ہماری کمزوریاں
پریشان کرنے والے سوالات
( Irritating Questions )
*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2023
حضرت امام محمد بن سیرین رحمۃُ اللہ علیہ جو خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے بہت مشہور اور پُرانے عالمِ دین ہیں ، انہوں نے ایک شخص سے پوچھا : کیا حال ہے ؟ جواب ملا : ( بہت بُرا حال ہے کہ ) بال بچوں والا ہوں اور جیب خالی ہے ، اوپر سے 500 دِرہم کا قرضداربھی ہوں ، یہ سُن کر امام ابنِ سیرین اپنے گھر تشریف لائے ، ایک ہزار دِرہم لے کر اُس پریشان حال شخص کے پاس پہنچے اور سارے درہم اُسے دیتے ہوئے فرمایا : 500 دِرہم سے قَرض ادا کیجئے اور 500 گھر کے خَرچ میں اِستِعمال کرلیجئے۔ اس کے بعد خود سے وعدہ کیا کہ کسی سے حال نہیں پوچھوں گا۔آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ اس کا جواب حضرت امام محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کیمیائے سعادت میں یہ دیا : ( اس لئے کہ ) اگرحال پوچھنے کے بعد بھی میں نے اس کی مدد نہ کی تو حال پوچھنے کے معاملے میں ( مَعاذَ اللہ ) منافِق ٹھہروں گا۔ ( کیمیائے سعادت1 / 408 ، ملخصاً )
یہ سوچ انہی بزرگوں کا حصہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہمدرد بن کر کسی کا حال پوچھا ہے تو پریشان حال ہونے کی صورت میں اس کی حالت بہتر بنانے میں مدد بھی کی جائے ، ورنہ کہیں منافقت نہ ہوجائے کہ بظاہرہم اس کے ہمدرد بنیں لیکن دل میں اس کے لئے کوئی ہمدردی نہ ہو ۔
آج کل ہم لوگ بھی ایک دوسرے سے حالات کے بارے میں مختلف سوالات پوچھتے ہیں ، جن کی کئی صورتیں بنتی ہیں جیسے اگر سوال برائے سوال ہے تو نہ پوچھنا بہتر ہے۔ اگر یہ مقصد ہے کہ اگر وہ کسی مصیبت ، تکلیف یا پریشانی میں ہو تو اسے تسلی دی جاسکے یا اس کی مدد کی جاسکے ، یہ مقصد بہت اچھا ہے اور اسلامی بھائی چارے کا تقاضا بھی ! لیکن بہت مرتبہ ہم ایسے سوالات پوچھتے ہیں اور بار بار پوچھتے ہیں جو بظاہر محبت ، خلوص ، ہمدردی اور خیرخواہی کی پیکنگ میں ہوتے ہیں لیکن ان کا انداز یا موقع ایسا ہوتا ہے کہ وہ سوالات سامنے والے کے لئے پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں ، اس کے زخموں کو تازہ کردیتے ہیں یا محرومیوں کا احساس بڑھادیتے ہیں یا اس کی مایوسی میں اضافہ کردیتے ہیں ، لیکن ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا کیونکہ ہم تو ”ویسے ہی“ پوچھ رہے ہوتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں اس پر کیا گزر رہی ہے ؟ یا یہ سوال مجھ سے پہلے کتنے لوگ اس سے پوچھ چکے ہیں ؟ اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ، یوں ہم سوال کرنے کو اپنا حق سمجھ کر خود کو کنٹرول نہیں کرتے ۔آپ شایدحیران ہورہے ہوں کہ صرف ایک سوال پوچھنے پر اتنا کچھ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس کا جواب آپ کو نیچے دی گئی لسٹ میں مل جائے گا ، اِن شآءَ اللہ
دوسروں کو پریشان کرنے والے28 سوالات
( 1 ) جسے اسکول ، کالج ، مدرسے یا جامعہ میں کوشش کے باوجود داخلہ نہ مل رہا ہو اس سے پوچھنا : آخر تمہیں داخلہ کیوں نہیں مل رہا ؟
( 2 ) امتحان میں جس کے نمبر کم آئیں یا جاب وغیرہ میں ترقی نہ ہوسکے اس سے پوچھنا : فلاں تم سے آگے کیوں بڑھ گیا ہے ؟
( 3 ) کسی کی جسمانی کمزوری کو دیکھ کر پوچھنا : ’’شکل سے ہی بیمار لگ رہے ہو ، اچھی خوراک کیوں نہیں کھاتے ، پھلوں کا جوس کیوں نہیں پیتے ؟ ‘‘حالانکہ بعض اوقات اس بے چارے کے پاس دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر کھانے کے پیسے نہیں ہوتے ، وہ گوشت یا پھل کہاں سے خریدے گا ؟ پھر اگر وہ یہ جواب دے دے کہ آپ لادیا کریں میں کھالیا کروں گاتو شاید آپ ناراض ہوجائیں۔
