آخر درست کیا ہے؟


آواگون اسلام کی نظرمیں ( پانچویں اور آخری قسط)

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ جنوری 2022

مختلف مشاہدات و محسوسات کے اسباب : آواگون قسم کے محسوسات ہوں یا دوسری اقسام کے مشاہدات ، یہ سب انسانی دماغ یا روح کے کارنامے ہوتے ہیں ، جن کی پوری حقیقت ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ اس طرح کی کئی کہانیاں ایک جداگانہ کتاب میں لکھوں گا ، فی الحال اختصار کے پیش نظر یہ عرض کرتا ہوں کہ باطنی مشاہدات یا جنموں کے متعلق مشاہدات میں جو اسباب و وجوہ ہوتے ہیں ، یہ صرف جنموں کے مشاہدات کے متعلق نہیں بلکہ باطنی قوتوں کا بیان ہے جس میں سے بعض کو غلط سمجھنے کی وجہ سے جنم جنم کا عقیدہ یا کچھ اور خیال بنالیا جاتا ہے۔ اس طرح کی چیزوں میں درج ذیل اسباب میں سے کوئی ایک یا زائد ہوتے ہیں :

پہلا سبب : بعض جگہوں پر ڈی جاوو(فرانسیسی اصطلاح) سبب ہوتا ہے۔ ڈی جاوو کہتےہیں : دماغ کے معلومات وصول کرنے کے سگنل میں کسی کمی بیشی کی وجہ سے پیدا ہونے والا ایک واہِمہ یعنی وہم جس سے یہ لگتا ہے کہ جو چیز ہم دیکھ رہے ہیں ، وہ پہلے بھی دیکھ چُکے ہیں حالانکہ حقیقت میں وہ چیز یا جگہ پہلے نہیں  دیکھی ہوتی۔

دوسرا سبب : ایک وجہ یہ ہوتی ہے  کہ عالم مثال کی کچھ چیزیں منکشف ہوجاتی ہیں جنہیں دماغ اپنے اندر جذب کرلیتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ماضی میں حقیقت میں بھی ایسا کچھ ہوچکا ہے حالانکہ وہ محض عالم مثال کی تصویریں ہوتی ہیں جو دماغ میں نقش ہوجاتی ہیں۔

تیسرا سبب : انسان کے ساتھ ایک ہمزادجن ہوتاہے ، بہت سی جگہوں پر اس کی طرف سے شرارت ہوتی ہے اور وہ دماغ میں مختلف اوہام پیدا کردیتا ہے ۔

 چوتھا سبب : روح کے تصرفات بہت دقیق اور مخفی ہیں اور دوسری طرف روح کی حقیقت غیر معلوم ہے اور اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں کو زیادہ علم بھی عطا نہیں فرمایا ، روح کے کن تصرفات سے کیا کیا چیزیں معلوم ہوتی ہیں ، یہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا اور مکاشفات کی اکثر چیزیں محض روح کی قوت اور پروازکی بِنا پر ہوتی ہیں جسے قوتِ حافظہ پوری طرح محفوظ نہیں کرپاتی کیونکہ روح کے اِدراکات بے شمار ہیں جبکہ قوتِ حافظہ اس کے مقابلے میں بہت کم ہے اور جب بڑی شے کے ادراکات کو کسی چھوٹے ظرف (برتن) میں رکھا جاتا ہے تو وہ اسے پوری طرح سمیٹ نہیں پاتا اور بات کچھ کی کچھ ہوجاتی ہے اور اسی طرح کی بعض صورتوں کو قوت ِ حافظہ آواگون سمجھ لیتی ہے۔

پانچواں سبب : بہت سے واقعات میں محض تصور کی طاقت اور تخیل کی کرشمہ سازی ہوتی ہے کہ انسان جیسے محسوس کرتا ہےویسے ہی اسے نظر آنا شروع ہوجاتا ہے جیسے تاریکی میں انسان خوفناک صورتوں کا تصور کرے تو اسے واقعی نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں حالانکہ وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔

