انٹرویو
رکنِ شوریٰ حاجی محمد بلال عطّاری(قسط : 01)
ماہنامہ جنوری2022
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! دنیا بھر میں دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے نظام اور وسیع ترین نیٹ ورک کو احسن انداز میں چلانے کیلئے امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے مرکزی مجلسِ شوریٰ قائم فرمائی اور تمام نظام اس کے حوالے کردیا۔ مرکزی مجلسِ شوریٰ کا ہر فرد امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی تربیت کا شاہکار اور ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ آج ہمارے ساتھ رکنِ شوریٰ حاجی محمد بلال عطّاری موجود ہیں اور ہم ان سے کچھ سوالات کر یں گے :
مہروز عطّاری : سب سے پہلے یہ ارشاد فرمائیں : آپ کی طبیعت کیسی ہے؟
حاجی بلال عطّاری : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِین عَلٰی کُلِّ حَال ، اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے مجھےموقع فراہم کیا۔
مہروز عطّاری : آپ کی تاریخِ پیدائش کيا ہے؟
حاجی بلال عطّاری : میری تاریخِ پیدائش 13 یا 14 شوالُ المکرم 1396 ھ مطابق 7 اکتوبر 1976ء ہے۔
مہروز عطّاری : آ پ کی پیدائش کس شہر میں ہوئی تھی؟
حاجی بلال عطّاری : چکوال شہر سے تقریباً 40کلو میٹر دور “ بشارت “ نام کے ایک گاؤں میں میری پیدائش ہوئی تھی۔
مہروز عطّاری : آپ کا بچپن اسی گاؤں میں گزرا ؟
حاجی بلال عطّاری : میرے والد صاحب ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کرتے تھے ، وقتاً فوقتاً ان کا ٹرانسفر ہوتا رہتا تھا اور فیملی بھی ان کے ساتھ ہوتی تھی ، اس وجہ سے بچپن کا کچھ حصہ اپنے پیدائشی گاؤں میں اور کچھ دیگر شہروں میں گزرا۔
مہروز عطّاری : بچپن کیسا گزرا؟
حاجی بلال عطّاری : عموماً انسان کو اپنے بچپن کی تفصیلات یاد نہیں ہوتیں البتہ چیدہ چیدہ باتیں ذہن میں رہ جاتی ہیں ، دوسروں سے سُن کر ہی اپنے بچپن کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔ بہرحال ہماری فیملی میں تعلیم کی طرف رجحان زیادہ تھا اور ہمارے گھر کا ماحول بھی ایسا تھا اس لئے بچپن سے میری توجہ بھی پڑھائی کی طرف زیادہ تھی۔
مہروز عطّاری : گویا آپ کے بچپن میں شرارتیں کم اور سنجیدگی کا پہلو زیادہ تھا؟
حاجی بلال عطّاری : جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ، چھوٹی موٹی شرارتوں کے علاوہ عموماً پڑھائی کی طرف زیادہ رجحان رہا ہے۔ اصل میں ہمارے والد صاحب ڈسپلن کو پسند کرتے تھے اور ہماری تربیت ایسی تھی کہ والد کا آنکھیں دکھانا ہی ہماری تفہیم کیلئے کافی ہوتا تھا۔
مہروز عطّاری : والد صاحب کے ساتھ مختلف شہروں میں رہنے کی وجہ سے آپ کی پڑھائی کا تسلسل متأثر نہیں ہوا؟
حاجی بلال عطّاری : اصل میں میری تعلیم ایسے ادارے میں ہوئی جس کی مختلف شہروں میں شاخیں تھیں ، ان کا نصاب اور اندازِ تعلیم بھی یکساں تھا اس لئے تعلیم پر منفی اثر (Negative Impact) نہیں پڑا۔ نیز والد صاحب کا ٹرانسفر بھی بہت جلد جلد نہیں بلکہ 3 سے 4 سال بعد ہوتا تھا۔
مہروز عطّاری : آپ نے میٹرک کہاں سے کیا ؟
حاجی بلال عطّاری : سرگودھا کے ایک اسکول سے میٹرک کیا تھا ، اس وقت تک والد صاحب ریٹائرڈ ہوچکے تھے اور ہم اپنے ذاتی گھر میں رہائش پذیر تھے۔
مہروز عطّاری : میٹرک کے بعد تعلیم کا سلسلہ کہاں تک رہا؟
حاجی بلال عطّاری : میٹرک کے بعد میں نے سرگودھا سے ہی FSC کیا ، اس کے بعد فیصل آباد کے ایک ادارے سے بیچلر تک تعلیم مکمل کی۔
مہروز عطّاری : دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے آپ کی وابستگی کب ہوئی؟
