آخر درست کیا ہے؟
دورِ جدید کے چیلنجز کے لئے دین ِ اسلام کےاصول و قواعد کافی ہیں یا نہیں؟(دوسری اور آخری قسط)
* مفتی محمد قاسم عطاری
ماہنامہ مارچ2022ء
شریعت کے بیسیوں احکام ایسے ہیں جن میں یہ حکم ہے کہ جس چیز سے بچنا انسان کے لئے مشکل ہو ، ان معاملات میں بہت سی رخصتیں ہیں بلکہ بسا اوقات حرام سے حلال ، ناپاکی سے پاکی تک کی رعایت دی گئی ہے اور وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس سے بچنا عام انسانوں کے لئے بہت مشکل ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں : بلی درندوں میں سے ہے اور عام اصول کے اعتبار سے اس کا جھوٹا ناپاک شمار کیا جانا چاہئے ، لیکن چونکہ یہ اکثر گھروں میں آتی جاتی رہتی ہے اور کبھی پانی اور دودھ وغیرہ میں منہ ڈال دیتی ہے تو اس کا جھوٹا اگر ناپاک قرار دیا جائے تو اس سے حرج لازم آئے گا ، اس لئے حدیث میں بلی کے جھوٹے کے متعلق پاکی کی رعایت دے دی گئی۔ (ترمذی ، 1 / 149 ، حدیث : 92)
اور اسی طرح یہ قاعدہ بھی ہے : “ الضرورات تبیح المحظورات “ “ یعنی ضرورتیں ممنوعات کو مباح کر دیتی ہیں۔ “ مراد یہ کہ جسے شریعت مجبور قرار دیدے ، اس پر گناہ کا حکم بھی لاگو نہیں ہوگا۔ جیسے اسلام میں مردار یا خنزیر کھانے سے منع کیا گیا ہے ، لیکن اگر بھوک کے مارے جان چلی جانے کا صحیح اندیشہ ہو اور کھانے کے لئے مردار یا خنزیر یا کسی حرام شے کے علاوہ کوئی چیز نہ ہو تو اب بقدرِ ضرورت مردار یا خنزیر کھانے کی اجازت ہے۔
اسی طرح اگر عورت بیمار ہو جائے اور کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود نہ ہو تو علاج کی ضرورت کی وجہ سے اسے ڈاکٹر کے سامنے بقدرِ ضرورت جسم کھولنے کی اجازت ہے۔ نماز کے لئے وضو کرنا فرض ہے ، مگر ایسا مریض جسے پانی نقصان کرتا ہو یا جس سے اس کا مرض بڑھ سکتا ہو یا شفا یابی میں تاخیر ہو گی تو اس کو اجازت ہے کہ وہ تیمم کر لے۔ مریض کے بارے میں قرآن پاک میں ہے : ( وَّ لَا عَلَى الْمَرِیْضِ حَرَجٌؕ- ) ترجمہ : اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے۔ (پ26 ، الفتح : 17) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیت کی تفسیر میں تفسیر قرطبی میں ہے : “ ان الله رفع الحرج۔ ۔ ۔ عن المريض فيما يؤثر المرض في اسقاطه ، كالصوم وشروط الصلاة واركانها ، والجهاد ونحو ذلك۔ ۔ ۔ فظاهر الآية و امر الشريعة يدل على ان الحرج عنهم مرفوع في كل ما يضطرهم اليه العذر۔ ۔ ۔ فالحرج مرفوع عنهم في هذا “ ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے مریض سے حرج (احکام شرعیہ کی مشقت) کو اٹھا لیا ہے یعنی ان تمام دینی امور میں کہ جن میں اس کا مرض آڑے آتا ہے جیسے روزہ ، نماز کی شرائط و ارکان اور جہاد وغیرہ۔ تو اس آیت کا ظاہر اور شریعت کا حکم اس بات کی دلیل ہے کہ جن کاموں میں ان کی بیماری کا عذر آڑے آتا ہے ان سے حرج و مشقت اٹھا لیا گیا ہے۔ (تفسیر قرطبی ، الفتح ، تحت الآیۃ : 17 ، 12 / 313)
اس ساری گفتگو سے یہ بات تو معلوم ہو گئی کہ احکام شرع کیلئے مخصوص اسباب ، محل اور شرائط ہوتی ہیں اگر وہ پائی جائیں تو ہی اس حکم شرعی پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے اور اگر کسی پر وہ حکم لاگو ہو جائے مگر کوئی ایسا عارضہ پایا جائے جس کی وجہ سے اس حکم پر عمل شدید دشوار ہو تو اس میں بھی رخصت کی صورت موجود ہوتی ہے ، یونہی قدرتی عوارض بھی احکام میں رخصت کا بہت بڑا سبب بنتے ہیں۔
