آخر درست کیا ہے ؟
اسلام اور محکوم طبقے ( تیسری اور آخری قسط )
*مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ جولائی2023
آٹھواں طبقہ ، مزدور :
محکوم ، مظلوم اور انسانی سماج کے پِسے ہوئے طبقات میں سے ایک طبقہ ” مزدور “ ہے۔ اِس طبقے سے کیسا ظالمانہ رویہ رکھا جاتا ہے ، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مالک ، منیجر ، منشی ، سپروائزر کی طرف سے تحقیر آمیز رویے میں بات کرنا ، بلاوجہ ڈانٹ پلانا ، بغیر کسی بات کے تکلیف میں مبتلا کرنا ، تنخواہ جو کہ اُس کا حلال حق ہے ، اُس کے لئے بار بار چکر کٹوانا ، بنیادی حقوق سلب کرنا ، محنت کا بَروقت بدلہ نہ دینا اور طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا جانا عام ہے ، جبکہ ہمارا دینِ رحمت مزدوروں کے حقوق کی ادائیگی ، محنت کا معاوضہ وقت پر دینے ، بقدرِ طاقت کام لینے ، پھر کام لینے میں بھی نرمی اور تکریمِ اِنسانیت پر مبنی رویہ اپنانے کا درس دیتا ہے ، چنانچہ مزدور و محنت کَش کی حمایت میں ، حامیِ بےکساں ، رحمتِ عالمیاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تین لوگ ایسے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے مقابلے میں ( بطورِ مدعی ) میں خود ہوں گا : ایک وہ جو میرے نام پر وعدہ کرے اور پھر وعدہ خلافی کرے۔دوسرا جو کسی آزاد شخص کو بیچ کر اس کی قیمت کھائے اور تیسرا وہ شخص کہ جس نے کسی مزدور سے کام لیا اور اس کی مزدوری نہیں دی۔ ( بخاری ، 2 / 52 ، حدیث : 2227 ) یونہی مزدور کو اُس کا حق دینے کا عظیم اور بے مثال اصول یوں بیان فرمایا : مزدور کو اُس کی اُجرت ، اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔
( ابن ماجہ ، 3 / 162 ، حدیث : 2443 )
نواں طبقہ ، غلام :
ایک عرصہ تک دنیا میں انسانی غلامی کا رواج رہا ، اُنہیں منڈیوں میں خریدا اور بیچا جاتا ، حقوق سلب اور ضائع کئے جاتے ، بہیمانہ تشدد کیا جاتا ، بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا ، معاشرے کا حقیر اور گھٹیا فرد تصور کیا جاتا ، لیکن جب آفتابِ اسلام کے انوار چمکے اور محسنِ انسانیت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے ، تو غلاموں کے ساتھ بہتر سے بہترین سلوک و تعاون کا درس دیا گیا اور غلاموں کی آزادی کو ” اصلی اور حقیقی نیکی “ قرار دیا گیا ، چنانچہ قرآن میں فرمایا : اصلی نیک وہ ہے جو اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور اللہ کی محبت میں عزیز مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اورمسافروں اور سائلوں کو اور ( غلام لونڈیوں کی ) گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرے۔ ( پ2 ، البقرۃ : 177 ) یونہی نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غلام کی آزادی پر جہنم سے آزادی کی نوید سنائی ، چنانچہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس آدمی نے کسی مسلمان کو آزاد کیا ، اللہ اس آزاد کردہ غلام کے ہر ایک عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے کے عضو کو آگ سے بچائے گا۔ ( بخاری ، 2 / 150 ، حدیث : 2517 ) بلکہ نہایت دلچسپ اور خوبصورت بات یہ ہے کہ بہت سے شرعی کفاروں میں خدا کی گرفت سے محفوظ رہنے کے لئے پروردگارِ عالَم نے غلاموں کی آزادی کو لازم قرار دیدیا جیسے قتل ، قسم ، روزوں وغیرہا کے کفارے میں۔ نیز اگر اِن غلاموں کو آزاد نہیں کیا تو پھر اِن کی عزت کرنے اور اِن کا خیال رکھنے کی نہایت تاکیدی و ترغیبی انداز میں تعلیم دی ، چنانچہ فرمایا : یہ غلام ، تمہارے بھائی ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت رکھا ہے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جس کے ماتحت اس کے بھائی کو رکھا ہو ، تو اسے چاہئے کہ وہ اُس غلام بھائی کو وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے اور اُس کو کسی ایسے کام کی ذمہ داری نہ دے ، جو اس کے لئے دُشوار ہو اور اگر ایسے کام کی ذمہ داری سونپ ہی دے تو پھر خود بھی اس کی مدد کرے۔ ( مسلم ، ص700 ، حدیث : 4313 )
