تذکرۂ صالحین
مفتی عبد القیّوم ہزاروی رحمۃُ اللہِ علیہ
* مولانا بلال حسین عطاری مدنی
ماہنامہ جنوری2022
پاکستان کو جن شخصیات کا مقامِ پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہوا اور جن کے سبب اس سر زمین پر عِلم کا دَور دَورا ہوا ان میں سے ایک شخصیت استاذُ العُلماء ، جامعُ المعقول والمنقول ، شیخُ الحدیث و التفسیر ، مفتیِ اعظم پاکستان حضرت علّامہ مولانا مُفتی محمد عبدُالقیّوم ہَزاروی رحمۃُ اللہِ علیہ کی بھی ہے۔ آپ 29 شعبانُ المعظم 1352 ہجری مطابق 28 دسمبر 1933 عیسوی کو مانسہرہ ، خیبر پختونخواہ پاکستان میں پیدا ہوئے۔
حصولِ علم : قراٰنِ پاک اپنےوالدِ ماجد سےپڑھا ، ابتدائی تعلیم اپنے چچّا حضرت مولانا محبوب الرّحمٰن سے حاصل کی ، جیندھڑ شریف ضلع گجرات کے ایک دینی مدرسےکےعلاوہ پاکستان کے مُتعدّد دینی اداروں سےاکتسابِ علم کرتے ہوئے 1955ء میں مرکزی دارُالعُلوم حِزبُ الاَحْناف (لاہور) سے فارِغُ التحصیل ہوئے ، اس کے بعد آپ کا ذوقِ حدیث آپ کو محدّثِ اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کی بارگاہ میں لے آیا ، چنانچہ 1956ء میں جامعہ رضویہ مظہر ِاسلام ، فیصل آباد سے سندِ حدیث اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔
اساتذہ : آپ کے اساتذہ کی فہرست میں محدثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد چشتی ، مولانا محبوبُ الرّحمٰن ، مولانا سید محمد انور شاہ صاحب اور علامہ غلام رسول رضوی رحمۃُ اللہِ علیہم جیسے ناموَر علمائے کرام شامل ہیں۔
مختلف دینی خدمات : *آپ جامعہ نظامیہ (لاہور ) کےشیخُ الحدیث اور ناظمِ اعلیٰ رہے *جامعہ رضویہ (شیخوپورہ) کے مؤسّس و بانی اور مہتمم تھے *اردو و عربی زبان میں درجنوں علمی و تحقیقی کُتُب تصنیف کیں جن میں التوسّل ، العقائد والمسائل اور علمی مقالات زیادہ مشہور ہیں *ہزاروں طَلَبہ کی تعلیم و تربیت فرماتے ہوئے تقریباً 49سال تدریس کی اور 29 سال حدیث شریف پڑھائی *تنظیمُ المدارس اہلِ سنّت پاکستان جیسے عظیم ادارے کاقیام آپ ہی کی کاوش ہے ، آپ29 سال اس ادارے کے صدر اور ناظمِ اعلیٰ رہے *امامِ اہلِ سنّت ، مجددِ دین و ملّت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے عظیم علمی و فقہی شاہکار 12 جلدوں پر مشتمل “ فتاویٰ رضویہ “ کو آپ نے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لئے اس کی عربی و فارسی عبارات کا ترجمہ کروایا اور حوالہ جات کی تخریج کے ساتھ 33 جلدوں میں اس کی خوبصورت اِشاعت و طَباعت کا اِہتمام بھی فرمایا۔ ( 24 جلدیں آپ کی زندگی میں جبکہ 9 بعدِ وصال شائع ہوئیں)
تلامذہ : آپ سینکڑوں عُلَما و فُضلااور مُدرّسین کے استادِ محترم تھے۔ آپ کے چند ناموَر تلامذہ میں علامہ عبدُالحکیم شرف قادری ، پروفیسر مفتی منیبُ الرّحمٰن (صدر تنظیم المدارس اہلِ سنّت پاکستان ، مہتمم دارُالعلوم نعیمیہ) ، علامہ محمد صدّیق ہزاروی ، مولانا عبد السّتار سعیدی ، مولانا ضیاء المصطفےٰ قصوری اور مولانا غلام نصیرُالدین نمایاں ہیں۔
اولاد : آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کو اللہ کریم نے چار صاحبزادوں سے نوازا۔ مولانا سعید احمد ، مولانا عبد المصطفٰے ، مولانا حافظ عبد المجتبیٰ اور مولانا حافظ عبد المرتضیٰ حفظہم اللہ ۔
وصال : زندگی کی کم و بیش 70 بہاریں دیکھنے کے بعد 27 جُمادَی الاُخریٰ 1424ھ مطابق 26 اگست 2003ء بروز منگل بعد نمازِ مغرب اچانک حرکتِ قلب بند ہونے کے سبب آپ کا وِصال لاہور میں ہوا۔
نمازِ جنازہ : آپ کی نمازِ جنازہ میں ملک بھر کے ممتاز اور جیّد عُلَمائے کرام و مشائخ عظّام اور ہزاروں کی تعداد میں عوامُ النّاس نے شرکت کی۔
مَزارِ مبارک : علم و حکمت کے اس آفتاب کی آخری آرام گاہ جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ (پنجاب ، پاکستان) میں ہے۔
(مجلّہ النظامیہ ، ستمبر2003ء ، مفتیِ اعظم پاکستان نمبر ، 37 ، 46 ، 57 ، 66 ، 179 ، روشن دریچے ، ص166تا170ملخصاً ، حیات محدث اعظم ، ص364 ، 365 ملخصاً )
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، شعبہ ذمہ دار ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
Comments