فریاد
حسینی کردار اپنایئے
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2023ء
نامِ ” حُسین “ لیتے ہی اس نام والی عظیم شخصیت سے جڑی چند اہم چیزیں ہمارے ذہنوں میں گھومنا شروع ہوجاتی ہیں ، مثلاً نواسۂ رسول ، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پھول ، جنتی نوجوانوں کےسرداراور جگر گوشۂ زہرہ بتول ، بہادر باپ کے بہادر بیٹے ، ہر معاملے میں اپنے رب کی رضا چاہنے والے ، دینِ اسلام کے لئے اپنا سب کچھ لُٹانے والے ، حق کا بول بالا کرنے اور باطل کے سامنے نہ جھکنے والی ایک بے مثال شخصیت ، اپنے رات دن ربِّ کریم کی اطاعت و عبادت میں گزارنے والے اللہ پاک کے ایک خاص بندے ، میدانِ جنگ ہو یا پھر میدانِ اَمن وعمل دونوں ہی میں جن کا کردار ناقصوں کو کامل ہونے کی دعوت دیتا اور کامِلوں کی بھی راہنمائی کرتا نظر آتا ہے۔
دنیا کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر میدانِ جنگ کا میسر آنا اور اس میں حسینی کردار کا ادا کرنا اگرچہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ مگر میدانِ امن و عمل اب بھی ہر ایک کے لئے خالی ہے ، ہر ایک اب بھی عملی طورپر حسینی کردار ادا کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ، بلکہ ہر ایک کو ادا کرنا بھی چاہئے کہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور مطلوبِ ِشریعت بھی۔
حسینی کردار کی برکت سے دشمن مُحِب بن گیا : ایک مرتبہ ایک شخص جو کہ مولائے کائنات حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم سے بغض رکھتا تھا ، اس نے حضرت سَیِّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے انہیں اور ان کےوالدِ محترم کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُس کو جھڑکنے یا غیر مناسب جوابی کارروائی کرنے کے بجائے اَعُوْذُ بِالله اور بِسْمِ اللہ پڑھنے کے بعد یہ آیاتِ مبارکہ تلاوت فرمائیں : ) خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ ( ۱۹۹ ) وَاِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِؕ-اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ( ۲۰۰ ) اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ ( ۲۰۱ ) ( ترجَمۂ کنز العرفان : اے حبیب ! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرلو۔ اور اے سننے والے ! اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ تجھے ابھارے تو ( فوراً ) اللہ کی پناہ مانگ ، بیشک وہی سننے والا جاننے والا ہے۔ بیشک پرہیزگاروں کو جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آتا ہے تو وہ ( حکمِ خدا ) یاد کرتے ہیں پھر اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔[1] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے ارشاد فرمایا : اپنے اوپر سے بوجھ ہلکا کر ! میں اللہ پاک سے اپنے لئے اور تیرےلئے بخشش کا سوال کرتا ہوں اور پھر آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی۔ اُس شخص کے ساتھ آپ اِس قدر عفو و درگُزر ، نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آئے کہ اُس کی دشمنی یَک دَم محبت میں بدل گئی اور وہ یہ کہنے لگا : مَا عَلَى وَجْهِ الْاَرْضِ اَحَبُّ اِلَيَّ مِنْهُ وَمِنْ اَبِيهِ یعنی رُوئے زمین پر حضرت سَیِّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے والدِ محترم سے زیادہ پسندیدہ ( اب ) میرے نزدیک کوئی نہیں۔[2]
