رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مَنْ لَّمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهٖ فَلَيْسَ لِلهِ حَاجَةٌ فِيْ اَنْ يَّدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ یعنی جو جھوٹی (بُری) بات کہنا اور اُس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔(بخاری،ج1ص628، حدیث: 1903)
روزه ایک ایسی بدنی عبادت ہے جس کی برکت سے انسان اپنے آپ کو ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں سے بھی بچا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص بظاہر کھانا، پینا تو چھوڑ دے لیکن گناہوں کے کاموں سے اپنے آپ کو نہ بچائے تو وہ روزے کا مقصد حاصل نہیں کرسکتا، اسی لئے فرمایا گیا کہ اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی اللہ پاک کو کوئی حاجت نہیں کہ اس نے حلال چیزوں کو تو ترک کردیا لیکن جو کام (جھوٹ، غیبت، چغلی، نماز قضا کرنا، فلمیں ڈرامے دیکھنا، بدنگاہی کرنا، لوگوں کو دھوکا دینا وغیرہ) حرام تھے ان سے اپنے آپ کو نہ بچایا تو اس کے روزے کا کیا فائدہ؟
شارح بخاری علامہ بدرالدین محمود عینی علیہ رحمۃ اللہ الغنِی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:جو بندہ روزے کی حالت میں بھی جھوٹی بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے جو کہ اکبر الکبائر (بڑے کبیرہ گناہوں) میں سے ہے، اسے سوچنا چاہئے کہ وہ اپنے روزے کے ساتھ کیا کررہا ہے؟ (عمدۃ القاری ،ج 8ص34 ، تحت الحدیث :1903ملخصاً) حضرت علامہ ابنِ بطال رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو گناہوں سے نہ بچا سکے وہ روزہ ہی نہ رکھے بلکہ مقصد یہ ہے اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے۔(شرح بخاری لابن بطال،ج4ص23، تحت الحدیث:1903) حضرت علامہ ابنِ رجب حنبلی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:اس میں راز یہ ہےکہ مباح چیزوں یعنی کھانے پینے اور صحبت سے پرہیز کرنے سے بارگاہِ الٰہی میں مقامِ قرب اسی وقت ہی مل پاتا ہے جب کہ حرام کردہ چیزوں سے بھی بچا جائے لہٰذا جو بھی حرام کام کرے اور مباح چیزوں کو چھوڑ کر اللہ پاک کا قرب پانے کی کوشش کرے وہ ایسا ہی ہے جو فرض کو چھوڑ کر نوافل کے ذریعے اللہ کا قرب پانے کی کوشش کرے۔(لطائف المعارف، ص179 ) حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں: یہاں جھوٹی بات سے مراد ہر ناجائز گفتگو ہے، جھوٹ، بہتان، غیبت، چغلی، تہمت، گالی، لعن طعن وغیرہ جن سے بچنا فرض ہے اور بُرے کام سے مُراد ہر ناجائز کام ہے آنکھ کان کا ہو، یا ہاتھ پاؤں وغیرہ کا، چونکہ زبان کے گناہ دیگر اعضاء کے گناہوں سے زیادہ ہیں، اس لئے ان کا علیحدہ ذکر فرمایا، یہ حدیث بہت جامع ہے۔ دو جملہ میں ساری چیزیں بیان فرمادیں اگرچہ بُرے کام ہر حالت میں اور ہمیشہ ہی بُرے ہیں مگر روزے کی حالت میں زیادہ بُرے کہ ان کے کرنے میں روزے کی بے حرمتی اور ماہِ رمضان کی بے ادبی ہے، اس لئے خصوصیت سے روزے کا ذکر فرمایا، ہر جگہ ایک گناہ کا عذاب ایک، مگر مکہ مکرمہ میں ایک گناہ کا عذاب ایک لاکھ ہے، کیوں؟ اس زمین پاک کی بے ادبی کی وجہ سے۔
مزید فرماتے ہیں:یہاں’’ حاجت‘‘ بمعنی ’’ضرورت‘‘ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ضرورتوں سے پاک ہے بلکہ بمعنی توجہ، التفات پرواہ یعنی اللہتعالیٰ ایسے شخص کا روزہ قبول نہیں فرماتا قبول نہ ہونے سے روزہ گویا فاقہ بن جاتا ہے۔اس میں اشارۃً فرمایا گیا کہ یہ روزہ شرعًا تو درست ہوجائے گا کہ فرض ادا ہوجائے گا مگر قبول نہ ہوگا شرائطِ جواز تو صرف نیت ہے اور کھانا پینا،صحبت چھوڑدینا، مگر شرائط قبول میں باتیں چھوڑنا ہے جو روزہ کا اصل مقصود ہے۔ روزے کا منشاء نفس کا زور توڑنا ہے جس کا انجام گناہ چھوڑنا ہے، جب روزے میں گناہ نہ چھوٹے تو معلوم ہوا نفس نہ مرا۔ صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ روزہ ہر عضو کا ہونا چاہئے، صرف حلال چیزوں یعنی کھانے پینے کو نہ چھوڑو بلکہ حرام چیزوں یعنی جھوٹ و غیبت کو بھی چھوڑو۔مرقات نے فرمایا کہ ایسے بے باک روزے دارکو اصل روزہ کا ثواب ملے گا اور ان چیزوں کا گناہ۔(مراٰۃ المناجیح،ج3ص159،158)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… دار الافتاء اہلِ سنّت،اقصیٰ مسجد، باب المدینہ کراچی
Comments