ہماری کمزوریاں

حوصلہ شکنی (Discouragement) (قسط : 01)

* مولاناابورجب محمد آصف عطاری مدنی

مجھے ایک اسٹوڈنٹ نے بڑے اُداس لہجے میں بتایا کہ چار برس پہلے ہمارے جامعہ میں حُسنِ قرأت کا مقابلہ (Competition) ہونے والا تھا ، جب سلیکشن کی باری آئی تو میں بھی شامل ہوا لیکن میری قرأت سننے کے بعد سلیکٹر نے حوصلہ شکن تبصرہ کیا کہ تم تَرتِیل (یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے) کے ساتھ تلاوتِ قراٰن کے مقابلہ کے لئے ہمیشہ کے لئے ان فٹ ہو اور مجھے مقابلے کی دوڑ سے باہر کردیا ، اس تبصرے (Comment) نے کچھ ایسا منفی اثر (Negative Impact) کیا کہ وہ دن اور آج کا دن میرے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ صرف حدر (یعنی تھوڑی رفتار) کے ساتھ ہی تلاوت کرسکتا ہوں ، تَرتِیل کے ساتھ تلاوت کرنا یا اس کے مقابلے میں حصہ لینا میرے بس کی بات نہیں ، شاید آئندہ بھی اس کیفیت سے نہ نکل سکوں۔

قارئین! ہماری سوشل لائف میں خوبیوں (Goodness) کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں (Weaknesses)بھی موجود ہیں ، جن میں سے ایک حوصلہ شکنی (Discouragement) بھی ہے۔ یاد رکھئے! ہماری تھپکی کسی کو پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ بھی دے سکتی ہے جبکہ ایک دل شکنی کسی کو کھائی میں گرا سکتی ہے۔ کسی کی زندگی سنوارنے کیلئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ بگاڑنا بہت آسان ہے صرف اس کی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے ، اسی کو حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔

حوصلہ شکنی کے نقصانات : حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ (Positive Approach) پروان چڑھتی ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ (Negative Approach) پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی و نفسیاتی نقصانات (Disadvantages) ہوتے ہیں ، مثلاً ناامیدی ، احساسِ کمتری ، ڈپریشن ، ذہنی انتشار ، پست ہمتی ، ناکامی کا خوف پھیلتا ہے۔ گھر دفتر ، ادارے اور کلاس روم کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ جس کی آپ حوصلہ شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپ کے قریب آنے سے کتراتا ہے اور آپ سے اپنے مسائل شیئر کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

ہمارا شُمار کن لوگوں میں ہوتا ہے؟ اس دنیا میں دونوں طرح کے لوگ ہیں : (1)حوصلہ افزائی کرنے والے اور (2)حوصلہ شکنی کرنے والے! ہم خود پر غور کریں کہ ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے؟ شاید آپ کہیں کہ ہم نے کبھی کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کی ، تو گزارش ہے کہ یہ کہہ کر کسی کا حوصلہ نہیں توڑا جاتا کہ میں تمہاری حوصلہ شکنی کررہا ہوں بلکہ ہمارا چپ رہنے کی جگہ پر بولنا ، بولنے کے موقع پر نہ بولنا ، ہماری باڈی لینگوئج ، مناسب رپلائی نہ دینا وغیرہ بھی کسی کی حوصلہ شکنی کرجاتا ہے۔ پھر حوصلہ شکنی محض دشمنی کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ کسی سے ہمدردی جتاتے ہوئے بھی اس کی حوصلہ شکنی ہوجاتی ہے لیکن ہمیں اس کا شعور اور احساس بھی نہیں ہوتا۔

حوصلہ شکنی کیسے ہوتی ہے؟ میں آپ کے سامنے چند صورتیں اور مثالیں رکھتا ہوں کہ کس کس طرح سے حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے ، چنانچہ

