فریاد
اپنی امیدوں کاجائزہ لیجئے
دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے نگران مولاناحاجی محمد عمران عطاری
ماہنامہ مارچ2022ء
دنیا میں عموماً ہر انسان کے دل میں دوسرے شخص سے کچھ نہ کچھ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ، مثلاً والدین کو اولاد سے تو اولاد کو والدین سے ، بھائی بہنوں کو ایک دوسرے سے ، شوہر کو بیوی سے تو بیوی کو شوہرسے ، سیٹھ کو ملازم سے تو ملازم کو سیٹھ سے ، استاد کو شاگرد سے تو شاگرد کو استاد سے ، پیر کو مرید سے تو مرید کو پیر سے ، افسر کو ماتحت سے تو ماتحت کوافسرسے۔ مگران سب کی امیدوں کی نوعیتیں اور ان کے دائرے الگ الگ ہوتے ہیں ، بہتریہ ہے کہ کسی دوسرے سے وابستہ کی جانےوالی امید نیچر اورحالات کےمطابق اور شریعت کے دائرے کے اندر ہو ، امید بھی آؤٹ آف نیچراور مقاصدِ شرع کے خلاف نہ ہو۔ ہم میں ایک کمزوری یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ہم جب کسی سےکوئی امید لگاتےہیں توبسااوقات ہمارا اپنا کردار ایسا ہوتا ہے کہ جو سامنے والے کے لئے اس امید پر پورا اترنے میں رکاوٹ بن رہاہوتاہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارا کردار ہی ہماری اپنی امیدوں کے گلشن پر خزاں کی ہوا چلا دیتا ہے جس سے پتےّ مُرجھا جاتے ، پھول زمین پرآگرتے اور پاؤں تَلے رَونْد دیئے جاتے ہیں ، مثلاً اولاد کا اپنے والدین کی خدمت نہ کرنا اور ان کی فرماں برداری سے منہ پھیرنا مگر جب اسی اولاد کی اپنی اولاد ہو تو اس سے خدمت اور فرماں برداری کی امید رکھنا ، والدین کا اولاد کو رب کی نافرمانی والے راستے پر لگاکر پھر ان سےاپنی فرماں برداری کی امید رکھنا اور انہیں اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھنا ، اپنی اولاد کے سامنے ہی گالیاں بکنا ، جھوٹ بولنا ، غیبتیں کرنا ، نمازیں قضا کرنا ، بےحیائی اور بےشرمی والے کام کرنا اور پھر اولاد سےہرطرح کی برائیوں سے پاک رہنے اورنیکی کے راستے پر چلنے کی امیدبھی رکھنا ، شوہر کا بیوی کے حقوق ادانہ کرنا ، اس کے معاملے میں شریعتِ مطہرہ کی طرف سے عائد ذمہ داریاں پوری نہ کرنا اور پھر اس سے اپنے حقوق کی ادائیگی کی امیدرکھنا ، ملازم کا کام کو پورا نہ کرنا یا جیسا مطلوب تھا ویسانہ کرنا ، چھٹیوں پر چھٹیاں کرنا اور دکان پر تاخیر سے پہنچنے کو اپنا طریقہ بنالینا اور پھر سیٹھ سے شفقت و مہربانی اور اس سے سیلری پوری لینےکی امید رکھنا ، یوں ہی شاگرد کا محنت نہ کرنا ، سبق یاد نہ کرنا ، مدرسے میں وقت پر نہ پہنچنا ، اپنے استاد اور پڑھنے والی کتابوں کی بےادبیاں بھی کرنا مگر ساتھ ہی زندگی میں کوئی بہترین مقام و مرتبہ پانے کی امید رکھنا ، مرید کا پیر کی طرف سے ملی ہوئی ہدایات پر عمل نہ کرنا ، پیر ومرشد کےحقوق کی ادائیگی میں ظاہراً و باطناً کوتاہی کرنا مگر ساتھ ہی پیر کےفیض کےملنےکی امید رکھنا ، لوگوں کی تکلیف و پریشانی اوران کےغم میں شریک نہ ہونا اور ان سے اپنےغموں میں شریک ہونےاور امداد کی امید رکھنا۔ انسان کا گناہوں میں مبتلا رہنا ، اپنےرب کےحکم پرعمل کرنے کے بجائے اپنےنفس کا غلام بن کر زندگی گزارنا مگر ساتھ ہی رب کے کرم اور اس کی رحمت کی امید بھی رکھنا۔ اللہ پاک کےآخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : سمجھ دار شخص وہ ہے جو (دنیا میں ہی) اپنا محاسبہ کر لے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرلے اور وہ شخص بےوقوف ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرے اور اللہ پاک سے آخرت کے انعام کی امید رکھے۔ [1]حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : امید کی حقیقت یہ ہے کہ انسان نیکیاں کرے اور اُس (یعنی اللہ پاک ) کے فضل کا امیدوار رہے ، بدکاری کے ساتھ امید رکھنا دھوکا ہے امید نہیں۔ [2]
