سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی
شانِ حبیب بزبانِ حبیب
( ستائیسویں اور آخری قسط )
*مولانا ابوالنور راشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی2023
گذشتہ سے پیوستہ
( 51 ) اَنَا لَكُمْ مِثْلُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهٖ ترجمہ : میں تمہارے لئے ایسے ہوں جیسے باپ اپنی اولاد کے لئے۔ [1]
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ مبارک فرمان اپنے اندر جس شفقت ، محبت ، لُطف ، کرم ، فضل اور ذوق کو لئے ہوئے ہے اس کا بیان لفظوں میں ممکن ہی نہیں ہے البتہ ازدیادِ لُطف و محبّت کے لئے چند جملے ترتیب دیے جاتے ہیں۔
اس مفہوم کی روایات ” مِثْلُ الْوَالِدِ “ اور ” بمنزلۃ الْوَالِدِ “ کے الفاظ کے ساتھ کئی کتبِ حدیث میں موجود ہیں۔
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یقیناً ہمارے لئے والد کی مثل ہیں بلکہ آپ کے حقوق ہم پر والد سے بھی کہیں بڑھ کر ہیں۔ آپ سے محبت تو ہمیں اپنے والدین بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ ہے۔ آپ سے محبت حقیقت میں اللہ کریم سے محبت ہے۔ آپ اُمّت کو ہلاکت سے بچانے والے ہیں ، آپ ہی تو ہمارے اور اللہ کے درمیان واسطہ ہیں ، ہمیں اللہ کریم کا ہر حکم آپ ہی کے ذریعے تو ملا ہے۔ یوں سمجھیں کہ جیسے والد اپنی اولاد کے اچھے بُرے سب کا لحاظ کرتا ہے اور اولاد کو اس سے باخبر رکھتا ہے ، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم والد سے بھی بڑھ کر ہماری خیر چاہتے ہیں۔
آپ کا مشہور فرمان ہے کہ میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب اُس آگ نے اِردگرد کی جگہ کو روشن کر دیا تو اس میں پتنگے اور حشراتُ الارض گرنے لگے ، وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ اس پر غالب آ کر آگ میں دَھڑا دَھڑ گر رہے ہیں ، پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے ، میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں جہنّم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنّم کے پاس سے ہٹ جاؤ ! جہنّم کے پاس سے ہٹ جاؤ ! اور تم لوگ میری بات نہ مان کر ( پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح ) جہنّم میں گرے چلے جا رہے ہو۔[2]
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے لئے شفقت و عنایت اور ہماری خیر و بھلائی چاہنے میں والد سے بڑھ کر ہیں۔ آپ ہمیں وہی حکم دیتے ہیں جو ہمارے بھلے کا ہے اور اُسی سے منع فرماتے ہیں جس میں ہمارا نقصان ہو۔
عظیم محدّث شیخ عابد سندھی رحمۃُ اللہ علیہ سننِ نسائی شریف کی حدیثِ پاک کے حاشیہ میں لکھتے ہیں : حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان ” اَنَا لَكُمْ مِثْلُ الْوَالِدِ “ کا مطلب یہ کہ میں تمہیں ایسے ہی سکھاتا ہوں جیسا کہ کوئی والد اپنی اولاد کو اس کی ضرورت کی چیزیں سکھاتا ہے اور والد سکھانے میں کوئی جھجک نہیں رکھتا۔حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس فرمان کے بعد صحابۂ کرام کو استنجا کے احکام سکھائے تھے ، اس پر شیخ عابد سندھی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : کیونکہ بندہ معزّزین کی محفل و مجلس میں استنجا وغیرہ کا تذکرہ کرنے سے عموماًحیا کرتا ہے اسی لئے پیارے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمادیا کہ میں تمہارے لئے والد کی مثل ہوں ، جیسے وہ اولاد کو کچھ سکھانے میں حیا نہیں رکھتا میں بھی تمہیں سب کچھ سکھاتا ہوں۔[3]
حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : یعنی شفقت و محبت اورتعلیم میں مَیں تمہارے والد کی مثل ہوں اور ادب ، اطاعت اور تعظیم میں تم میری اولاد کی مثل ہو۔خیال رہے کہ بعض احکامِ شرعیہ میں بھی حضور ساری اُمّت کے باپ ہیں ، تمام جہان کے والد آپ کے قدم مبارک پر قربان اسی لئے ان کی بیویاں بحکمِ قرآن مسلمانوں کی مائیں ہیں کہ ان سے نکاح ہمیشہ حرام اورکسی عورت کو آپ سے پردہ کرنا فرض نہیں۔اسی لئے سارے مسلمان بحکمِ قرآن آپس میں بھائی ہیں ، کیونکہ اس رحمت والے نبی کی اولاد ہیں۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھائی کہنا حرام ہے۔[4]
شیخ ابوسلیمان حمد بن محمد الخطابی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فرمانِ مبارک ” اَنَا لَكُمْ مِثْلُ الْوَالِدِ “ مخاطبین کو اُنسیت دلانے کے لئے ہے تاکہ دین کی جو بات ابھی انہیں سکھائی جائے گی اس سے حیا نہ کریں ، جیسا کہ بچے اپنے باپ سے سیکھتے ہوئے حیا کو رکاوٹ نہیں بناتے۔ نیز اس سے یہ بھی پتا چلا کہ والد کی اطاعت واجب ہے اور والدین پر اولاد کی وہ تعلیم و تربیت واجب ہے جس کی انہیں دینی معاملے میں حاجت ہو۔[5]
علامہ عبدالرءوف مناوی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یعنی تمہیں جس تعلیم کی ضرورت ہے ، جو تم پر سیکھنا لازم ہے وہ تمہیں سکھانے میں والد کی مثل ہوں کہ جیسے باپ اولاد کو سکھاتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ نسبی باپ سے تعلیم دینے والا باپ اعلیٰ ہے۔ کہتے ہیں کہ ولادت کی دو قسمیں ہیں : عرفی ولادت یعنی نسب اور قلب و روح کی ولادت یعنی دل اور روح کو نفس کے دھوکوں اور طبعی اندھیروں سے نکالنا جیسا کہ عالم انسان کو علم سکھاتاہے۔[6]
امام محمد بن اسماعیل صنعانی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شفقت و رحمت فرمانے میں ہمارے لئے والد کی مثل ہیں نہ کہ رتبے میں ، آپ تعلیم و تربیت فرمانے والے والد ہیں اور آپ کا حق نسبی باپ سے کہیں زیادہ ہے ، آپ ہی ہیں جن کے ذریعے اللہ کریم نے بندوں کو کفر کے اندھیروں سے ایمان کے نور کی طرف نکالا۔[7]
محترم قارئین ! علم كی اہمیت ، ضرورت ، فوائد اور عظمت سے ہر عقلمند واقف و معترف ہے ، علم و ہنر سے بڑھ کر کوئی شے نہیں ، سیرت و تاریخ سے ذرہ بھر لگاؤ اور معلومات رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ لوگوں کو تعلیم و تعلم کی جانب جس قدر رسولِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے راغب فرمایا ہے اس کی کائنات بھر میں کوئی نظیر نہیں ، کہتے ہیں کہ کسی غریب کی مدد کرنی ہو تو صرف کھانا نہیں بلکہ اسے کھانا حاصل کرنے کا طریقہ سکھادو۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی اُمّت کو ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کی تعلیم دی۔ یہ آپ کی تعلیم ہی کی برکت ہے کہ ایک ایک لائن کی حدیثِ مبارکہ کی شرح میں کئی کئی صفحات لکھے گئے۔ ایک ایک فرمان سے کئی کئی شرعی مسائل مستنبط ہوئے۔
( 52 ) اَنَا اَمَنَةٌ لِاَصْحَابِي ، فَاِذَا ذَهَبْتُ اَتَى اَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ ، وَاَصْحَابِي اَمَنَةٌ لِاُمَّتِي ، فَاِذَا ذَهَبَ اَصْحَابِي اَتَى اُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ ترجمہ : میں اپنے صحابہ کے لئے امان ہوں ، تو جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ گزرے گا جس کا ان سے وعدہ ہے اور میرے صحابہ میری اُمّت کے لئے امان ہیں تو جب میرے صحابہ چلے جائیں گے تو میری اُمّت کو وہ پہنچے گا جس کا ان سے وعدہ ہے۔[8]
