احکامِ تجارت
* مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
ماہنامہ جنوری2022
ایک گھنٹہ لیٹ آنے پر ملازم کی آدھے دن کی تنخواہ کاٹنا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ملاز م اگر ایک گھنٹہ لیٹ آئے تو اس کی آدھے دن کی تنخواہ کاٹنا کیسا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : جس کا جتنا قصور ہے اسے اتنی ہی سزا ملنی چاہیے اگر وہ ایک گھنٹہ لیٹ آیا ہے تو ایک گھنٹے کے جتنے پیسے بنتے ہیں اتنے ہی کاٹ سکتے ہیں آدھے دن کے پیسے نہیں کاٹ سکتے۔ اسی طرح بعض جگہوں پر تین دن لیٹ آنے پر پورے دن کے پیسے کاٹ لئے جاتے ہیں یہ بھی جائز نہیں بلکہ ظلم ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ جتنی تاخیر سے آیا ہے اس کا حساب لگا کر اس کی تنخواہ کے مطابق اس تاخیر کے جتنے پیسے بنتے ہیں صرف وہی کاٹے جاسکتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں : “ اس روز جتنے گھنٹے کام میں تھا ان میں جس قدر کی کمی ہوئی صرف اتنی ہی تنخواہ وضع ہوگی ، ربع ہو تو ربع ، یا کم زیادہ جس قدر کی کمی ہوئی صرف اتنی تنخواہ وضع ہوگی ، مثلاً چھ گھنٹے کام کرنا تھا اور ایک گھنٹہ نہ کیا تو اس دن کی تنخواہ کا چھٹا حصہ وضع ہوگا ، زیادہ وضع کرنا ظلم ہے۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 19 / 516)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ڈریس کیٹلاگ میں تصویر شامل کرنا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا کام لیڈیز بوتیک کا ہےا ور اس میں سوٹ کے ساتھ تصویر لگائی جاتی ہے ۔ کیا تصویر کے ساتھ سوٹ بیچنا جائز ہے؟ اگر اس کا چہرہ بلر کردیا جائے تو کیسا ہے؟ نیز ہمارے گھر والے برانڈ کے سوٹ خریدتے ہیں وہ بھی تصویر کے ساتھ ہوتے ہیں ان کا خریدنا کیسا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : سوٹ کے ساتھ بے پردہ عورت کی تصویر لگانا ہرگز جائز نہیں یہ بے حیائی اور گناہ ہے کہ لڑکی کو بلا کر فوٹو شوٹ کروایا جاتا ہےا ور پھر تصویر ہر سوٹ پر لگائی جاتی ہے یہ کسی طرح جائز نہیں ہوسکتا۔
اس کےلئے جائز متبادل کے طو رپر یہ طریقہ اپنایا جاسکتا ہے کہ دکانوں پر ڈمی پر سوٹ لگائے جاتے ہیں تو جس ڈمی کا چہرہ نہ ہو یا چہرہ مسخ کیا ہوا ہو اس پر سوٹ لگا کر تصویر لی جاسکتی ہے۔
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرّحمہ لکھتے ہیں : “ تصویر سر بریدہ یا جس کا چہرہ مٹا دیا ہو ، مثلاً کاغذ یا کپڑے یا دیوار پر ہو تو اس پر روشنائی پھیر دی ہو یا اس کے سر یا چہرے کو کھرچ ڈالا یا دھو ڈالا ہو ، کراہت نہیں۔ “ (بہارِ شریعت ، 1 / 628)
یہ طریقہ سستا بھی ہوگا کہ ایک ہی ڈمی پر مختلف سوٹ لگاکر تصاویر بنائی جاسکتی ہیں اس طرح بے حیائی کا بھی خاتمہ ہوگا۔
جہاں تک سوٹ خریدنے کی بات ہے تو وہ سوٹ خریدنا اور بیچنا بھی جائز ہے کہ یہاں تصویر ضمنی چیز ہے تصویر کی خرید و فروخت نہیں ہورہی لیکن یہ تصویر ساتھ میں لگانا ، جائز نہیں۔ (وقار الفتاویٰ ، 1 / 218)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مشترکہ پلاٹ میں پارٹنر سے اس کا حصہ خریدنا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر 50 فیصد پارٹنر شپ میں ایک کروڑ کا پلاٹ خریدا ، اب اس کی مالیت ڈیڑھ کروڑ ہے۔ میرا پارٹنر چاہتا ہے کہ اسے بیچ دیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ نہ بیچوں تو کیا میں اس سے اس کا حصہ خرید سکتا ہوں؟ اس کی کیا صورت ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : جی ہاں! پوچھی گئی صورت میں آپ اپنے پارٹنر سے اس کا حصہ خرید سکتے ہیں لیکن موجودہ مالیت کے حساب سے ہی خریدیں گے یہ نہیں ہوسکتا کہ جتنے کا اس نے خریدا تھا اور حصہ ملایا تھا اتنی رقم اس کو دے کر فارغ کردیں بلکہ جو موجودہ مالیت ہے یا جس قیمت پر آپ دونوں کا اتفاق ہوجائے اس قیمت پر خریدیں گے۔ بیچنے والا یہ تقاضہ کرسکتا ہے کہ موجودہ مالیت کے حساب سے اپنا حصہ بیچوں گا اور موجودہ مالیت اگر ڈیڑھ کروڑ ہے تواس حساب سے وہ پچھتر لاکھ روپے اسے دے کر اس کا حصہ خریدا جا سکتا ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مرحوم کی لائف انشورنس میں جمع رقم کا حقدار کون ہوگا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کا انتقال ہوگیا۔ مرحوم نے کچھ لائف انشورنس شادی سے پہلے کروائی اور کچھ شادی کے بعد۔ شادی سے پہلے جو انشورنس کروائی اس میں مرحوم نے انشورنس فارم میں اپنی والدہ کو نامزد کیا جبکہ شادی کے بعد والی انشورنس کے فارم میں اپنی زوجہ کو نامزد کیا۔ اس انشورنس فارم کی عبارت درج ذیل ہے : “ یہ فارم ایسا شخص پُر کرسکتا ہے جو متعلقہ بیمہ پالیسی کے تحت فوتگی کلیم کا دعوٰی دار ہو یعنی نامزد کردہ ، سرپرست ، ٹرسٹی ، مفوض الیہ یا وارث جیسی بھی صورت ہو۔ “ یہ ارشاد فرمائیں کہ اس انشورنس میں جمع کروائی گئی رقم پر کس کا حق ہے؟ کیا صرف والدہ اور زوجہ کا حق ہوگا یا تمام ورثاء اس رقم کے حقدار ہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : اولاً تو یہ یاد رہے کہ بیمہ کمپنی کو دی جانے والی رقم قرض کے حکم میں ہوتی ہے اور قرض پر حاصل ہونے والا مشروط نفع سود ہوتا ہے۔
حدیثِ مبارک میں ہے : “ کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفِعَۃً فَھُوَ رِبًا “ ترجمہ : قرض کے ذریعہ سے جو منفعت حاصل کی جائے وہ سود ہے۔ (کنز العمال ، جزء6 ، 3 / 99 ، حدیث : 15512)اور سود سے بچنا ہر مسلمان پر شرعاً لازم و ضروری ہے۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں مرحوم نے اس بیمہ پالیسی میں جتنی بھی رقم جمع کروائی تھی وہ اصل رقم مرحوم کے تمام ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی ، لیکن اس پر ملنے والی اضافی سودی رقم کے بارے میں حکمِ شرع یہ ہے کہ ورثاء اس رقم کو بغیر ثواب کی نیت کے کسی بھی شرعی فقیر پر صدقہ کردیں۔
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت علیہ الرّحمہ لکھتے ہیں : “ جو مال رشوت یا تغنی یا چوری سے حاصل کیا اس پر فرض ہے کہ جس جس سے لیا ان پر واپس کر دے ، وہ نہ رہے ہوں ان کے وُرثہ کو دے ، پتا نہ چلے تو فقیروں پر تصدُّق کرے۔ خریدوفروخت کسی کام میں اس مال کا لگانا حرامِ قطعی ہے بِغیر صورتِ مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وَبال سے سُبکدَوشی کا نہیں یہی حکم سُود وغیرہ عُقُودِ فاسِدہ کا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا بِالخصوص انہیں واپَس کرنا فرض نہیں بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے واپَس دے خواہ ابتِداء ً تصدُّق کر دے۔ “ (فتاوی رضویہ ، 23 / 551)
رہی یہ بات کہ پوچھی گئی صورت میں انشورنس میں جمع کروائی گئی رقم پر کس کا حق ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیمہ پالیسی میں جمع کروائی گئی اصل رقم میں تمام ورثاء کا حق شامل ہے لہٰذا وہ رقم شرعی اصولوں کے مطابق تمام ہی ورثاء میں تقسیم ہوگی ، کیونکہ بغیر تملیک کے محض نامزدگی کوئی چیز نہیں اور اس سے نامزد کردہ شخص اس چیز کا مالک نہیں بن جاتا۔
فتاوٰی شامی میں ہے : “ ان ملك الانسان لا ينقل إلى الغير بدون تمليكه “ یعنی کسی انسان کی مملوکہ شے بغیر تملیک کے کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں داخل نہیں ہوتی۔ (رد المحتار ، 8 / 569 ، فتاوٰی رضویہ ، 19 / 393) نیز ایسے مواقع پر نامزد کروانے کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ پالیسی ہولڈر کا انتقال ہوجانے کی صورت میں نامزد کردہ شخص کو کلیم کا حق حاصل ہے کہ وہ کلیم کرکے کمپنی سے رقم وصول کرے اور اصل حقداروں تک وہ رقم پہنچادے ، ایسا نہیں ہوتا کہ وہ نامزد کردہ شخص اس رقم کا مالک کہلائے اور اصل پالیسی ہولڈر کا اس سے کوئی تعلق ہی نہ رہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت ، دار الافتاء اہل سنت نور العرفان ، کھارادر کراچی
Comments