رخصت کے اسباب میں سے ایک بہت بڑا سبب عقل و شعور کا نہ ہونا بھی ہے۔ انسان عقل کی صلاحیت ہی سے خیر و شر میں تمیز کرتا ہے اور عقل و اختیار کی موجودگی ہی میں دین کے احکام اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اس لئے دین کے مسلمہ قواعد کا خلاصہ ہے کہ جس کی عقل میں اتنا خلل ہو کہ وہ صحیح غلط کی پہچان نہ کر سکے تو وہ مرفوع القلم ہوتا ہے یعنی شریعت کا مواخذے کا قلم اُس سے اٹھ جاتا ہے اورایسے شخص کو مختلف عبادات مثلاً طہارت ، نماز ، روزہ اور حج وغیرہ ادا کرنے کا نہیں کہا جائے گا بلکہ پاگل سے گناہ کا معاملہ اصلاً ہی ختم ہوجاتا ہے۔
یونہی اگر کسی میں کسی اور عارضے کی وجہ سے عقل کی کمی ہو جیسے نابالغ میں عقل کی کمی ہوتی ہے ، اس لئے اس پر بھی نماز روزہ وغیرہا فرض نہیں ہے ، بلکہ اگر کوئی نیند کی حالت میں ہو تو اس پر کسی فعل کے ارتکاب کا گناہ نہیں ہے ، مثلاً نماز چھوٹ جائے تو گناہ نہیں ، اس کا ہاتھ پاؤں لگنے سے کسی کا نقصان ہوجائے تو گناہ نہیں ، حالانکہ نیند انسان کے اختیار میں ہے کہ اپنے اختیار سے سوتا ہے۔ یہ اصول نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں بیان فرمایا : “ رفع القلم عن ثلاث عن المبتلى او قال المجنون حتى يبرأ ، وعن الصبي حتى يبلغ او يعقل وعن النائم حتى يستيقظ “ ترجمہ : تین قسم کے لوگوں پر سے شریعت کا قلم (قانون) اٹھا لیا گیا ہے۔ مجنون جب تک عقلمند نہ ہو جائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے اور سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے۔ (مسندابی داؤد الطیالسی ، ص15 ، حدیث : 90)
اب ان اصول و قواعد کی روشنی میں جواب بہت واضح ہوجاتا ہے کہ جینز کی انجینئرنگ (Genetic Engineering) کا ایک شعبہ (CRISPR) ٹیکنالوجی ہے جس سے موجودہ دور میں ابھی ابتدائی مفید کام ہو رہا ہے کہ مختلف انسانی بیماریوں کے حل کے لئے انسان کے (DNA) اور (RNA) کو توڑا جاتا ہے جس سے اس بیماری کو پیدا کرنے والے جینز کو غیر فعال کیا جاتا ہے اور اب اس سے اگلے مرحلے میں جینز کی تبدیلی پر کام کیا جارہا ہے تاکہ اس بیماری کو مکمل صحت یابی سے بدلا جا سکے اور اس کا ایک تجربہ دل کی مریض عورت پر کیا گیا ہے جس کے نتائج ابھی زیرِ التوا ہیں۔ بہرحال اگر یہ تجربات کامیاب ہو گئے اور پھر اس سے آگے بڑھ کر انسان کی اچھی صفات کے مختلف جینز کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ انسانیت کے لئے ایک تباہ کُن امر ہوگا کیونکہ اگر انسان سے خیر کا عنصر نکال دیا گیا تو اس میں اچھائی کرنے اورخیر قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہے گی اور ایسے انسان سراپا شر بن کر رہ جائیں گے۔
اب رہی یہ بات کہ ایسے لوگوں کے متعلق شرعی حکم کیا ہوگا کیونکہ اگر کسی میں خیر قبول کرنے کا وصف ہی موجود نہیں اور خیر پر عمل کرنا اس کے اختیار میں ہی نہیں اور خیر و شر کی تمییز و شعور ختم ہوچکا تو اسے کسی شے کا پابند بنایا ہی نہیں جاسکتا۔ لہٰذا شرعی حکم بھی ایسی جگہ یہی ہوگا کہ چونکہ ایسے لوگوں میں شرعی احکام کا پابند بنانے کا بنیادی ذریعہ عقل ہی موجود نہیں ہوگی اور شریعت انسان کی آزمائش عقل کی بنیاد پر ہی کرتی ہے تو ایسے لوگوں کی حقیقی حالت کے اعتبار سے شریعت انہیں مکمل یا جزوی رخصت و تخفیف دے گی کیونکہ اس کو شرعی احکامات کا مکلف کرنے میں حرج ، مشقت ، تنگی کا پہلو واضح ہوگا اور اس کے احکام پاگل وغیرہ کی طرح کے ہوں گے۔