یہ فرمان ِ مبارک بھی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفقت و رحمت کا بیان ہے۔ حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وجود مبارک صحابہ کے لئے اور صحابہ کا وجود مبارک ہمارے لئے امان ہے۔
حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ( حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میں صحابہ کے لئے امان ہوں ) اس طرح کہ میری موجودگی میں وہ حضرات آپس کے جنگ و قتال وغیرہ آفات سے محفوظ ہیں۔
خیال رہے کہ صدیقی فاروقی زمانہ میں صحابہ میں جو امن و امان رہا وہ حضور ہی کا فیض تھا ، سورج ڈوبنے کے بہت بعد تک شفق رہتی ہے وہ سورج ہی کی روشنی ہوتی ہے ، خلافتِ عثمانی کے نصف تک امن رہی پھر دنیاوی فتنے بہت پھیلے بلکہ عثمان غنی کی شہادت سے فتنوں کا دروازہ کھل گیا۔
یعنی صحابہ کے بعد دینی فتنے اسلامی فرقے اور بدعات مسلمانوں میں بہت پھیل جائیں گی۔صحابۂ کرام کے زمانہ میں اگرچہ فتنے ہوئے مگر مسلمانوں کا دین ایسا نہ بگڑا تھا جیساکہ بعد میں بگڑا اور اب اس زمانہ کا تو پوچھنا ہی کیا ہے اللہ محفوظ رکھے۔ مَایُوعَدُوْن سے مراد ہے خیر اور خیر والوں کا اُٹھ جانا ، شر اور شر والوں کا پھیل جانا۔[9]
محترم قارئین ! رسولِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مخلوق پر اس قدر احسانات ہیں کہ ان کا بیان کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ ان کی شان تو فقط ان کا رب ہی بیان کرسکتاہے۔ صرف ایک بار کتابوں میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی لکھی ہوئی سیرت کا خاکہ ذہن میں لائیے کہ کیسے ولادت سے وصال تک ہر دَم امّت ہی کی فکر رہی ، کبھی بچوں کی تربیت کا فرمایا تو کبھی عورتوں کے حقوق کا ، کبھی غلاموں اور ماتحتوں کے حقوق پر توجہ دلائی تو کبھی مزدور اور غریب طبقے کے حقوق آشکار فرمائے ، کبھی جہنّم کے عذاب کا سن کر اُمّت کے لئے زار زار روئے تو کبھی امت کی بخشش کے لئے لمبے لمبے قیام فرمائے کہ پاؤں مبارک سوج گئے۔ طائف کا منظر دیکھیں کہ جسمِ اقدس لہو لہو ہے لیکن ظلم کرنے والوں کا پہاڑوں کے درمیان پِس جانا گوارا نہیں ، میدانِ اُحد کا منظر دیکھیں کہ چہرہ مبارک لہولہان ہے پھر بھی ہدایت کی دعا دیتے ہیں۔ بعدِ ولادت سجده ريز ہو کر اُمّت کی خیر چاہتے ہیں اور وقتِ وصال بھی اُمّت ہی کے لئے متفکر ہیں۔
محترم قارئین ! حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان و عظمت پر مشتمل سلسلے ” شانِ حبیب بزبانِ حبیب “ کا آغاز ” ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ جنوری2021 سے ہوا تھا۔ آج آپ نے اس کی آخری قسط پڑھی۔ اس سلسلہ میں وہ احادیثِ مبارکہ جمع کی گئی ہیں جن میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان وعظمت لفظ ” اَنَا “ کے ساتھ بیان ہوئی۔
اللہ ربُّ العزّت ہمیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی محبت عطا فرمائے اور ہمیں اپنی زندگی سنّت کے مطابق بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سابقہ مضامین پڑھنے کے لئے نیچے دئیے گئے لنک کو وزٹ کیجئے یا QR-Codeکو اسکین کیجئے۔
https : / / www.dawateislami.net / magazine / ur / archive / sub-se-aula-ala-hamara-nabi
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
[1] ابن ماجہ ، 1 / 198 ، حدیث : 313
[2] مسلم ، ص965 ، حدیث : 5957
[3] سنن نسائی حاشیہ سندی ، 1 / 38 ، تحت الحدیث : 40
[4] مراٰۃ المناجیح ، 1 / 263
[5] معالم السنن شرح ابوداؤد ، 1 / 38
[6] التیسیر شرح الجامع الصغیر ، 1 / 361
[7] التنویر شرح الجامع الصغیر ، 4 / 187 ، تحت الحدیث : 2565
[8] مسلم ، ص1051 ، حدیث : 6466
[9] مراٰۃ المناجیح ، 8 / 335
Comments