چھٹا سبب : کچھ لوگوں کی دماغی حسیات تیز ہوتی ہیں جیسے حدس و فراست و وجدان۔ ان حسیات کی وجہ سے بہت سی چیزیں ان پر ظاہر ہوجاتی ہیں یا ان کے دماغ وہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ دوسروں کی بنسبت زیادہ گہرائی میں چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں لیکن یہ کبھی درست ہوتی ہیں اور کبھی غلط۔

 ساتواں سبب : کچھ لوگ مشقوں کی صورتوں میں اپنی دماغی قوتیں بہت بڑھا لیتے ہیں جیسے ماضی بعید میں اِشراقیین اور موجودہ دور میں سادھو وغیرہ۔ مختلف ریاضتوں اور مشقوں سے ان افرادکے دماغ کے وہ خلیات کام کرنا شروع کردیتے ہیں جو عام حالات میں کام نہیں کرتے اور ایسے لوگ نہایت محیرالعقول خبریں بھی دیتے ہیں اور ظاہراً سمجھ میں نہ آنے والے کام بھی کردکھاتے ہیں لیکن یہ ساری خبریں درست نہیں ہوتیں کہ صلاحیتوں میں کمی بیشی بھی ہوتی ہے ، خارجی عوامل بھی اثر انداز ہوتےہیں اور شیطان کی مداخلت بھی موجود ہوتی ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انسان کے ظاہری حواس کی طرح باطنی حواس بھی ہیں ، ظاہری صلاحیتوں کی طرح باطنی صلاحیتیں بھی ہیں ، ظاہری اسباب کی طرح باطنی اسباب بھی ہیں ، اس کے ساتھ انسانوں کے کاموں میں شیطان کی دخل اندازی بھی ہوتی ہے اورانسان ظاہری ، باطنی حواس اور صلاحیتوں کے استعمال میں غلطیاں بھی کرتا ہے ، اس لئے اس کے غلطی کے امکانات والے عمل یا مشاہدے کو قطعی یقینی ہرگز نہیں سمجھا جاسکتا اور جہاں مقابلے میں قطعی یقینی چیز موجود ہو وہاں تو مشاہدے یا محسوسات کو غلط ماننا ضروری ہے جیسے کوئی معتبر آدمی خبر دے کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا ہے جبکہ جسے یہ خبر دی گئی وہ اپنے والد صاحب کے سامنے بیٹھا ان سے باتیں کررہا ہو ، تو غور کریں کہ آپ معتبر آدمی کے خبر پر یقین کریں گے یا جو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اس پر یقین کریں گے؟ یقینا ًخبر کو غلط سمجھیں گے اور یہی کہیں گے کہ خبردینے والے کو غلط فہمی ہوگی۔ یہی معاملہ فانی مخلوق کے ناقص محسوسات اور علیم و خبیر خالق و مالک کے بتانے کا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شے کی خبر دے اور ساری مخلوق اس کے خلاف بتائے تو ساری مخلوق غلط ہوسکتی ہے لیکن خدا کی دی ہوئی خبر غلط نہیں ہوسکتی۔ یہیں سے تناسخ ، آواگون اور کئی جنموں کے عقیدے کا معاملہ سمجھ لیں کہ بہت سے لوگ اپنے ناقص مکاشفات یا تجربات کی وجہ سے آواگون کا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن خالقِ کائنات نے فرمادیا کہ مرنے کے  بعددوبارہ دنیا میں واپسی نہیں ہوگی ، کسی کو مہلت نہیں ملے گی ، بلکہ صرف قبر و برزخ ہے اور اس کے بعد آخرت کی زندگی ہے جو قیامت کے دن ہوگی ، لوگوں کو حساب کےلئے اٹھایا جائے گا اور اس کے بعد وہ جنت یا جہنم میں جائیں گے۔ لہٰذا جب خدا عزوجل اور اس کے رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یہی عقیدہ ہمیں دیا ہے تو اب اس کے خلاف ہر سوچ ، عقیدہ ، محسوس ، مکاشفہ ، مشاہدہ اور تجربہ باطل و مردود ہے اور تنہا حق صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور سچے عقیدے پر زندگی اور موت عطا فرمائے۔ آمین

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دار الافتاء اہل سنت فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code