سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

شانِ حبیب بزبانِ حبیب(قسط : 12)

* مولاناابوالنّور راشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ جنوری2022

 گزشتہ سے پیوستہ

(23)فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي ترجمہ : میں بانٹنے والا ہوں اور اللہ پاک عطا فرماتا ہے۔ [1]

 (24)فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اَنَا اَجْوَدُ وَلَدِ آدَم ترجمہ :  میں اولاد آدم میں سب سے بڑا داتا (سخی) ہوں۔ [2]

ان مذکور مبارک فرامین میں حضور نبیِّ رحمت ، شفیعِ امّت ، سلطانِ دوجہاں ، غمگسارِ انس و جاں ، محمد مصطفےٰ ، احمد مجتبیٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے دو مبارک اسماء “ قَاسِم “ اور “ اَجْوَد “  کا ذکر ہے۔

ان دونوں اسمائے مبارکہ کا مفہوم ہے : عطا فرمانےوالے ، تقسیم فرمانے والے ، جود و سخاوت کرنے والے۔

رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک شانِ جود و سخاوت کے حوالے سے سیرتِ طیّبہ کا مطالعہ کریں تو آپ کے قاسمِ نعمت اور صاحبِ جودو سخاوت ہونے کے موضوع کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے :

(1)حضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  خزائنِ الٰہیہ کے مالک اور مختارِ کل ہیں (2) سائل کو منع نہ فرمانا (3) بے حساب عطائیں فرمانا (4)اپنے پاس جمع نہ رکھنا۔

(1)رسولُ اللہ خزائنِ الٰہیہ کے مالک اور مختارِ کُل ہیں

اہلِ اسلام کا یہ مسلمہ اور واضح عقیدہ ہے کہ دینے والا اور سب اختیارات و قدرت کا مالک اللہ ربّ العزّت ہے اور ربّ کریم نے اپنے حبیبِ مکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو سب اختیارات عطا فرمادئیے ہیں جس کا اعلان “ انمااَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي “ میں بھی واضح ہے۔

شارحِ بخاری علامہ احمد خطیب قسطلانی  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے حبیبِ مکرّم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مالکِ کُل ہونے کا تذکرہ “ اَلْمَوَاھِبُ اللَّدُنِّیہ “ میں یوں فرمایا : ھُوَ صَلَّی اللہ ُتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ خِزَانَۃُ السِّرِّ وَمَوْضِعُ نُفُوْذِالْاَمْرِ فَلَا یَنْفُذُ اَمْرٌ اِلَّا مِنْہُ وَلَا یَنْقُلُ خَیْرٌ اِلَّا عَنْہُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یعنی رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اللہ کریم کا ایک پوشیدہ راز ہیں اور احکامِ الٰہیہ کے نفاذ کا مرکز ہیں پس ہر حکم آپ ہی سے نافذ ہوتا ہے اور ہر خیر و بھلائی آپ ہی کے ذریعے منتقل ہوتی ہے۔ [3]

حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : دین و دنیا کی ساری نعمتیں علم ، ایمان ، مال ، اولاد وغیرہ دیتا اللہ ہے بانٹتے حضور ہیں جسے جو مِلا حضور کے ہاتھوں مِلا کیونکہ یہاں نہ اللہ کی دَین (یعنی دینے) میں کوئی قید ہے نہ حضور کی تقسیم میں ، لہٰذا یہ خیال غلط ہے کہ آپ صرف علم بانٹتے ہیں ورنہ پھر لازم آئے گا کہ خدا بھی صرف علم ہی دیتا ہے۔ [4]

امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی عطاؤں کے تذکرہ پر کئی احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : کوئی دولت ، کوئی نعمت ، کوئی عزت جو حقیقۃً دولت وعزت ہو ایسی نہیں کہ اللہ  عزّوجل  نے کسی اور کو دی ہو اور حضورِ اقدس  صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم  کو عطا نہ کی ہو ، جو کچھ جسے عطا ہوا یا عطا ہوگا دنیا میں یا آخرت میں وہ سب حضور کے صدقہ میں ہے حضور کے طفیل میں ہے حضور کے ہاتھ سے عطا ہوا۔ ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ) [5]

ایک اور مقام پر فرمایا : جَعَلَ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعَالٰی خَزَائِنَ رَحْمَتِہٖ وَنِعَمِہٖ وَ مَوَائِدَ جُوْدِہٖ وَکَرَمِہٖ طَوْعَ یَدَیْہِ ، و مُفوَّضَۃً اِلَیْہِ صَلَّی اللہُ تَعالٰی علیہ وسَلَّم یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَاء اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور کل نعمت کے خزانے اور اپنے فیض وکرم کے خوان ان کے ہاتھوں کے مطیع کردئیے ، اور  یہ سب انہیں سونپ دیا جیسے چاہیں خرچ کریں۔ [6]

مزید فرماتے ہیں : دین ودنیا وجسم وجان میں جو نعمت کسی کو ملی اور ملتی ہے اور ابدالآباد تک ملے گی سب حضورِ اقدس خلیفۃُ اللہ الاعظم  صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم  کے وسیلے اور حضور کے مبارک ہاتھوں سے ملی اور ملتی ہے اور ابدالاباد تک ملےگی۔ [7]

