خاتم الاکابر حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی

تذکرۂ صالحین

خاتم الاکابر حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی  رحمۃُ اللہِ علیہ

*مولانا فیاض احمد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2023

سلسلۂ قادریہ کی صد یوں پرانی خانقاہ برکاتیہ علمی و روحانی خصوصیات اوراہلِ خانقاہ کی قابلِ رشک دینی خدمات کی وجہ سےبین الاقوامی شہرت رکھتی ہے ، اللہ کریم کی کرم نوازی سے اِس خانقاہ کے اِن امتیازات کانتیجہ ہےکہ برِّعظیم پاک و ہند کی ممتاز شخصیات ”برکاتی“ نسبت کواپنا اعزاز سمجھتی ہیں۔ خاندانِ برکات کےمشائخ میں ایک نام اسی خانقاہ کے ایک چشم و چراغ حضرت شاہ آل ِرسول مارہروی رحمۃُ اللہِ علیہ کا ہے۔

مختصر تعارف : آپ رجب المرجب 1209 ھ مطابق 1795ء  کو مارہرہ  ( ضلع ایٹہ ، یوپی ہند )  میں شاہ آلِ برکات ستھرے میاں صاحب کے ہاں پیدا ہوئے اور بڑے ہوکر اپنی دینی خدمات کی بدولت خاتمُ الاکابر اور قدوۃُ العارِفین جیسے القاب سے جانے گئے۔[1]

ابتدائی تعلیم و علوم ظاہری و باطنی کا حصول : حضرت آلِ رسول مارہروی رحمۃُ اللہِ علیہ کو علم و عمل میں بے مثال اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع میسر آیا ، ابتدائی تعلیم آپ نےمولانا شاہ عبدالمجید صاحب بدایونی آلِ احمدی عثمانی رحمۃُ اللہِ علیہ سےحاصل کی ، جبکہ مولاناشاہ سلامت اللہ صاحب بدایونی کشفی آلِ احمدی اور مولاناعبدالواسع  رحمۃُ اللہِ علیہما سے متوسطات کی تعلیم حاصل فرماکر کتبِ معقول و کلام وفقہ و اصول کی تعلیم حضرت مولانا شاہ نورالحق رزاقی لکھنوی رحمۃُ اللہِ علیہ سےحاصل کی اور سلسلہ رزاقیہ میں سند واجازت حاصل فرمائی۔ فقہ کی کتاب ہدایہ مولانا مفتی محمد عوض عثمانی بدایونی رحمۃُ اللہِ علیہ سے پڑھی ، حدیث مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ سے پڑھی ، اس کے علاوہ حدیث ، بعض سلسلوں ، دعاؤں اور صحاح کی سند واجازت بھی حاصل کی۔ آپ علمِ ہندسہ میں مولانا شاہ نیاز احمد فخری بریلوی رحمۃُ اللہِ علیہ اورعلمِ طب میں والدِ ماجد اور حکیم فرزند علی خان موہانی کےشاگرد ہیں۔اپنے اساتذہ کے بارے میں آپ فرماتے ہیں : اَلحمدُ لِلّٰہ فقیر کے اساتذۂ علومِ دین سب عُرَفا و کُمَلائے وقت تھے۔[2]

اچھے میاں کے جانشین : آپ حضور قبلَۂ جسم و جاں سید شاہ آلِ احمد اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ کے خاص منظورِ نظراور مرید و تربیت یافتہ و خلیفہ اعظم وسجادہ نشین ہیں۔  [3]  حضرت شمسِ مارہرہ سےآپ  کا تعلق اتنا مضبوط اور آپ  کی نسبت اتنی پختہ تھی کہ آپ کی مہر پر ”آل رسول احمدی “ کندہ  ( لکھا ہوا )  تھا۔[4]

آپ کے خلفاء : رشتہ داروں میں سے آپ کے خلفا یہ ہوئے :  ( 1 ) حضرت سید شاہ ظہور حسن قادری مارہروی  ( صاحبزادے )   ( 2 ) حضرت سید شاہ ظہور حسین قادری مارہروی  ( صاحبزادے )    ( 3 ) حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری  ( پوتے )   ( 4 ) حضرت سید شاہ ابوالحسن خرقانی  ( پوتے )   ( 5 ) حضرت شاہ مھدی حسن  ( پوتے )  ( 6 ) حضرت سید شا ہ محمد صادق  ( برادر زادے )   ( 7 ) سید شاہ امیر حسین  ( ہمشیرزادے )   ( 8 ) حضرت سید شاہ حسین حیدر  ( نواسے ) ۔ دیگر نامور خلفائے عظام :  ( 9 ) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری  ( 10 ) حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی  ( 11 ) حضرت قاضی عبدالسلام عباسی بدایونی  ( 12 ) حضرت سید شاہ تجمل حسین قادری شاہجہانپوری  ( 13 ) حضرت مولانا ضیاء اللہ خان عباسی بدایونی بریلوی۔[5]

سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطاریہ کے سینتیسویں شیخِ طریقت : خاتم الاکابر حضرت مخدوم شاہ آل رسول مارہروی رحمۃُ اللہِ علیہ آپ سلسلہ عالیہ قادریہ  رضویہ عطاریہ کے سینتیسویں امام اور شیخِ طریقت ہیں ، آپ تیرہویں صدی ہجری کی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کی کوششوں سےاسلام و مذہب اہلسنت وجماعت کو استحکام حاصل ہوا۔بڑے نڈر ، شفیق اور مہربان تھے غریبوں کی ضرورتوں کو پورا کرتے ، علومِ ظاہری وباطنی میں ماہر تھے۔آپ کے مکاشفہ میں عجیب شان تھی ، آپ اپنے اَسلاف کی زندہ وتابندہ یادگارتھے ، آپ کی شان بڑی اَرفع و اعلیٰ ہے چنانچہ امام احمد رضاخان قادری رحمۃُ اللہِ علیہ نے بزبان ِفارسی آپ کے فضائل میں 42 اشعار قلمبند فرمائے ہیں۔  [6]

سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطاریہ کے سینتیسویں ( 37ویں )  شیخِ طریقت یعنی حضرت سید آلِ رسول مارہروی  کا تذکرۂ خیر شجرہ شریف میں اعلیٰ حضرت ، امام اہلِ سنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہِ علیہ نے یوں فرمایا :

دو جہاں میں خادمِ آلِ رسولُ اللہ کر

حضرتِ آلِ رسولِ مقتدا کے واسطے

معراج کی حقیقت : بدایوں کے ایک صاحب جو آپ کے مریدِ خاص تھے۔وہ ایک مرتبہ سوچنے لگے کہ معراج شریف چند لمحوں میں کس طرح ہو گئی ؟ آپ اس وقت وضو فرمارہے تھے۔ فوراً اس سے کہا : ”میاں اندر سے ذرا تولیہ تو لاؤ ! “ موصوف جب اندر گئےتوایک کھڑکی نظر آئی۔اس جانب نگاہ دوڑائی تو کیادیکھتے ہیں کہ پُر فضا باغ ہے۔ یہاں تک کہ اس میں سیر کرتے ہوئے ایک عظیمُ الشّان شہر میں پہنچ گئے۔وہاں انہوں نے کاروبار شروع کر دیا ، شادی بھی کی اور اولاد بھی ہوئی ، یہاں تک کہ  20 سال کا عرصہ گزر گیا۔جب اچانک حضرت نے آواز دی تو وہ گھبرا کر کھڑکی میں آئے اور تولیہ لئے ہوئے دوڑے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ابھی وضو کے قطرات حضرت کے چہرۂ مبارک پر موجود ہیں اورہاتھ مبارک بھی تر ہیں۔وہ انتہائی حیران و ششدر ہوئے ، توآپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا : ”میاں وہاں بیس برس رہے اور شادی بھی کی اور یہاں ابھی تک وضو کا پانی خشک نہیں ہوا اب تومعراج کی حقیقت کو سمجھ گئے ہو گے ؟   [7]

وصیت : حضرت شاہ  آلِ رسول مارہروی سےانتقال کے وقت وصیت کرنے پر بہت اصرار کیا گیا توفرمایا : مجبور کرتے ہو تو لکھ لو ہمارا وصیت نامہ : اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْل  ( یعنی اللہ اوراس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرو ) ۔ بس یہی کافی ہے اور اِسی میں دِین ودُنیا کی فلاح ہے۔[8]

انتقال : آپ کاانتقال 18ذوالحجۃ الحرام بدھ کے دن 1292 ہجری میں ہوا۔[9]

مزار شریف : آپ کا مزار مبارکمارہرہ شریف   ( اتر پردیش ضلع ایٹہ ، یوپی ، ہند )  میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔[10]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبۃ الحدیث ، دھوراجی



[1] تذکرۂ مشائخ قادریہ رضویہ ، ص 369 ، تاریخ خاندان برکات ، صفحہ 37

[2] تذکرہ نوری ص105-106ملخصاً

[3] تذکرۂ نوری ، ص 105

[4] تذکرہ شمس مارہرہ ص 56

[5] تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ ، ص375تا376

[6] تذکرہ ٔمشائخ قادریہ رضویہ صفحہ 370

[7] تذکرہ ٔمشائخ قادریہ رضویہ صفحہ 372

[8] شرح شجرہ قادریہ رضویہ عطاریہ ، ص117

[9] تاریخ خاندان برکات ، ص46

[10] تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ صفحہ 376


Share