حاجی بلال عطّاری : دعوتِ اسلامی سے میرا پہلا تعارف تو غالباً 1987ء میں ہی ہوگیا تھا ، ان دنوں ہم سرگودھا میں ہی تھے کہ امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی ہمارے شہر میں تشریف آوری ہوئی۔ میرے بڑے بھائی محافلِ نعت اور جلسوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ امیرِ اہلِ سنّت کی آمد پر ہونے والے اجتماع میں میرے بھائی شریک ہوئے اور واپس گھر آکر ہمیں اجتماع کے بارے میں بتایا۔
امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا انداز چونکہ عام انداز سے مختلف تھا یعنی فکرِ آخرت ، موت اور قبر کی یاد وغیرہ ، آپ کے بیانات کے عنوانات عموماً اسی طرح کے ہوتے تھے ، نیز اجتماعات میں رقّت انگیز دُعا ہوتی تھی۔ ہمارے بھائی اس انداز اور دعا سے متأثر ہوئے تھے ، انہوں نے گھر آکر ان باتوں کا تذکرہ کیا۔ اس موقع پر میرے بھائی اجتماع سے نعتوں وغیرہ کے کچھ رسائل ساتھ لائے تھے مثلاً سوزِ بلال ، میرا سینہ مدینہ ہو وغیرہ ، ان میں ایک رسالہ “ اَلْوَصَایَا مِنَ الْمَدِینَۃِ الْمُنَوَّرَۃ “ کے نام سے تھا جس کا موجودہ نام “ مدنی وصیت نامہ “ ہے ، ان رسائل کے مطالعہ نے مجھے متأثر کیا۔
ما شآءَ اللہ میری والدہ ٔمحترمہ عقائدِ اہلِ سنّت کے حوالے سے مضبوط تھیں۔ انہوں نے پہلے پہل اجتماع میں جانے سے منع کیا کہ نہ جانے یہ کن عقائد والے لوگ ہیں ، لیکن میرے بڑے بھائی نے انہیں سمجھایا کہ یہ اولیائے کرام سے محبت کرنے والے ہیں تو اجازت کا سلسلہ بن گیا۔
مہروز عطّاری : رکنِ شوریٰ حاجی وقارُ المدینہ عطّاری آپ کے کلاس فیلو تھے؟
حاجی بلال عطّاری : والد صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے جس اسکول میں آٹھویں کلاس میں داخلہ لیا ، حاجی وقارُ المدینہ پہلے سے اس کلاس میں موجود تھے۔ اگلے سال نویں جماعت (th 9 Class ) میں کسی موقع پر ان سے تعارف ہوا۔ ان کی رہائش بھی ہمارے گھر سے قریب تھی اس لئے بعد میں ملاقات کا سلسلہ بھی رہا۔ ہم دونوں ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے تھے اور مدنی ماحول سے قریب بھی تھے ، دعوتِ اسلامی کے اجتماعات اور دینی کاموں میں باقاعدہ شرکت کا سلسلہ بھی ہم دونوں نے اکٹھا ہی شروع کیا۔
مہروز عطّاری : آپ دونوں رکنِ شوریٰ بھی ایک ساتھ بنے تھے؟
حاجی بلال عطّاری : 2000ء میں مرکزی مجلسِ شوریٰ قائم ہوئی تھی ، اس وقت شوریٰ کی مدت 26 ماہ ہوتی تھی۔ جب پہلی بار یہ مدت پوری ہوئی اور 2002ء میں شوریٰ کی تجدید ہوئی تو اس موقع پر حاجی وقارُ المدینہ ، قاری سلیم ، مفتی فاروق صاحب اور سیّد ابراہیم شاہ صاحب شوریٰ میں شامل ہوئے تھے۔ اس کے بعد جب اگلی بار شوریٰ کی مدت میں توسیع ہوئی تو اس موقع پر مجھے شوریٰ میں شامل ہونے کی سعادت ملی۔
مہروز عطّاری : آپ نے کب یہ سوچا کہ مجھے بھی رکنِ شوریٰ ہونا چاہئے؟
حاجی بلال عطّاری : پہلے تو ایسا کوئی تصوّر نہیں تھا کہ میں کبھی رکنِ شوریٰ بن سکوں گا یا مجھے بننا چاہئے ، بلکہ جب مرکزی مجلسِ شوریٰ میں میری شمولیت کا اعلان کیا گیا تو اس وقت بھی مجھے یقین نہیں آیا کہ یہ اعلان میرے بارے میں ہے یا کسی اور بلال کے بارے میں۔ ہم کئی اسلامی بھائیوں کے ہمراہ پیر الٰہی بخش (PIB) کالونی کراچی میں امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے مبارک مکان پر حاضر تھے اور کسی موضوع پر گفتگو چل رہی تھی۔ امیرِ اہلِ سنت نے نگرانِ شوریٰ حاجی محمد عمران عطّاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی سے کچھ بات کی اور میرا نام لے کر اچانک اعلان فرمایا کہ مبارک ہو ، انہیں رکنِ شوریٰ بنا دیا گیا ہے۔ چند لمحوں کے لئے میں حیران رہ گیا کہ یہ کس بلال سے متعلق اعلان کیا گیا ہے ، پھر کسی نے میرے کندھے پر تھپکی دے کر مبارک باد دی تو مجھے کنفرم ہوا کہ یہ اعلان میرے متعلق ہی کیا گیا ہے۔
مہروز عطّاری : رکنِ شوریٰ بنتے وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟
حاجی بلال عطّاری : تقریباً28 سال۔
مہروز عطّاری : اتنی جوان عمر میں اس قدر بڑی ذمّہ داری کا بوجھ آپ نے کیسے اٹھالیا؟
حاجی بلال عطّاری : یقیناً بہت بڑی ذمّہ داری ہے۔ میرا خیال تھا کہ نگرانِ پاکستان کابینہ حاجی شاہد عطّاری کی خصوصی شفقت پر مجھے شوریٰ میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ مجھے ان کے قریب رہ کر کچھ دینی کاموں کی سعادت نصیب ہوئی تھی ، ورنہ سچی بات یہ ہے کہ میں آج بھی اس ذمّہ داری کی اہلیت نہیں پاتا۔ مجھے یہ لگتا تھا کہ جب ایک سال کی مدت پوری ہوگی تو اگلی بار میرا اعلان نہیں ہوگا ، اس طرح کی کیفیت کافی عرصے تک رہی۔
مہروز عطّاری : ذیلی نگران کی سطح سے دینی کام کرتے کرتے آج ما شآءَ اللہ آپ دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ (Central Executive Body) کے رکن ہیں۔ دینی کام کرنے کے حوالے سے ماضی اور حال میں آپ کیا فرق دیکھتے ہیں؟
حاجی بلال عطّاری : ہم جب دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہوئے ، اس وقت بھی اگرچہ ہمارے ذمّہ داران کی شفقتیں ہمیں حاصل تھیں مگر آج کل دینی کاموں کے حوالے سے جو سہولیات دستیاب ہیں اُس وقت ان کا تصور تک نہیں تھا۔ ان دنوں نہ موبائل فون عام تھے اور نہ ہی سوشل میڈیا اور نہ مدنی چینل شروع ہوا تھا لہٰذا آپس میں رابطہ اور پیغام پہنچانے کا نظام اتنا آسان اور تیز نہیں تھا ، تربیت کے اتنے زیادہ مواقع بھی نہیں تھے۔ امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے فیضان سے دینی کاموں کا جذبہ تھا جو کام کرواتا تھا۔ اب تو نئے آنے والے اسلامی بھائیوں کے لئے تربیت کے کثیر مواقع اور ذرائع دستیاب ہیں ، اللہ کرے کہ لوگ اس سے خوب سیکھیں۔
مہروز عطّاری : عمومی طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ پہلے کی طرح اب ذمّہ داران کا تربیت کرنے کا مزاج اور انداز نہیں رہا ، جبکہ آپ اس کے برعکس گفتگو کررہے ہیں۔
حاجی بلال عطّاری : اصل میں ہمارے جن اسلامی بھائیوں نے شروع کے حالات نہیں دیکھے ، شاید انہیں یہ لگتا ہو کہ پہلے کی نسبت اب تربیت کے مواقع کم ہوگئے ہیں ، جبکہ ہم خود اُن حالات سے گزرے ہیں اور ہماری وہ عمر سیکھنے کی عمر تھی۔ اُن دنوں شہر کا ایک نگران ہوتا تھا ، نگران کی مشاورت اور پھر مختلف سطح کی مشاورتیں اور مجالس نہیں ہوتی تھیں ، ہمیں جو بہتر انداز سمجھ میں آتا تھا اس طرح کام کرتے تھے۔ بعض اوقات نگران صاحب تربیت کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ ان دنوں نگرانوں کی اپنی ذہنی سطح اور تربیت بھی اس پائے کی نہیں ہوتی تھی جیسی آج ہے۔ بعض اوقات کئی کئی مہینے بعد ہمیں کوئی ایسی بات ملتی تھی جس پر لگتا تھا کہ آج ہم نے کوئی نئی بات سیکھی ہے۔ میں نے باقاعدہ طور پر 1990ء میں دینی کام شروع کئے تھے جبکہ1993ء میں پہلی بار کسی تربیتی اجتماع میں شرکت کی سعادت ملی تھی۔ اب ما شآءَ اللہ وہ وقت ہے کہ ہر ہفتے مدنی مذاکر ے کے علاوہ مخصوص مواقع پر لگاتار مدنی مذاکروں کا سلسلہ رہتا ہے ، جانشینِ امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ اور نگرانِ شوریٰ بھی تربیت کے لئے وقت عطا فرما رہے ہیں ، اس کے علاوہ سال میں کئی مرتبہ مختلف شعبہ جات اور مجالس کے تربیتی اجتماعات کا سلسلہ رہتا ہے۔
تمام اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں سے میری مدنی التجا ہے کہ ان مواقع کو غنیمت جانیں ، زیادہ سے زیادہ تربیت حاصل کر کے دینی کاموں کی دھومیں مچائیں اور خوب نیکیاں کماکر اپنی دنیا و آخرت کو سنواریں۔ اللہ پاک ہمیں زیادہ سے زیادہ دینی خدمات کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(بقیہ اگلے شمارے میں )
Comments