ایک پنجابی شاعر نے کیا ہی خوب ترجمانی کی ہے کہ

رب فرمایا محبوبا زمانے سارے تیرے نیں

عرش والے ، فرش والے ، دیوانے سارے تیرے نیں

میں خالق ساری دنیا دا ، توں مالک ساری دنیا دا

کسے منگتے نوں نا موڑیں ، خزانے سارے تیرے نیں[8]

(2)سائل کو منع نہ فرمانا

دنیا جہاں میں بڑے بڑے اسخیا کا یہ حال ہے کہ موجود ہو گا تو دے دیں گے ، جمع کرکے رکھیں گے ، اپنے لئے بھی رکھیں گے ، دوسروں کو بھی دیں گے اور دنیا میں لاکھوں ایسے ہیں جو بہت کماتے ہیں ، جمع بھی کرتے ہیں اور پھر سخاوت بھی کرتے ہیں لیکن ایسوں کی بھی کمی نہیں کہ وہ تبھی خرچ کرتے ہیں جب ان کے پاس جمع ہوتاہے ، جیسے ہی انہیں لگتا ہے کہ اب ہماری آمدن کم ہے تو وہ خرچ سے ہاتھ روک لیتے ہیں یہ اگرچہ بُرا نہیں لیکن قربان جائیے صاحب جود و کرم آقا پر کہ آپ نے نہ جمع فرمایا اور نہ ہی آمدن کی کمی و زیادتی کو کبھی دیکھا بس دیتے ہی رہے ، لُٹاتے ہی رہے یہاں تک کہ ایسا بھی ہوا کہ اگر موجود نہ ہوتا تو بھی منع نہ فرماتے ، صحابۂ کرام نے تو یہاں تک روایت فرمایا کہ سرکار دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے کبھی سائل کو “ لَا “ نہ فرمایا جیسا کہ بخاری شریف میں ہے ، حضرت سیّدُنا جابر  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں : مَا سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ شَیْءٍ قَطُّ فَقَالَلَایعنی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ نے جواب میں “ لَا(یعنی نہیں ہے) فرمایا ہو۔ [9] مراد یہ ہے کہ حضورِ اقدس  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  سے دنیا کے مال میں سے کچھ طلب کیا گیا تو کبھی یہ نہیں فرمایا کہ نہیں دوں گا۔ دینا منظور ہوتا تو عطا فرما دیتے ، نہ دینا منظور ہوتا تو خاموش رہتے اور رُخِ انور پھیر لیتے۔ [10]

اس بات کی شعر کی صورت میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے کیا خوب ترجمانی کی ہے :

مانگیں گے مانگے جائیں گے مُنہ مانگی پائیں گے

سرکار میں نہ ’’لاَ ‘‘ہے نہ حاجت ’’اگر ‘‘کی ہے[11]

ایک دفعہ ایک سائل حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس وقت بظاہر کوئی مال موجود نہ تھا تو آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اسے اپنی جانب سے قرض لینے کی اجازت دی اور فرمایا کہ جب ہمارے پاس کچھ آجائے گاہم اسے ادا کردیں گے ، جنابِ عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  نے عرض کی : یَارسولَ اللہ! اللہ ربُّ العزّت نے آپ کو طاقت سے زائد کا مکلف نہیں فرمایا ، حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو یہ بات پسند نہ آئی ، انصار میں سے ایک شخص نے عرض کی : یَارسولَ اللہ! آپ عطا کیجئے اور عرش کے مالک سے تقلیل کا خوف نہ کیجئے ، یہ سُن کر آپ نے تبسم فرمایا اور آپ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار آئے پھر فرمایامجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ [12]

رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا بے حساب عطا فرمانا اور اپنے پاس جمع نہ رکھنا ، اس کا بیان اِن شآءَ اللہ اگلے ماہ کے شمارے میں آئے گا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، نائب مدیر ماہنامہ فیضان مدینہ


[1] بخاری ، 1 / 42 ، حدیث : 71

[2] مسند ابی يعلیٰ ، 3 / 16 ، حدیث : 2782

[3] مواہب لدنیہ ، 1 / 27

[4] مراٰۃ المناجیح ، 1 / 177

[5] فتاویٰ رضویہ ، 29 / 93

[6] فتاوی رضویہ ، 28 / 522

[7] فتاوی رضویہ ، 21 / 195

[8] یعنی ربّ کریم نے اپنے حبیب سے فرمایا : اے محبوب! اول و آخر ہر زمانہ تیرا ہے یعنی تیری ہی حکومت ہے ، عرش و فرش میں ہر جگہ تیرے دیوانے ہیں ، میں ساری دنیا کا خالق ہوں اور تجھے ساری دنیا اور سب خزانوں کا مالک بنادیا ، تو کسی سائل کو منع نہ کرنا۔

[9] بخاری ، 4 / 109 ، حدیث : 6034

[10] نزہۃ القاری ، 5 / 573

[11] حدائقِ بخشش ، ص225

[12] شمائل ترمذی ، ص201 ، حدیث : 338


Share

Articles

Comments


Security Code