( 4 ) ماں باپ اپنے بچّوں کو دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں ، وہ انہیں بُری باتوں یا اور نقصان دینے والے کاموں سے روک ٹوک بھی کریں گے ، ایسے میں بچوں کے سامنے ہی والدین سے پوچھنا کہ ’’آپ اپنے بچّوں پر اتنی سختی کیوں کرتے ہیں ؟ ‘‘ ایسے میں شاید بچے تو آپ کی حمایت پر خوش ہوں لیکن والدین کے دل پر کیا گزرے گی ؟ یہ وہی سمجھ سکتا ہے جو اس کیفیت سے گزرا ہو۔
( 5 ) کسی بچے سے یہ پوچھنا : ’’ تمہارے امی ابولڑتے کیوں رہتے ہیں ؟ ‘‘وہ بے چارا کیا جواب دے گا البتہ احساس کمتری میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
( 6 ) کسی اسٹوڈنٹ سے یہ پوچھنا کہ پرنسپل / ناظم تمہارے اتنا خلاف کیوں ہے ؟ اسے پرنسپل کا دشمن بنا سکتا ہے۔
( 7 ) سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والے سے عید / شادی پر پوچھنا ابھی تک نئے کپڑے کیوں نہیں سِلائے ؟ اس کی غریبی پر ہنسنے کے مترادف ہے۔
( 8 ) رشتے سے انکار کرنے والے سے پوچھنا : ’’آخر تم رشتے کے لئے ہاں کیوں نہیں کررہے ؟ ‘‘بعض اوقات ایسی وجہ ہوتی ہے کہ اگر وہ کھل کر بتادے تو شاید آپ ناراض ہوجائیں ۔
( 9 ) طویل بے روزگاری کے بعد کسی کو نوکری ملنے پر پوچھنا : ’’ٹریٹ ( پارٹی ) آج دے رہے ہو یا کل ؟ ‘‘جناب ! ہوش کیجئے بے چارے کوآج نوکری ملی ہے تنخواہ نہیں ، اگر وہ آپ کے اس سوال کا کھل کر جواب دے دے تو آپ کا دل تنگ ہوجائے گا۔
( 10 ) کسی کے یہاں چوری ہوئی اس نے پورا زور لگا لیا لیکن نہ تو چور پکڑا گیا اور نہ ہی چوری کا سامان واپس ملا ، ایسے کو بار بار پوچھنا : ’’چوری ہونے والا سامان واپس ملا ؟ ‘‘یا ’’اب تک کیوں نہیں ملا ؟ ‘‘
( 11 ) یہ پوچھنا : ’’تمہارا وزن اتنا کیوں بڑھ گیا ہے ؟ اسے کم کیوں نہیں کرتے ؟ ‘‘ہوسکتا ہے وہ کوشش کرکے تھک گیا ہو ، خود پریشان ہو ، ایسے میں ہر دوسرے شخص کا وزن کے بارے میں پوچھنا اسے مزید پریشان کرسکتا ہے ، اس کا حوصلہ توڑ سکتا ہے۔
( 12 ) ’’اتنے عرصے سے بیمار ہو کسی اچھے اسپتال سے علاج کیوں نہیں کرواتے ؟ ‘‘ذرا سوچیں کیا اس کا دل نہیں چاہتا ہو گا وہ مکمل صحت یاب ہوجائے لیکن اچھا اور مہنگا اسپتال تو ایک طرف رہا ، اس کے پاس محلے کی سستی ڈسپنسری سے علاج کی رقم نہ ہو۔
( 13 ) ڈاکٹر تو کب کا بول چکا تم نے ابھی تک آپریشن کیوں نہیں کروایا ؟
( 14 ) ناکامی کا صدمہ اٹھانے والے سے پوچھنا : بار بار ناکام کیوں ہوجاتے ہو ؟
( 15 ) ’’تم نے ابھی تک قربانی کا جانورکیوں نہیں لیا ؟ ‘‘ ہوسکتا ہے کہ اس مرتبہ اس کی جیب میں گنجائش ہی نہ ہو ، ایسے میں وہ آپ کو سچا جواب دیتے ہوئے شرمائے گا۔
( 16 ) ”گرمی بہت بڑھ گئی ہے ، گھر میں اے سی کیوں نہیں لگوالیتے ؟ ‘‘اب اگر وہ ہمت کرکے یہ بول دے اے سی میں لگوا لیتا ہوں ، بِل آپ بھردیا کریں تو شاید آپ غصے میں ’’گرم‘‘ ہوجائیں۔
( 17 ) ’’کب تک کرائے کے مکان میں رہو گے اپنا ذاتی گھر کب بناؤ گے ؟ ‘‘پیارے بھائی ! کس کا دل چاہتا ہے ہر ماہ پیٹ کاٹ کر مکان کا کرایہ بھرے مالک مکان کے نخرے برداشت کرے ، اس بے چارے کو بال بچوں کی روٹی ، اسکول کی فیسیں ، بجلی گیس کے بل بھرنے دشوار ہورہے ہیں ، ایسے میں آپ بے نیازی سے ذاتی گھر نہ بنانے کی وجہ پوچھ کر اس کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں یا مرہم لگارہے ہیں !