(1)اچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا (2)کوئی کیسی ہی عمدہ کوشش کرے اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا ، پھر خود کو ماہر نقاد قرار دینا (3)ایک فیلڈ میں غلطی کرنے پر ہر فیلڈ کیلئے مِس فٹ قرار دے دینا (4)مختلف تبصرے (Comments) کرنا : تُو نہیں پڑھ سکتا ، تجھ سے نہیں ہوگا ، تیرے بس کی بات نہیں ، تم نکمے ہو ، نااہل ہو ، تمہارے دماغ میں بُھس بھرا ہوا ہے وغیرہ (5)کسی کی پہلی غلطی پر مکمل ناکام قرار دے دینا ، ایسوں کو سوچنا چاہئے کہ انسان بچپن میں پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے کے قابل نہیں ہوجاتا بلکہ گرتا ہے پھر اٹھتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ دوڑنا شروع کردیتا ہے (6)کلاس روم میں سبق سنانے میں اَٹکنے پر اسے اپنی غلطی دور کرنے کا موقع دئیے بغیر کسی اور طالبِ علم کو سبق پڑھنے کا کہہ دینا (7)کسی کی معذرت (Excuse) قبول نہ کرنا بلکہ بہانہ قرار دے دینا (8)دوسروں کے سامنے اپنے بچّے کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا (9)کسی کا دوسروں سے بِلاضرورت تقابل (Compaer) کرکے حوصلہ شکنی کرنا کہ دیکھو وہ کیسی کیسی کامیابیاں سمیٹ رہا ہے اور تم ٹھہرے نکمے کے نکمے! (10)ایک ہی طرح کی کارکردگی دکھانے والے دو افراد میں سے صرف ایک کی تعریف و تحسین کرنا (11)امتحان میں فیل ہونے والے کو کہنا کہ اور کرو اِدھر اُدھر کے کاموں میں وقت ضائع ، یہ تو ہونا ہی تھا! (12)مصیبت زدہ کی دِلجوئی کرنے کے بجائے اسی کو اس کا ذمّہ دار ٹھہرانا شروع کردینا ، جیسے کسی نے اپنے بُخار کے بارے میں بتایا تو فوراً تبصرہ کرنا کہ اور کھاؤ گول گپے! کسی نے بائیک چوری ہونے کا بتایا تو کہنا کہ ڈبل لاک نہیں لگایا قصور تمہارا اپنا ہے! (13)ہر غلطی پر پُرانی غلطیوں کی لسٹ گنوا دینا (14)کسی کے ناکام ہونے پر اپنی کامیابی کی داستانیں سنا سنا کر طعنے دینا (15)کسی کی اچھی کارکردگی توجہ سے نہ سننا اور نہ ہی اس پر مثبت کمنٹس دینا (16)ہمدردی ، خیرخواہی اور مدد کرنے والے کا شکریہ ادا نہ کرنا (17)کسی کے منہ پر اس کے شعبے کو غیر اہم قرار دینا (18)اس کے موجودہ کام کو بے کار کہنا (19)کسی کی صلاحیتوں کا اعتراف نہ کرنا (20)کسی کی کامیابی پر خوشی کے اظہار کے بجائے سرد مہری دکھانا  (21)بچّے کو نیا تجربہ کرنے سے ڈرا دینا  (22)کسی سے اہم بات کے دوران فون پر یا کسی اور کے ساتھ غیر اہم باتوں میں مصروف ہوجانا(23)مشورہ دینے پر مذاق اڑانا (24)اہم صوتی پیغام (Voice Message) کا رپلائی نہ دینا وغیرہ۔ اس طرح کے بہت سے انداز اور رویّے ہیں جو خود ہماری ذات میں یا ہمارے اِردگرد پائے جاتے ہیں۔ آئیے! میں آپ کو حوصلہ شکنی کے نقصان پر مشتمل سچی حکایت اپنے الفاظ میں سناؤں :

حوصلہ شکنی کا پچھتاوا : حیدر آباد کے ایک نوجوان نے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے اسلامی طریقوں کے مطابق زندگی گزارنا شروع کی ، نمازوں کی پابند ی کرنے لگا ، اس کے چہر ے پر سنّت کے مطابق داڑھی شریف سجنے لگی ، سَر پر عمامہ شریف نظر آنے لگا ، قراٰنِ پاک پڑھنا سیکھنے لگا۔ اُس کا تعلُّق ایک ماڈَرن اور امیر گھرانے سے تھا ، گھر والوں کو اس کے رہن سہن کی تبدیلی گوارہ نہ ہوئی ، چنانچہ اس کی مخالفت کی جانے لگی ، طرح طرح سے اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ، اس پر پُرانی زندگی کا انداز اپنانے کے لئے پریشر ڈالا جاتا۔ وہ کبھی کبھار بے بس ہوکر فریاد کرتا کہ مجھے اس دینی ماحول سے دُور نہ کرو ورنہ پچھتاؤ گے ، مگر اُس کی کسی نے نہ سُنی۔ مخالَفت کا یہ سلسلہ تقریبًا تین سال تک چلتا رہا بِالآخِر تنگ آ کر اُس نے گھر والوں کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور دینی ماحول سے دور ہوگیا ، نمازوں سے دور ہوگیا ، چہرے سے داڑھی شریف بھی منڈوا دی اور پھر سے ماڈرن ہوگیا۔ بڑے بھائی چُونکہ ڈاکٹر تھے اِس لئے اِسے بھی ڈاکٹر بننے کے لئے ایک میڈیکل کالج میں داخِل کروا دیا گیا۔ جہاں وہ ہاسٹل میں مافیا کے ہتھے چڑھ گیا اور نشہ کرنے لگا ، بات اتنی بڑھی کہ وہ بیمار ہوگیا۔ گھر والے گھبرا کر اُسے واپَس حیدر آباد لے آئے۔ والِد صاحِب نے علاج پر لاکھوں روپے خرچ کر ڈالے مگر نہ صحتیاب ہوا نہ ہی سُدھرا بلکہ اب وہ ہیروئن کا نَشہ کرنے لگا۔ کثرت سے نشہ کرنے کی وجہ سے وہ سُوکھ کر کانٹا ہو گیا ، دانتوں کی سفیدی غائِب ہوکر ان پر کالک کی تہ چڑھ گئی اور اُس کی حالت پاگلوں کی سی ہوگئی۔ جبکہ دوسری طرف اس کے والد صاحب کو خوش قسمتی سے دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول مل گیا۔ ان کو یہ پچھتاوا ہے کہ کاش! اُس وقت مجھے دعوتِ اسلامی کی اہمیت سمجھ میں آ جاتی اور میں اپنے بیٹے کو دعوتِ اسلامی سے دُور نہ کرتا تو شاید آج مجھے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ (دیکھئے : نیکی کی دعوت ، ص 546)

