حسنِ اخلاق کا مطلب صرف مُسکرا  کر ملنا نہیں !

حُسنِ اَخلاق کا مطلب صرف مُسکراکر ملنا نہیں !

از : شیخِ طریقت ، امیراہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : بیشک تم میں سے مجھے سَب سے زیادہ پسند اور آخرت میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو تم میں بہترین اَخلاق والا ہوگا اور تم میں سے مجھے سب سے زیادہ ناپسند اور آخرت میں مجھ سے زیادہ دُور وہ شخص ہوگا جوتم میں بَد تر ین اَخلاق والا ہوگا۔  ( مسند احمد ، 6 / 220 ، حدیث : 17747 )

اَخلاق خُلْق کی جمع ہے ، خُلْق کا معنیٰ عادت ، خَصلت اور طورطریقہ ہے جبکہ اچھے رویّے یا اچھے برتاؤ یا اچھی عادات کو حُسنِ اَخلاق کہا جاتا ہے۔ آج کل جو کسی سے مُسکرا کر مل لیتا ہے یا اچھے انداز سے گفتگو کرلیتا ہےتو لوگ صرف اُسی  کو حُسنِ اخلاق والا سمجھتے ہیں ، اچھے انداز سے گفتگو کرنا اور مُسکراکر ملنا اگرچہ اچھی بات ہے لیکن حُسنِ اَخلاق صرف اِسی کا نام نہیں بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ”حُسنِ اخلاق“ میں شامل ہیں ، چنانچہ نماز و زکوٰۃ اور دیگر فرائض و واجبات پر عمل ، ہمدردی ، دلجوئی ، حوصلہ افزائی ، عاجزی ، اخلاص وغیرہ  حُسنِ اخلاق میں شمار ہوں گے جبکہ فرائض و واجبات کو چھوڑنا اور دیگر گناہ جیسے جھوٹ ، دھوکا ، عیب تلاش کرنا ، غیبت ، لگائی بجھائی ، دوسروں کی تذلیل و تحقیر ،  بلاوجہ غصہ وغیرہ بداخلاقی کی مثالیں ہیں۔ حضرت الحاج مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اچھی عادت سے عبادات اور معاملات دونوں دُرست ہوتے ہیں ، اگر کسی کے معاملات تو ٹھیک مگر عبادات درست نہ ہوں یا اس کے اُلٹ ہو تو وہ اچھے اخلاق والا نہیں۔ خُوش خُلقی بہت جامع صفت ہے کہ جس سے خالق اور مخلوق سب راضی رہیں وہ خوش خُلقی ہے۔ ( مراٰۃ المناجیح ، 6 / 652 )  

کسی کے ساتھ سفر کرنے یا کاروباری معاملات کرنے یا پڑوس میں رہنے سے بھی اس کے حُسنِ اخلاق کا پتا چل سکتا ہے ، چنانچہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو کسی کی تعریف کرتے ہوئے سنا تو اس سے دَریافت کیا : کیا تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔فرمایا : کیا خرید و فروخت اور دِیگر مُعامَلات میں اس کے ساتھ تمہارا کوئی واسِطہ رہا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔فرمایا : کیا صبح شام اس کے پڑوس میں گزارتے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں۔ فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے سِوا کوئی معبود نہیں ، میرے خیال میں تم اسے نہیں جانتے۔ ( احیاء العلوم ، 3 / 198 )

اللہ پاک ہمارا ظاہر و باطن ایک جیسا کر دے ، ہمیں حُسنِ اَخلاق والا بنائے اور ہم سے ہمیشہ کے لئے  راضی ہو جائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ : یہ مضمون 29 رمضانُ المبارک 1441ہ مطابق 22مئی  2020ء کو بعد نمازِ تراویح ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرنے کے بعد امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے نوک پلک درست کرواکے پیش کیا گیا ہے۔


Share