قرآن مجید میں ایک اور انداز میں ایسے لوگوں کے متعلق رہنمائی ملتی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ عدل فرمانے والا ہے ، وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اس وقت تک کسی کو عذاب نہیں دیتا جب تک اتمامِ حجت نہ کردے اور جسے نافرمانی پر سزا دیتا ہے ، اُسے ہدایت کے اسباب مہیا کرنے کے بعد ہی دیتا ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا(۱۵) ) ترجمہ : اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔ (پ15 ، بنی اسرائیل : 15) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیت کے تحت تفسیر ابن کثیر میں ہے : “ اللہ تعالیٰ نے یہ اپنے عدل کی خبر دی ہے کہ وہ کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر اتمام حجت نہ ہوجائے اور رسول کو مبعوث نہ کر دیا جائے۔ “ (تفسیر ابن کثیر ، بنی اسرائیل ، تحت الآیۃ : 15 ، 5 / 49)
اب تک کی ساری گفتگو دنیا میں شرعی احکام کا مکلف ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے تھی ، البتہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیّت کے مطابق قیامت کے دن اس کا کیا فیصلہ فرمائے گا؟ یہ اس کی مرضی پر موقوف ہے ، لیکن کلامِ نبوی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دنیا میں جو لوگ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے شریعت کے احکام سے خارج رہے ان میں سے کئی افراد ایسے ہیں جن کا قیامت میں امتحان ہوگا۔ اُس امتحان کی صورت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسے شخص میں اطاعت و نافرمانی کی صلاحیت دے کر آزمائے گا۔ اگر وہ شخص اس وقت اطاعت کرے گا تو جنت میں داخل ہوگا اور اگر نافرمانی کرے گاتو جہنم میں جائے گا۔ اس کی طرف اشارہ درج ذیل حدیث میں ہے۔ حضرت اسود بن سریع رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن چار قسم کے لوگ (خدا کی بارگاہ میں اپنے ایمان نہ لانے کی مجبوری بیان کریں گے) ایک ، وہ بہرہ جو کچھ بھی نہیں سنتا اور دوسرا ، وہ آدمی جو احمق (بے عقل) ہے اورتیسرا ، سٹھیایا ہوا بوڑھا ، اور چوتھا وہ شخص جو زمانہ فَترت میں فوت ہوا۔ بہرہ شخص کہے گا ، اے اللہ! جب اسلام آیا تو میں کچھ بھی سُن نہیں سکتا تھا اور احمق کہے گا ، اے اللہ! جب اسلام آیا (تو میں احمق تھا یعنی مجھ میں عقل ہی نہیں تھی) اور بچے مجھے مینگنیاں مارتے تھے اور بوڑھا کہے گا ، اے اللہ! جب اسلام آیا تو مجھے کچھ سمجھ بوجھ نہیں تھی (یعنی سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی تھی) اور جو زمانہ فترت میں فوت ہوا وہ کہے گا ، اے اللہ! میرے پاس تیرا رسول ہی نہیں آیا۔ تو اللہ تعالیٰ ان سے اس وقت عہد لے گا کہ وہ اللہ کا حکم مانیں گے ، پھر ان کی طرف یہ پیغام بھیجا جائے گا کہ آگ میں داخل ہوجاؤ۔ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اس ذات کی قسم ، جس کے ہاتھ میں محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جان ہے اگر وہ اس میں داخل ہوگئے تو اسے ٹھنڈی اور سلامتی والی پائیں گے۔ (مسند احمد ، 5 / 496 ، حدیث : 16301)
اس حدیث پاک کے بارے میں فتح الباری میں ہے : “ قد صحت مسألة الامتحان في حق المجنون ومن مات في الفترة من طرق صحيحة وحكى البيهقي في كتاب الاعتقاد انه المذهب الصحيح “ ترجمہ : مجنون اور زمانہ فترت میں مرنے والے شخص کے بارے میں (بروزِ قیامت) امتحان والا مسئلہ ہی صحیح ہے اور اسی کو امام بیہقی نے کتاب الاعتقاد میں نقل کیا ہے کہ یہی صحیح مذہب ہے۔ (فتح الباری ، 4 / 213)
اس تمام گفتگو کے بعد عرض ہے کہ خدا کی شان ہے : ( فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ(۱۶)) “ جو چاہے کرنے والا ہے “ (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور اس کی شان ہے۔ ( لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ هُمْ یُسْــٴَـلُوْنَ(۲۳) ) “ خدا سے اس کے اَفعال کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا اور بندوں سے سوال ہوگا۔ “ (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دار الافتاء اہل سنت کراچی
Comments