اشعار کی صورت میں اللہ کے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدح سرائی نہایت عُمدہ عِبادت اورایک عظیم سعادت ہے لیکن اس کے تقاضوں کو نبھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔جہاں رَدِیف اور قافیے کی پابندیاں نبھانے اور وزنِ شعری کی دُرُستی کے لئے شعر گوئی کے علم سے واقفیت ضَروری ہے وہیں اشعار کو شَرْعی اَغلاط سے محفوظ رکھنے کے لئے کثیر علمِ دین بھی درکار ہے۔
نعت شریف لکھنے کی احتیاطیں اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:حقیقۃً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے جس کو لو گ آسان سمجھتے ہیں، اِس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے، اگر بڑھتا ہے تو اُلوہیت میں پہنچا جاتا ہےاورکمی کرتا ہے توتنقیص (یعنی شان میں کمی یا گستاخی) ہوتی ہے۔ البتّہ حمد آسان ہے کہ اِس میں راستہ صاف ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے۔ غرض حمدمیں ایک جانب اَصْلاًحدنہیں اورنعت شریف میں دونوں جانب سخت حدبندی ہے۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص227)
اعلیٰ حضرت کن کا کلام سنتے تھے؟امامِ اہل ِسنّت فرماتے ہیں: سوا دو (شعرا)کے کلام کے کسی کاکلام میں قصداً (یعنی ارادۃً اپنی خواہش سے ) نہیں سنتا، مولانا کافی اورحسن میاں مرحوم کا کلام اوّل سے آخر تک شریعت کے دائرہ میں ہے۔حسن میاں مرحوم کو میں نے نعت گوئی کے اُصول بتادیئے تھے، اُن کی طبیعت میں ان کا ایسا رنگ رچا کہ ہمیشہ کلام اسی معیارِ اِعتِدال پر صادِر ہوتا۔ جہاں شُبہ ہوتا مجھ سے دریافت کر لیتے۔حسن میاں مرحوم نے ایک مقطع میں اس کی طرف اشارہ کیاکہ ؎
بھلا ہے حسنؔ کا جنابِِ رضا سے بھلا ہو الٰہی جنابِِ رضا کا
غرض ہند ی نعت گویوں میں اِن دو کا کلام ایسا ہے، باقی اکثر دیکھا گیا کہ قدم ڈگمگاجاتا ہے۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص225 ملتقطاً)
شہنشاہِ سخناعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰنکے بھائی مولاناحسن رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن اپنے دورکےممتازعالمِ دین، صاحبِ طرز ادیب اور قادرُ الکلام شاعر تھے، فنِ شعری میں مشہور شاعر مرزا داغ دہلوی آپ کے استاد تھے جیسا کہ آپ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں:
کیوں نہ ہو میرے سُخن میں لذّتِ سوز و گُداز
اے حَسن شاگرد ہوں میں داغ سے اُستاد کا
آپ کا نعتیہ دیوان”ذوقِ نعت“ اگر ایک طرف فنِ شاعری اور فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ شاہکار ہے تو دوسری طرف عظمتِ رسول کاامین اورشریعت و طریقت کا پاسدار ہے۔فنِ شاعری کے اعتِبار سے آپ کا کلام اتنے بلند پائے کا ہے کہ آپ کو استادِ زمن اور شَہنشاہِ سخن کے القابات سے نوازا گیا۔
فی البدیہہ کلام لکھ دیا مولانا حسن رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کی قادرُالکلامی کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ایک صاحب نے حاضرِ خدمت ہوکر عرض کیا:میں نعتیہ رسالہ جاری کرنے والا ہوں، پہلی طرح([1]) ہو گی’’محوِ دیدار ِمحمد دل ہمارا ہو گیا‘‘ اس پر ایک نعتیہ غزل تحریرفرمادیجئے۔آپ نے فورًا قلم برداشتہ (بے ساختہ) ایک غزل لکھ دی جس کے چند اشعار درج ہیں:
مُعطیٔ مطلب تمہارا ہر اشارہ ہوگیا جب اشارہ ہوگیا مطلب ہمارا ہوگیا
ڈوبتوں کا یانبی کہتے ہی بیڑا پار تھا غم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہوگیا
نام تیرا ذکر تیرا تُو ترا پیارا خیال ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہوگیا
(اخبار ”اہلِ فقہ“،شمارہ بابت20جولائی1909ء)
کلامِ رضا کی پیروی مولانا حسن رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کے نعتیہ دیوان’’ ذوقِ نعت ‘‘ میں کم از کم چار کلام ایسے ہیں جو امامِ اہلِ سنت کے کلام کی زمین پر کہے گئے ہیں یعنی دونوں کلاموں کا ردیف اور قافیہ ایک جیسا ہے۔ذیل میں ہر نمبر کے تحت پہلا شعر امامِ اہلِ سنّت کا جبکہ دوسرا استادِ زمن کا ہے:
(1)واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا نہیں سنتاہی نہیں مانگنے والا تیرا
جن و انس و مَلَک کو ہے بھروسا سرورا مرجعِ کل ہے در ِوالا تیرا
(2)غم ہوگئے بے شمار آقا دشمن ہے گلے کا ہارآقا
بندہ تیرے نثار آقا لٹتی ہے مری بہار آقا
(3)محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کا
نظر آتا ہے اس کثرت میں کچھ انداز و حدت کا
کہوں کیا حال زاہد گلشنِ طیبہ کی نزہت کا
کہ ہے خُلد بریں چھوٹا سا ٹکڑا میری جنت کا
(4)اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے
دل ِبیکس کا اس آفت میں آقا تو ہی والی ہے
مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد ان کا سوالی ہے
لبوں پر التجا ہے ہاتھ میں روضے کی جالی ہے
وصال:برادرِ اعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰننے 22رمضان المبارک 1326ھ کو وصال فرمایا،مزار مبارک بریلی شریف(یوپی، ہند) میں ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
[1] ۔۔ وہ مصرع جو مُشَاعَرے وغیرہ میں وزن اور قافیہ ردیف مقرر کرنے کے لئے نمونے کے طور پر دیا جاتا ہے اور سب شرکائے مشاعرہ اسی کے مطابق اشعار کہتے ہیں۔
Comments