( 18 ) ’’اس مہنگائی کے دور میں اتنی کم تنخواہ میں کیسے گزارہ کرلیتے ہو ؟ ‘‘
( 19 ) ’’بیٹی / بیٹے کی عمر نکلتی جارہی ہے ، اچھا سا رشتہ دیکھ کر اُس کی شادی کیوں نہیں کردیتے ؟ ‘‘بالکل جناب اسے تو اپنی اولاد کی عمر کا پتا ہی نہیں ، ان کی شادی ہوجانے کی زیادہ فکر اسے نہیں آپ کو ہے ، اب کیا کیا رکاوٹیں ہیں ، رشتہ نہیں مل رہا یا انتظامات کے لئے رقم نہیں ہے یہ تو وہی جانتا ہے ۔
( 20 ) بے روزگاری کا صدمہ اٹھانے والے کو آس پاس والوں کے طعنے اور طرح طرح کے سوالات سے مزید دکھی کردیتے ہیں ، جب ہر دوسرا بندہ روز پوچھے گا ’’نوکری ملی ؟ ‘‘تو اسے نفسیاتی مریض بنتے کتنی دیر لگے گی!
( 21 ) جاب کرنے والے سے ہر ایک کا یہ پوچھنا : ’’تمہاری سیلری کیوں نہیں بڑھی ؟ ‘‘ اس کے صبر کا امتحان لینے والی بات ہے ، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے دفتر کی انتظامیہ سے لڑنا بھڑنا شروع کردے کہ تم نے میری سیلری کیوں نہیں بڑھائی اور بات بڑھنے پر لگی لگائی روزی سے بھی جائے ۔
( 22 ) مناسب عمر میں مناسب رشتہ ہر ایک کو مل جائے ضروری نہیں ہوتا ، ایسے میں پُرانے کنوارے سے بار بار پوچھنا ’’شادی کب کرو گے ؟ ‘‘اسے چڑچڑا بناسکتا ہے۔
( 23 ) بعض نادان شادی کے چند دن بعد سے ہی بار بار سوال کرنا شروع ہوجاتے ہیں : خوشخبری کب سناؤ گے ؟ اب جس کے یہاں اولاد نہ ہورہی ہووہ ان کے سوالات کا کیا جواب دے ؟
( 24 ) ’’فلاں نے تمہیں شادی / دعوت پر کیوں نہیں بلایا ؟ ‘‘ کسی کو اپنے رشتہ دار یا تعلق والے سے دور تو کرسکتا ہے قریب نہیں ۔
( 25 ) ’’ہمیں دعوت پر کیوں نہیں بلایا ؟ ‘‘اب وہ آپ کویہ بتائے کہ جناب گنتی کے چند افراد کو بلایا تھا ، تو آپ بغیر گِنے اس کو سنانا شروع کردیں گے ۔
( 26 ) ’’ تمہارے شوہر تمہیں جیب خرچی کیوں نہیں دیتے ؟ ‘‘یہ سوال بیوی کو شوہر سے بدظن کرنے کے لئے کافی نہ ہو تو اپنا بھی بتادیا جاتا ہے کہ مجھے تو ماہانہ اتنے ہزار جیب خرچی ملتی ہے۔
( 27 ) سفرِ حج یا عمرہ کرنے والے سے واپسی پر پوچھنا : میرے لئے تحفہ ، آب زم زم ، کھجوریں کیوں نہ لائے ؟ ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کو دینا ہی بھول گیا ہو ، یا بہت تھوڑی سی کھجوریں لایا ہویا لایا ہی نہ ہو ، ایسے میں پوچھ پوچھ کر اسے شرمندہ نہ کریں ۔
( 28 ) یادِ مدینہ میں تڑپنے والے عاشقِ رسول کا حج یا عمرے کے لئے بُلاوا آجائے تو منہ پھاڑ کر سیدھا سوال پوچھنا : اپنے پیسوں سے جارہے ہو یا کسی نے رقم دی ہے ؟
مزید غور کرنے پر بہت سے ایسے سوالات آپ کے ذہن میں آجائیں گے ، جو آپ سے ہوتے ہوں گے یا آپ کسی سے کرتے ہوں گے یا کوئی کسی سے کرتا ہوگا ۔بہرحال ہمیں کسی سے اس قسم کے سوالات صحیح مقصد کے بغیر نہیں پوچھنے چاہئیں ورنہ تیار رہیں کہ وہ بھی اسی طرح کے سوالات آپ سے کرسکتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ’’ ایک چُپ سو سکھ ‘‘ پر عمل کرکے خود بھی سکھی رہیں اور دوسروں کو بھی سکھی رہنے دیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ
Comments