جنتی نوجوانوں کے سردار کی کثرتِ عبادت : شہزادۂ امام عالی مَقا م حضرت امام زین العابدین رحمۃُ اللہ علیہ اپنے والدِ محترم کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں : کانَ یُصَلِّی فِی الْیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ اَلْفَ رَکْعَۃً یعنی امامِ عالی مَقام رضی اللہ عنہ دِن اور رات میں ہزار رکعتیں ( نوافل ) ادا فرمايا كرتے تھے۔[3]
میرے امام بھلائی کےسارے ہی کام کثرت سے کرتے : حضرت امام ابو الحسن علی بن محمد بن محمد عِزّالدّين ابن اثیر جزری رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرتِ سَیِّدُنا امام حُسین رضی اللہ عنہ روزہ ، نماز ، حج ، صدقہ اور بھلائی کے تمام کام کثرت سے کرتے تھے۔ آپ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے 25 حج پیدل ادا کئے۔[4]
زندگی کی آخری نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا کی : 61 ہجری دس محرم شریف کی صبح میرے آقا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کی آخری نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا کی۔[5]
خون کے پیاسوں کے بھی خیر خواہ : عاشورہ کے دن میرے امام نے یزیدیوں کے سامنے ایک خطبہ دیا جس کے ذریعے انہیں اپنی آخرت کی بربادی سے ڈرایا ، آپ نے ان سے ارشاد فرمایا : ” خونِ ناحق حرام اور اللہ کے غضب کو ابھارنے والا ہے ، میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ تم اس گناہ میں مبتلا نہ ہو ، میں نے کسی کو قتل نہیں کیا ، کسی کا گھر نہیں جلایا ، کسی پر حملہ آور نہیں ہوا۔ اگر تم اپنے شہر میں میرا آنا نہیں چاہتے ہوتو مجھے واپس جانے دو ، تم سے کسی چیز کا طلب گار نہیں ، تم کیوں میری جان کے درپے ہو اور تم کس طرح میرے خون کے الزام سے بری ہوسکتے ہو ؟ روزِ محشر تمہارے پاس میرے خون کا کیا جواب ہوگا ؟ “[6] مگران نصیحت والی باتوں کا ان بدبختوں پر کچھ بھی اثرنہ ہوا بلکہ وہ اپنی آخرت کو برباد کرنے پر ہی اڑے رہےاور بالآخر انہوں نے بی بی فاطمہ کے شہزادے کو شہید کرکے اپنی آخرت برباد کرہی ڈالی۔
میری تمام عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت سے فریاد ہے ! حسینی کردار پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کردار کا بھی جائزہ لیجئے ، امامِ عالی مَقام تو خود کو بُرا بھلا بولنے والوں کو معاف کردیں ، دشمنوں کا بھی بھلاہی چاہیں جبکہ ہم اپنے مخالفین کے گلے پڑجائیں اور انتقام کی آگ میں جل کر انہیں نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنی بھی دنیا اور آخرت برباد کردیں ، امام حسین تو وقت پر فرائض و واجبات کو ادا کریں اور کثرت سے نفل نمازیں بھی پڑھیں بلکہ بھلائی کے سارے کام ہی کثرت سے کریں ، دشمنوں کے گھیرے میں رہ کر بھی نمازیں جماعت سے ادا کریں اور مُحِبّانِ حسین اپنی انمول زندگی نیکیوں سے دُور اور گناہوں میں مصروف رہ کر گزاریں ، فرائض کی ادائیگی کو اہمیت دینے کے بجائے دنیا کمانے اور دنیا بنانے کو ہی اہم قرار دیں ، امامِ مظلوم تو دین کی سَربلندی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیں جبکہ ہم دنیا کی ذلیل دولت کے حصول کی خاطر دینِ اسلام کے ہی احکام کی دھجیاں اڑادیں ، شہیدِ کربلا تو پوری داڑھی اور عمامے والے تھے اور ہم داڑھی جیسی عظیم سنّت کو منڈوا کر نالیوں میں بہادیں ، کیا محبتِ حسین اسی کا نام ہے ؟
اللہ پاک ہمیں حسینی کردار کو حقیقی معنوں میں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
[1] پ9 ، الاعراف : 199تا 201
[2] تفسیرالبحر المحیط ، 4 / 446- تفسیر قرطبی ، 4 / 250
[3] عقد الفريد ، 3 / 115
[4] اسد الغابۃ ، 2 / 28-تاریخ ابن عساکر ، 14 / 180
[5] الکامل فی التاریخ ، 3 / 417
[6] سوانح کربلا ، ص137۔
Comments