارکہ میں شامل تھا ، ایک بار کہیں سے گزر ہوا تو سلام کرنا بھول گئے لہٰذا واپس آئے اور فرمایا : اَلسَّلامُ عَلیکم! میں سلام کرنا بھول گیا تھا۔ [9]
عبادت : آپ رضی اللہُ عنہ نماز میں اپنے چہرے ، ہاتھوں اور قدموں کو قبلہ رُو کرنے کا خوب خیال رکھا کرتے تھے ، ظہر سے عصر تک کا وقت عبادتِ الٰہی میں گزرتا ، [10] جتنا نصیب میں ہوتا رات کو عبادت کرتے پھر بستر پر لیٹ جاتے اور پرندوں جیسی ہلکی نیند لیتے اس کے بعد کھڑے ہوجاتے اور وضو کرکے نماز شروع کردیتے ، رات میں ایسا چار یا پانچ بار کرتے۔ جب کبھی عشا کی جماعت نکل جاتی تو باقی رات عبادت میں گزار دیتے۔ [11]
عشقِ رسول : آپ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر مبارک کرتے تو آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا جاتیں اور آنسو بہہ نکلتے ، [12] منبرِ انور پر جس جگہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف فرما ہوتے تھے آپ اس جگہ پر ہاتھ رکھتے اور اپنے چہرے پر پھیر لیتے ، [13] جن جگہوں پر نبیِّ مکرّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دورانِ سفر پڑاؤ کیا آپ وہاں پڑاؤ کرتے ، جن مقامات پر حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز ادا کی آپ ہر اس جگہ پر نماز ادا کرتے ، جہاں نبیِّ رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی اونٹنی بٹھائی آپ ان جگہوں پر اپنی اونٹنی بٹھاتے ، [14] اپنی سواری کو ہر اس راستے پر موڑا کرتے جہاں سے نبیِّ معظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر ہوا ، وجہ پوچھی جاتی تو ارشاد فرماتے : میں چاہتا ہوں کہ پیارے نبی کی پیاری سواری کے کسی قد م مبارک (کی جگہ) پر میری سواری کا قدم پڑجائے۔ [15] ایک بار نبیِّ محترم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک درخت کے نیچے اترے تھے (بعد میں) آپ اس درخت کی دیکھ بھال کرنے لگے اور اس کی جڑوں کو پانی دینے لگے کہ کہیں یہ درخت خشک نہ ہوجائے۔ [16]سفر سے واپسی پر پہلے روضہ مبارکہ اور شیخین کریمین کی مبارک قبروں پر حاضری دیتے اور کہتے : اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَا اَبَا بَكْرٍ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا اَبَتَاهُ۔ [17] آپ کا ایک جگہ سے گزر ہوا تو راستے سے کچھ ہٹ کر گزرے ، کسی نے وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا : میں نے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسا کرتے دیکھا تھا لہٰذا میں نے بھی وہی کیا۔ [18] آپ بغیر بال والے چمڑے کے جوتے پہنتے تھے ، وجہ پوچھی گئی تو فرمایا : میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بغیر بال والے چمڑے کے جوتے پہنے دیکھا ہے ، اس لئے مجھے یہ جوتے پہننا پسند ہے۔ [19]ایک مرتبہ آپ کا پاؤں سُن ہوگیا ، کسی نے کہا : جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اسے یاد کرکے پکارئیے ، سُن پَن ختم ہوجائے گا آپ نے فوراً کہا : یا محمداہ ، یہ کہتے ہی آپ کا پاؤں صحیح ہوگیا۔ [20]
راہِ خدا میں خرچ : ایک مرتبہ ایک اونٹنی کی چال ڈھال نے آپ کو خوش کردیا ، آپ نے اونٹنی کو بٹھایا ، نیچے اترے اور خادم سے فرمایا : اس کی لگام اور کجاوہ اتار لو ، نشانی لگادو اور جھول پہناکر قربانی کے جانوروں میں داخل کردو۔ [21] آپ کے پاس ایک گدھا تھا جسے آپ نے بیچ دیا ، کسی نے کہا : اگر آپ اس کو نہ بیچتے تو اچھا ہوتا ، آپ نے فرمایا : وہ ہمارے لئے فائدہ مند اور سازگار تھا لیکن میرے دل کا کچھ حصہ اس کی جانب مشغول ہوگیا تھا ، مجھے یہ ناپسند ہوا کہ میں اپنے دل کو کسی چیز میں مشغول کروں۔ [22]
