مدنی مذاکرے کے سوال جواب
ماہنامہ مارچ2022ء
(1)اصل نام کے بجائے پیار والے نام سے پُکارنا کیسا؟
سُوال : میرا جو اَصل نام ہے اس سے پکارنے کے بجائے لوگ مجھے دوسرے نام سے پکارتے ہیں جو پیار سے رکھا ہوا ہے اِس میں کوئی ممانعت تو نہیں ہے؟
جواب : اگر لوگ پیار سے ایسا نام بولتے ہیں جو شَرعا ً ناجائز نہیں تو اِس میں کوئی حَرج نہیں ہے ، جیسے میرا نام اِلیاس ہے اور میں اپنے ماں باپ کا سب سے چھوٹا بیٹا ہوں مگر بہت سے اسلامی بھائی مجھے باپا بولتے ہیں۔ اِسی طرح مجھے بچپن میں گھروالے پیار سے کوئی لفظ بولتے تھے جو شَرعاً جائز تھا۔ یُوں ماں باپ بچّوں کو پیار سے بہت کچھ بولتے ہیں اور ایسے بہت سے اَلفاظ مُعاشرے میں رائج ہیں جو کہ جائز ہیں اَلبتہ جو ناجائز لفظ ہو گا تو اُسے بولنا ناجائز ہی رہے گا۔ (مدنی مذاکرہ ، 6جمادی الاولیٰ1440ھ)
(2)معلوم نہ ہوکہ آیاتِ سجدہ کتنی بار پڑھیں تو کیا کرے؟
سُوال : اگر کسی کو معلوم نہ ہوکہ اُس نے آیاتِ سجدہ کتنی بار پڑھی ہیں تو اُس کے لئے کیا حکم ہے؟
جواب : ایسا شخص غور کرے کہ اُس نے آیاتِ سجدہ کتنی بار پڑھی ہوں گی 10بار ، 25بار ، اَلغرض جتنی بار کا اُسے ظَنِّ غالِب (یعنی پکّا خیال) ہو جائے اتنے سجدے کر لے۔ اگر اُس کا ظَنِّ غالِب (یعنی غالِب گمان) ہو کہ 25بار آیاتِ سجدہ پڑھی ہوں گی تو 25 سجدے کرے۔ (مدنی مذاکرہ ، 23ربیع الاول 1440ھ)
(3)کیا طوطے کے سَلام کا جواب دینا بھی واجب ہے؟
سُوال : طوطے کو سَلام کرنا سکھایا گیا ہے ، اب وہ بار بار سَلام کرتا ہے تو کیا اس کے سَلام کا جواب دینا بھی واجب ہوگا؟
جواب : طوطے کے سَلام کا جواب دینا واجِب نہیں۔ (مدنی مذاکرہ ، 4صفرشریف ، 1440ھ)
(4)مسجد میں لوبان جَلانا کیسا؟
سُوال : مسجد کو بَدبو سے بچانا چاہئے ، اگر لوبان وغیرہ مسجد میں جَلائیں گے تو مسجد میں دُھواں اور بُو پھیلے گی تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب : اگر دُھواں خُوشبو دار ہے تو جَلانے میں حَرج نہیں جیسے اگر بتی یا عُود کی لکڑی وغیرہ۔ کعبہ شریف کا طَواف کرتے وقت عُود کی لکڑی جَلائی جاتی ہے ، بعض شُیُوخ نہایت قیمتی عُود جَلا کر مسجدِ حرام شریف میں گُھوم رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال اگر دُھواں خوشبودار ہے تو منع نہیں بشرطیکہ اِس کے عِلاوہ کوئی اور رُکاوٹ نہ ہو مثلاً کسی کو اگربتی جَلانے سے کھانسی آتی ہے اور وہ اگربتی بجھانے کے لئے کہہ بھی رہا ہے کہ بھائی اس کو ہٹا لو تو مسلمان کو تکلیف سے بچانے کے لئے یہ اگربتی ہٹانی ہو گی۔ اِس کے عِلاوہ اگر کوئی ایسی چیز ہوجس سے بَدبو اُٹھے اس میں چاہے دُھواں ہو یا نہ ہو اسے مسجد میں لانا گناہ ہے۔ (مدنی مذاکرہ ، 6جمادی الاولیٰ 1440ھ)
(5)شادی سے منع کرنے والے کے بارے میں مسئلہ
سُوال : شادی سے منع کرنے والے کے بارے میں کیا مسئلہ ہے؟
