ننھے میاں کی کہانی
مال کا مَیل
* عالیشان مصطفی ٰعطاری مدنی
ماہنامہ مارچ2022ء
ننھے میاں دادا کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد بازار گئے۔ بازار میں دادا ایک مرغی والے کی دکان پر پہنچے ، ریٹ لسٹ پڑھنے کے بعد پنجرے میں موجود ایک مرغی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : سلیم بھائی! یہ والی مرغی تول دیں ، دوکاندار نے مرغی تولی جوکہ2500 گرام یعنی ڈھائی کلو کی تھی اور پھر اسے ذبح کرکے اس کے اندر سے کچھ چیزیں نکال کر باہر پھینک دیں اور گوشت کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بنا دیں ، دادا نے پیسے دیتے ہوئے کہا : سلیم بھائی! اب ذرا دیکھئے گا کہ کتنا وزن ہے؟ سلیم بھائی نے چیک کیا تو اب اس کا وزن صرف 1750 گرام یعنی پونے دو کلو تھا۔ ننھے میاں یہ سب دیکھ رہے تھے اور اس معاملہ پر حیران بھی تھے کہ 2500 گرام سے کس طرح 750 گرام کم ہوئے ؟
جب بازار سے گھر واپسی ہوئی تو دادا نے کہا : ننھے میاں! یہ گوشت اپنی امّی کو دے دو اور کہنا کہ خوب صاف کرکے پکائیں۔
ننھے میاں امّی کو گوشت دے کر واپس آئے اور دادا کے پاس بیٹھ کر سوال کرنے لگے : دادا آپ نے بازار سے جو مرغی خریدی تھی وہ 2500 گرام تھی لیکن ہم گوشت 1750 گرام
کیوں لائے ، پورا کیوں نہیں لائے؟
دادا نے سمجھاتے ہوئے کہا : بیٹا گوشت کے ساتھ جو کھال اور دوسری چیزیں تھیں وہ کھانے کی نہیں تھیں لہٰذا انہیں نکال کر پھینک دیا اور صاف صاف گوشت کی بوٹیاں بنا دیں۔ اس میں حیرانی اور پریشانی کی کوئی بات نہیں کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جب ہم بازار سے تربوز لاتے ہیں تو اس سے کتنا موٹا موٹا چھلکا اتار کر پھینک دیتے ہیں ، کیا ہمیں اس پر افسوس ہوتا ہے؟ نہیں نا! اسی طرح ہم خوشی خوشی کیلے اور خربوزے وغیرہ پر سے بھی چھلکا ہٹادیتے ہیں اور ہمیں اس پر کوئی افسوس نہیں ہوتا۔
جب دادا نے یہ دیکھا کہ ننھے میاں کو یہ بات سمجھ آگئی کہ “ گندگی کو دور کیا جاتا ہے اور ستھرے یعنی پاک چیز کو استعمال میں لایا جاتا ہے “ تو بات کو مزید آگے بڑھایا اور کہنے لگے : کل مسجد میں امام صاحب بتا رہے تھے کہ زکوٰۃ مسلمانوں پر فرض ہے۔ یہ مال کا میل ہوتا ہے لہٰذا جو شخص بھی اپنے مال سے چالیسواں حصہ نکالے گا اس کا مال پاک و صاف ہو جائے گا۔ ننھے میاں نے دادا کی بات سُن کر پوچھا : کیا زکوٰۃ مال کا میل ہے؟
دادا : جی ہاں!زکوٰۃ کو لوگوں کے اموال کا میل قراد دیا گیا ہے اس کے ذریعے ان کا بقیہ مال پاک ہوجاتا ہے البتہ ضرورتاً زکوٰۃ لینا فقراء اور دیگر مستحقین کے لیے حلال ہے۔
اب ننھے میاں کو زکوٰۃ کے بارے میں مزید جاننے کا شوق پیدا ہوا تو دادا سے کچھ سوالات کئے۔ چونکہ دادا کُتب کا مطالعہ کرتے ، علمائے کرام کی صحبت میں بیٹھتے اور مدنی مذاکرہ سننے کے پابند تھے لہٰذاوہ ننھے میاں کے جوابات دینے لگے۔
ننھے میاں : زکوٰۃ کب فرض ہوئی؟
دادا : زکوٰۃ دو ہجری میں روزوں سے قبل فرض ہوئی۔
ننھے میاں : اگر کوئی زکوٰۃ نہ دے تو کیا ہوگا؟
دادا : زکوٰۃ کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کرنے والا گنہگار اور اس کا انکار کرنے والا مسلمان نہیں رہے گا بلکہ کافر ہوجائے گا۔
ننھے میاں : زکوٰۃ ادا کرنے کے کیا کیا فائدے ہیں؟ کچھ بتائیں۔
دادا : (1)زکوٰۃ دینا بندے کے اسلام کو پورا کرتا ہے۔
(2)زکوٰۃ کی ادائیگی سے مال کی حفاظت ہوتی ہے۔
(3)زکوٰۃ ادا کرنے سے مال کی خرابی دور ہوجاتی ہے۔
ننھے میاں : زکوٰۃ نہ دینے کے کچھ نقصانات بھی بتا دیں۔
دادا : (1)وہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے جو پہلے ذکر ہوئے۔
(2)زکوٰۃ نہ دینے والے پر لعنت کی گئی ہے جیسا کہ حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں : زکوٰۃ نہ دینے والے پر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لعنت فرمائی ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ ، 4 / 8 ، حدیث : 2250)
(3)مال کی بربادی کا سبب ہے۔ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : خشکی وتری میں جو مال ضائع ہوا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوا ہے۔ (مجمع الزوائد ، 3 / 200 ، حدیث : 4335)
عشا کی نماز کا وقت ہونے لگا تو دادا نے اپنی باتوں کا سلسلہ وہیں ختم کیا اور ننھے میاں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ کر کہا : ننھے میاں آج کے لئے اتنی باتیں کافی ہیں انہیں اچھی طرح یاد رکھیں اور لوگوں کو بھی بتائیں ثواب ملے گا۔
ننھے میاں : میں اچھی طرح یاد رکھنےکی کوشش کروں گا دادا جی!
دادا : تو اب چلیں نماز کے لئے مسجد کی طرف۔
ننھے میاں : جی دادا! ابھی امی کو خبر کر کے آتا ہوں کہ دادا کے ساتھ نماز کے لئے جا رہا ہوں۔
دادا : ٹھیک ہے۔
مزید معلومات کےلئے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب “ فیضان ِ زکوٰۃ “ اور “ احکام زکوٰۃ “ کا مطالعہ کیجئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ ، ہند
Comments