اپنے گریبان میں جھانکئے : ہمیں غور کرنا چاہئے کہ آج تک ہماری وجہ سے کتنے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو چکی ہے بلکہ بعضوں کی دل آزاری بھی ہوئی ہو گی ، چلئے! “ جب آنکھ کھلی ہوا سویرا “ اب تو جاگ جائیے اور اپنا حوصلہ شکن رویّہ تبدیل کرلیجئے ، جن کا دل دُکھایا ان سے معافی مانگ لیجئے۔ بالخصوص وہ حضرات جن کے ماتحت (Subordinate) کچھ نہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جیسے ماں باپ ، استاذ ، مرشِد ، نگران ، سپر وائزر ، منیجر ، باس ، پرنسپل ، انہیں خوب احتیاط کرنی چاہئے کہ ان کی بات زیادہ اثر کرتی ہے۔ انٹرنیشنل اسلامک اِسکالر امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  نے اساتذہ (Teachers) کو نصیحت فرمائی ہے کہ کسی طالبِ علم سے یہ نہ کہیں کہ “ تم نہیں پڑھ سکتے۔ “ پھر وہ واقعی ہی نہیں پڑھ سکے گا کیونکہ وہ سوچے گا کہ جب مجھے پڑھانے والے استاذ نے یہ کہہ دیا تو میں کبھی نہیں پڑھ سکتا۔

غلطی کی نشاندہی کا طریقہ : حوصلہ شکنی سے بچنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو سمجھایا ہی نہ جائے یا اس کی غلطی کی نشاندہی نہ کی جائے کہ وہ آئندہ اس سے بچ سکے ، اس کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ پہلے اس کے کام کی سچی خوبیاں شمار کروا کر حوصلہ افزائی کردی جائے پھر مناسب الفاظ میں خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کردی جائے جیسا کہ امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کا حسین انداز ہے۔

کس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے؟ اگرکوئی بُرا کام کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کریں اور تھوڑا سختی کے ساتھ سمجھائیں تاکہ وہ آئندہ اس کام سے باز رہے مثلاً بچّے نے کسی کو مارا ، گالی دی یا اسکول میں دوسرے بچّے کی کوئی چیز چُرا لی تو والدین کو چاہئے کہ وہ اس کا نوٹس لیں تاکہ بچّہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرے۔ اگر ابھی بچّے کی غلطی نظر انداز کردی تو وہ آئندہ اس سے بڑی بڑی غلطیاں کرسکتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جب چٹان سے پانی رسنے لگے تو ہاتھ کا انگوٹھا رکھ کر روکا جاسکتا ہے لیکن اگر وہ چشمہ بن جائے تو چاہے ہاتھی کا بچّہ اس کے منہ پر بٹھا دیں وہ نہیں رکے گا۔

حوصلہ شکنی کا رِپلائی : اب رہا یہ سُوال کہ جس کی حوصلہ شکنی کی گئی وہ کیا کرے؟ اس کا جواب طویل ہے ، جسے اسی مضمون کی دوسری قسط “ حوصلہ شکنی کا جواب “ میں پیش کروں گا ، اِنْ شآءَ اللہ۔ مگر اس کیلئے آپ کو آئندہ مہینے کے “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ کا انتظار کرنا ہوگا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* اسلامک اسکالر ، رکن مجلسالمدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر) کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code