جواب : ہر ایک پر شادی کرنا فرض یا واجب نہیں ہے بلکہ بعضوں کے لئے تو شادی نہ کرنا واجب ہوتا ہے کہ اگر کریں گے تو گناہ گار ہوں گے کیونکہ اُن کی اَندرونی کیفیت بعض اوقات ایسی ہوتی ہے کہ وہ شادی کے قابِل نہیں ہوتے۔ بہرحال کسی سے یہ نہیں پوچھنا چاہئے کہ تم شادی کیوں نہیں کر رہے؟ کیونکہ اِس طرح کرنے سے اس کا خُفیہ عیب ظاہر ہو سکتا ہے ، نیز ممکن ہے وہ اِس وجہ سے منع کر رہا ہو کہ اس سے حقوق پورے اَدا نہ ہو سکتے ہوں اور وہ شادی اور گناہوں بھری کیفیت کے بغیر بھی رہ سکتا ہو۔ کسی کی اَندرونی کیفیات معلوم کرنے کے لئے ایسے سُوالات نہیں کرنے چاہئیں مگر یہاں اس قراٰنی آیت : ( وَّ لَا تَجَسَّسُوْا) ترجمۂ کنز الایمان : اور عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26 ، الحجرات : 12) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) کو نہیں پڑھا جائے گا کیونکہ اِس آیتِ مُبارَکہ میں گناہ کی ٹوہ میں پڑنے سے منع کیا گیا ہے جبکہ کسی کا شادی کے لائق نہ ہونا گناہ نہیں ہے۔ بہرحال اگر کوئی شادی کرنے سے منع کرے تو اُسے گناہ گار نہیں کہا جائے گا۔ (مدنی مذاکرہ ، 16ربیع الاول 1440ھ)
(6)گلاب کی پتیوں پر پاؤں رکھنا کیسا؟
سُوال : عموماً لوگ گلاب کی پتیوں پر نہیں چلتے ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ان پر پاؤں نہیں رکھنا چاہئے ، آپ اِس بارے میں کیا اِرشاد فرماتے ہیں؟
جواب : دَراصل بعض ایسی رِوایات ہیں جن میں یہ ذِکر ہے کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پسینۂ مُبارَکہ کا قطرہ زمین پر تشریف لایا تو اس سے گلاب کا پُھول پیدا ہوا ہے۔ اکثر مُحَدِّثِیْنِ کِرَام رحمۃُ اللہِ علیہم نے اِن رِوایات کو تسلیم نہیں کیا بلکہ انہیں مَوضُوع (یعنی مَن گھڑت)قرار دیا ہے۔ چونکہ اِن رِوایات میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مُبارَک پسینے سے گلاب کے پُھول کے پیدا ہونے کا ذِکر ہے ، ا ِس تَصَوُّر کی وجہ سے لوگ ان پر پاؤں رکھنا پسند نہیں کرتے۔
بہرحال اگر کسی کے پاؤں میں گلاب کے پھول کی پتیاں آگئیں یا اُس نے ان پر پاؤں رکھ دیا تو اس میں کوئی حَرج نہیں۔ اگر کوئی ان پر پاؤں نہیں رکھتا تب بھی اس میں حَرج نہیں ہے۔ پُھول کی پتّیاں نچھاور کرنے (یعنی اوپر سے بکھیرنے) کا عُرف (یعنی رواج) ہے۔ عُلَمائے کِرام کَثَّرہُمُ اللہ السَّلام پر بھی یہ پتّیاں نچھاور کی (یعنی اوپر سے ڈالی) جاتی ہیں ، ظاہر ہے جب پتیاں نچھاور کریں گے تو وہ زمین ہی پر آئیں گی ، جب زمین پر آئیں گی تو لوگوں کے پاؤں بھی ان پر پڑیں گے لہٰذا ان پر پاؤں رکھنے میں کوئی حَرج نہیں۔ (مدنی مذاکرہ ، 23رجب شریف 1440ھ)
(7)اِشراق و چَاشت کی جماعت میں جہری قِراءَت کرنا کیسا؟
سوال : کیا اِشراق و چاشت کے نوافل کی جماعت میں جہر (یعنی بلند آواز) کے ساتھ قِراءَت کرسکتے ہیں؟
جواب : اِشراق و چَاشت کی جماعت میں امام صاحب سِرِّی (یعنی آہستہ) قِراءَت کریں گے[1] اور مُقتدی بھی خاموش رہیں گے کیونکہ مقتدی کو امام کے پیچھے قراءَت کرنا منع ہے۔ (مدنی مذاکرہ ، 4محرمُ الحرام1441ھ)
[1] بہارِ شریعت میں ہے:دن کے نوافل میں آہستہ پڑھنا واجب ہے اور رات کے نوافل میں اختیار ہے اگر تنہا پڑھے، اور جماعت سے رات کے نفل پڑھے، تو جہر واجب ہے۔(بہارِ شریعت، 1/545)
Comments