امیدیں حالات اور نیچر کے مطابق رکھئے! معاشرے میں ایک خرابی یہ بھی پائی جاتی ہےکہ بسا اوقات امیدیں حالات اور نیچر کےمطابق نہیں رکھی جاتیں ، اس کی عموماً دو خرابیاں سامنے آتی ہیں یا تو یہ کہ جس سےامید رکھی ہے وہ اس امید کو پورا کرنے کی وجہ سے تکلیف وپریشانی وغیرہ کا شکار ہوجاتا ہے یا پھر امید کے پورا نہ ہونے کی صورت میں خود امید رکھنے والا دل برداشتہ ہوجاتا اور ٹینشن میں مبتلا ہوجاتا ہے ، مثلاً امتحانات میں والدین کااپنی اولاد سے 100فیصدنمبرلینےکی امید رکھنا یاپھرپہلی پوزیشن لینےکی امید رکھنا ، جوبچہ انجینئر بننا چاہتا تھااسےمیڈیکل کےشعبےمیں ڈال کر والدین کااس سےڈاکٹربننےکی امیدرکھنا ، آدمی کی تنخواہ ماہانہ 20 ہزار ہو ، گھر کے راشن ، گیس اوربجلی کے بلز اور ٹرانسپورٹٰیشن کے اخراجات نکالنے کے بعد 2 ہزار روپے بچتے ہوں ، ایسی صورتِ حال میں بیوی کا شوہر سے سوطرح کی اس کی طاقت اورحالت سےبڑھ کر امیدیں رکھنا ، مثلاًماہانہ کمیٹی ڈالنے ، ویکلی باہرجاکر کھانا کھلانے ، خاندان میں ہونےوالی ہرشادی وغیرہ تقاریب کے مواقع پرنیاجوڑا لینے کی نہ صرف امید رکھنا بلکہ ڈیمانڈبھی کرنا ، ملازم کو تنخواہ 25 ہزار دیکراس سے 50ہزار کےکام کی امید رکھنا وغیرہ۔ یادرکھئے! جس طرح گاڑی میں 10کلو میٹر جتنا پیٹرول ڈلواکر 20 کلو میٹر جتنا چلنے کی امیدرکھنابیوقوفی ہے اسی طرح سامنے والےکی حالت اور طاقت سے زائد اس سے امید رکھنا بھی کوئی عقل مندی نہیں ہے۔ اپنی دنیاوی امیدوں کو بڑھانے کے بجائے انہیں کم کرنا بہترین عمل ہے ، چنانچہ حضرت سیدنا زُرارَہ بن اَبِی اَوفیٰ رحمۃُ اللہِ علیہ کوکسی نے ان کے اِنتقال کے بعد خواب میں دیکھ کر پوچھا : کون سا عمل آپ کے نزدیک بلند مرتبہ ہے؟ انہوں نے فرمایا : توکُّل(یعنی اپنے رب پر بھروسا کرنا) اور امیدوں کو کم کرنا۔ [3]
اپنی امیدیں اپنے رب سے لگائیے! راہ ِ خدا میں خرچ کرنے والے کو چاہئےکہ اپنی واہ واہ چاہنےاورتعریفی کلمات کی امید رکھنے کے بجائے اپنے رب سےثواب کی امید رکھے ، بیمارآدمی دوا تو کھائے مگردوا کھاکر شِفا کی امیداپنےرب سے رکھے۔ دکان ، گاڑی اور گھر کولاک کرنے اور دیگر حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود انسان حفاظت کی امید اپنے رب سے رکھے ، اپنی اولادکونیک بنانے کے اسباب تو پورے اختیار کرے مگر ان کےنیک بننےکی امید اپنے رب سےرکھے ، انسان نیک اعمال کرنے کے باوجود قبر و حشر میں خلاصی کی امید اپنے رب کے فضل و کرم سے رکھے۔ اپنے رب سے امید رکھنے کا ایک بہت بڑافائدہ ملاحظہ کیجئے ، اللہ پاک کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشادفرمایا : اللہ پاک ارشاد فرماتاہے : اے ابن آدم ! جب تک تو مجھے پکارتارہے گا اور مجھ سے امید رکھے گا تو میں تیرے گناہوں کی مغفرت فرماتا رہوں گا اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ [4] دنیامیں اپنے رب سے امیداور اس کا خوف انسان کے اندر کیسا ہونا چاہئے ملاحظہ کیجئے :
امیداورخوف کی اعلیٰ مثال : اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہُ عنہ نے ایک مرتبہ ارشادفرمایا : اگر آسمان سے کوئی پکارنے والاپکارےکہ جنّت میں صرف ایک ہی شخص داخل ہوگا تو مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا اور اگر آسمان سے یہ آواز آئے کہ جہنم میں صرف ایک ہی شخص داخل ہوگا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ (بھی)میں ہی نہ ہوں۔ حضرت سیدنامطرف بن عبداللہ رحمۃُ اللہِ علیہ آپ رضی اللہُ عنہ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کی قسم! رب سے ڈرنے اور اس کی رحمت سے امید رکھنے کی یہ بہت بڑی مثال ہے۔ [5] میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے! اُداسیوں اور پریشانیوں سےنکلناچاہتےہیں تواپنی امیدوں اور کردار کا جائزہ لیجئے ، اپنی امیدوں کو حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کیجئے ، نیزاپنی دنیاوی امیدوں کوکم کرنےکی طرف بھی دھیان دیجئےاوراپنی امیدوں کارُخ اپنےربِّ کریم کی بارگاہ کی جانب موڑئیے ، اللہ کریم ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
[1] ترمذی ، 4 / 207 ، حدیث : 2467
[2] مراٰۃ المناجیح ، 2 / 439
[3] احیاء العلوم ، 5 / 198
[4] ترمذی ، 5 / 318 ، حدیث : 3551
[5] اللمع ، ص168
Comments