دسواں طبقہ ، بیمار اور اپاہج :
یہ عالَمی حقیقت ( Universal Truth ) ہے کہ صحت و سلامتی بہت بڑی دولت ہے اور بیمار یا معذور شخص ایک تکلیف دہ احساس میں مبتلا اور بہت سی نعمتوں سے محروم ہوتا ہے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ صحت مند کے مقابلے میں بیمار اور اپاہج ایک کمزور طبقہ ہے اور یہ بات ہم بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ اسلام بے سہارا ، مظلوم ، محکوم اور کمزور لوگوں کے ہر طبقے کے حقوق بڑی تاکید اور تفصیل سے بیان کرتا ہے ، چنانچہ اسلام نے اپنے حقیقی انداز کے مطابق ، بیمار اور اپاہج کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا بلکہ بہت سے شرعی احکام میں انہیں خصوصی رعایتیں عطا فرمائیں ، چنانچہ بیمار کی خبر گیری کو جنّت کے پھل چننے کے برابر قرار دیا ، چنانچہ طبیبِ قلب و جاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرے ، تو واپس آنے تک جنت کے پھل چننے میں رہتا ہے۔
( مسلم ، ص1066 ، حدیث : 6553 )
بلکہ اسلام کے احکامِ عبادات کا مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ دینِ اسلام نے جہاں بھی عبادات کا حکم دیا ، وہاں بچّوں ، بوڑھوں اور مریضوں کی رعایت و سہولت کا بھی تاکیداً حکم دیا ہے ، چنانچہ ” نماز “ جیسے اسلام کے بنیادی رُکن کی ادائیگی میں امامِ جماعت کو حکم دیا کہ جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرے ، تو اُسے چاہئے کہ تخفیف کرے ( یعنی نماز کو مختصر رکھے ) ، کیونکہ نمازیوں میں بچّے ، بوڑھے ، کمزور اور مریض ، سب ہوتے ہیں ، البتہ جب تنہا پڑھو تو پھر جیسے مرضی پڑھو ( یعنی جتنی مرضی طویل نماز پڑھو ) ۔ ( مسلم ، ص192 ، حدیث : 1046 )
اِس مکمل کلام سے معلوم ہوا کہ دینِ اسلام حاکم کے مقابلے میں محکوم اور قوی کے مقابلے میں ضعیف کا سہارا بنتا ہے اور نسبتاً اِن دو طرح کے طبقات کےحقوق کو زیادہ بیان کرتا اور دیگر پر فوقیت دیتا ہے اور یہ عالیشان مزاجِ اسلام اِس قدر فلسفیانہ اور پائیدار عقلی بنیادوں پر استوار ہے جس کا جواب نہیں ، کیونکہ معاشرتی استحکام ، خوشحالی ، امن ، حقوق کے ضیاع سے تحفظ اور پھر بے راہ روی اور ظلم و زیادتی سے خالی معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ محکوم اور ضعیف کا ساتھ دیا جائے ، کیونکہ کوئی معاشرہ سماجی و معاشی طور پر اُس وقت تک مستحکم اور خوشحال نہیں کہا جا سکتا ، جب تک اس کے کمزور ، محروم اور پسماندہ افراد اور طبقوں کے حقوق ادا نہ کئے جائیں اور وہ لوگ معاشرے میں اپنے آپ کو محفوظ و مامون تصور نہ کریں اور کمزور طبقات کی اسلام میں اِس قدر اہمیت کیوں نہ ہو کہ شروع کلام میں ہم نے بیان کیا تھا کہ دینِ اسلام کی بنیاد ہی یہ ہے کہ اسلام خدا کا پسندیدہ کامل دین ہے جو اُس ذات کی طرف سے عطا کیا گیا ہے جو تمام کائنات اور تمام انسانوں کی خالق ہے ، وہ خدا سب کو پیدا کرنے والا بھی ہے اور پالنے والا بھی ، وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا اور اپنے بندوں پر ہمیشہ مہربان ہے ، رحمٰن و رحیم اُس کی صفات ہیں ، نیز دینِ اسلام کی آخری ، حتمی اور کامل ترین صورت پیش کرنے والے ، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں ، جنہیں خدا نے سراپا رحم و کرم ، پیکر ِ شفقت و رأفت بناکر رَحْمةٌ لِّلعَالَمِین کے منصب پر فائز فرمایا۔ لہٰذا جب دین ِ اسلام رحمٰن و رحیم خدا کی طرف سے رءوف و رحیم نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل کیا ہوا دین ہے تو مخلوقِ خدا کے لئے جس قدر مہربانی اور خیر خواہی اِس دین میں پائی جاسکتی ہے ، وہ کسی دوسرے دین ، نظام اور طریقے میں نہیں ہوسکتی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کی عظمت ، احکامِ اسلام کی حکمتیں سمجھنے کی سعادت عطا فرمائے اور تعلیماتِ اسلام کے مطابق محکوم اور کمزور طبقات کے حقوق جاننے اور بحسن وخوبی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی
Comments