رحم دلی : جب آپ کا کوئی غلام مسجد میں جاکر عبادت کرنے لگ جاتا اور آپ اس کو عبادت میں مصروف دیکھتے تو اسے آزاد کردیتے ، کوئی کہتا کہ غلام آپ کو فریب دیتے ہیں ، تو ارشاد فرماتے : جو الله کے معاملے میں ہمیں فریب دے ہم اس کے فریب میں آجاتے ہیں۔ [23] آپ نے ہزار یا اس سے بھی زیادہ غلاموں کو آزاد کیا۔ [24]
سخاوت : آپ اتنی زیادہ سخاوت کرتے کہ جو کچھ پاس ہوتا وہ سب ختم ہوجاتا ، اور جس کو پہلے دیاتھا اگر وہ دوبارہ آجاتا توجن لوگوں میں بانٹا تھا ان میں کسی سے قرض لیتے اور اس مانگنے والے کو دے دیتے۔ ایک مرتبہ آپ کا مچھلی کھانےکا دل چاہا ، گھر والوں نے مچھلی بھون کر سامنے رکھ دی ، اتنے میں سائل آگیا آپ نے وہ مچھلی اسے دینے کا ارشاد فرمادیا۔ ایک مرتبہ بیمار پڑے تو آپ کے لئے ایک درہم کے 6 یا7انگور خریدے گئے ، سائل آیا توآپ نے انگور اسے دینے کا حکم فرمادیا۔ [25]
علمی میدان : آپ تقویٰ اور علم میں درجۂ امامت پرفائز ہیں ، صحابہ میں حج کے مسائل سب سے زیادہ جانتے تھے ، 60 سال تک فتویٰ دیتے رہے[26] لیکن حد درجہ محتاط بھی تھے ، ایک شخص نے آپ سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے اپنا سر جھکا لیا اور کوئی جواب نہ دیا ، وہ شخص کہنے لگا : کیا آپ نے میرا مسئلہ نہیں سنا؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں سنا! تم لوگ جو سوال مجھ سے کرتے ہو گویا یہ سمجھتے ہو کہ اللہ مجھ سے اس کی پوچھ گچھ نہیں فرمائےگا ، مجھ سے بات نہ کرو تاکہ میں تمہارے مسئلے کو اچھی طرح سمجھ لوں۔ ایک مرتبہ کسی نے کچھ پوچھا تو فرمایا : مجھے نہیں معلوم ، پھر کہنے لگے : ابنِ عمر نے کتنی اچھی بات کہی! جس کا اسے پتا نہیں تھا اس کے بارے میں یہ کہہ دیا کہ مجھے معلوم نہیں۔ [27]
مرویات : آپ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد 1630ہے ، 170 احادیث بالاتفاق صحیح بخاری و مسلم میں ہیں جبکہ انفرادی طور پر امام بخاری نے 81 روایات اور امام مسلم نے 31 مرویات ذکر کی ہیں۔ [28]
وصال : ظالم گورنر حجاج بن یوسف کے حکم پر ایک شخص نے آپ کے پاؤں پر زہر میں بجھا ہوا نیزہ چبھودیا جس کی وجہ سے چند دِنوں بعد مکہ میں آپ کا وصال ہوگیا۔ حضرت عبدُ اللہ بن عُمر نے حضرت عبدُ اللہ بن زبیر رضی اللہُ عنہم کی شہادت کے 2 یا 3 ماہ بعد یعنی سن 73 ہجری شعبان یا رمضان میں وفات پائی۔ [29]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ ، کراچی
[1] معجم الصحابہ ، 3 / 468
[2] طبقات ابن سعد ، 4 / 106
[3] تہذیب الاسماء ، 1 / 262
[4] سیر السلف الصالحین ، ص230
[5] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 352
[6] طبقات ابن سعد ، 4 / 135
[7] حلیۃ الاولیاء ، 1 / 371
[8] الزہد لابن المبارک ، ص 436
[9] طبقات ابن سعد ، 4 / 110 ، 136
[10] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 370
[11] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 354
[12] طبقات ابن سعد ، 4 / 127
[13] نسیم الریاض ، 4 / 532
[14] تہذیب الاسماء ، 1 / 262
[15] معجم الصحابہ للبغوی ، 3 / 475
[16] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 353
[17] طبقات ابن سعد ، 4 / 117
[18] مسنداحمد ، 2 / 268 ، حدیث : 4870
[19] بخاری ، 1 / 80 ، حدیث : 166
[20] الشفاء ، 2 / 23
[21] سیر السلف الصالحین ، ص231
[22] الزہد لابن المبارک ، ص 190
[23] سیر السلف الصالحین ، ص231
[24] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 357
[25] طبقات ابن سعد ، 4 / 110 ، 119
[26] الاستیعاب ، 3 / 81 ، 82
[27] تاریخ ابن عساکر ، 31 / 167 ، 168
[28] تہذیب الاسماء ، 1 / 262
[29] الاستیعاب ، 3 / 82 ، تاریخ ابن عساکر ، 31 / 201
Comments