حضرتِ سیّدنا ابوطَیِّب طاہر طَبَری شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی 100سال سے زائد عمر میں بھی ذہنی و جسمانی لحاظ سے تَنْدُرست اور توانا تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے کسی نے صحت کا راز پوچھا تو ارشاد فرمایا:میں نے جوانی میں اپنی جسمانی صلاحیتوں کو گُناہ سے محفوظ رکھا اور آج جب میں بوڑھا ہوگیا ہوں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں میرے لئے باقی رکھا ہے۔(مجموعہ رسائل ابن رجب، نورالاقتباس،ج3ص100ملخصاً)
بچپن، جوانی اور بُڑھاپا انسان کی زندگی کے تین حصّے ہیں، ابتِدائی زمانے کو بچپن، آخری دَور کو بڑھاپا جبکہ ان کی درمیانی مُدَّت کو جوانی کہا جاتا ہے۔ بچپن میں بدن کا گوشت اور ہڈیاں مضبوطی کی طرف بڑھتی ہیں اور آٹھ دس سال کا عرصہ چلنا، بولنا، کھانا ،پڑھنا وغیرہ سیکھنے اور کھیل کُود میں گزر جاتا ہے اور بڑھاپے میں بدن کمزور ہونے لگتا ہے، یوں اس کا کچھ حصّہ بیماریوں میں گزر جاتا ہے اور باقی حصّہ لڑکھڑا کرچلنے، کانپتی آواز میں بولنے، اونچا سننے، دُھندلا دیکھنے اور دوسروں کی بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے گزرتا ہے، بڑھاپا طویل ہو یا مختصر موت پر ختم ہوجاتا ہے۔رہی جوانی !تو اس میں بدن کی طاقت عُروج پر ہوتی ہے، اُمنگیں جوان ہوتی ہیں اورجذبے پُرجوش ہوتے ہیں۔دوقسم کے نوجوان اس جوانی کو گزارنے والے نوجوان دو طرح کے ہوتے ہیں:(1)جو اپنی جوانی کی توانائی (Energy) کو آخِرت کی کامیابی کیلئے خرچ کرتے ہیں، چنانچہ وہ فرائض و واجبات کے پابند، نیکیاں کمانے کے شائق اور گناہوں سے بچنے والے ہوتے ہیں۔ اگر کبھی نفس و شیطان کے بہکانے سے گناہوں میں مبتلا ہو بھی جائیں تو جلد ہی توبہ کرکے جنت میں لے جانے والے راستے پر چلنے لگتے ہیں،ایسے نوجوانوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ (2)دوسری قسم ان نوجوانوں کی ہے جن کی نظروں میں دنیا ہی سب کچھ ہے، جہانِ آخِرت کی آبادی یا بربادی کی انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی، ان کے نزدیک ”جوانی دیوانی اور مستانی ہوتی ہے“، چنانچہ انٹرٹینمنٹ (Entertainment)کے نام پر فلمیں ڈرامے دیکھنا، میوزک سننا، اُلٹے سیدھے کھیل کھیلنا، ناچنا گانا، عشق ومَحَبَّت کے نام پرصنفِ مخالف کو ورغلا کر عِصْمتیں برباد کرنا اور سوشل میڈیا پر طرح طرح کی گھٹیا حرکتیں کرنا ایسوں کا معمول ہوتا ہے! مارکُٹائی، چوری چکاری، شراب خوری، جُوابازی، بدنگاہی، بدکاری میں انہیں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی، ان کا اندازِ زندگی زبانِ حال سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری زندگی میری مرضی، میں جو چاہوں کھاؤں، جو چاہوں پہنوں، جو چاہوں بولوں، جو چاہوں دیکھوں، جو چاہوں سنوں، جہاں چاہوں جاؤں، جس کے پاس چاہوں بیٹھوں، جو چاہوں پڑھوں! اسی لئے وہ اپنی جوانی کی قوت و طاقت کو رب پاک کی نافرمانیوں میں صَرف کرتے ہیں۔
دن لَہْو میں کھونا تجھے، شب صبح تک سونا تجھے
شرمِ نبی خوفِ خدا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
رزقِ خدا کھایا کِیا، فرمانِ حق ٹالا کِیا
شکرِ کرم ترسِ سزا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
(حدائق بخشش،ص111)
جوانی کن کاموں میں گزاری؟ میرے نوجوان اسلامی بھائیو! میدانِ محشر میں کتابِِ زندگی ہمارے سامنے کُھلے گی اور ہمیں اپنے ہر فعل(کام) کاحساب دینا ہوگا، قیامت کے دن ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ جوانی کن کاموں میں صرف کی۔(ترمذی،ج4ص188، حدیث:2424 ماخوذاً)
جوانی میں ”نہ کرنے کے کام“ کرنے والے سوچیں کہ وہ کس منہ سے جوانی کی بُری کارکردگی اپنے پاک رب کی بارگاہ میں بیان کریں گے! اس وقت شرمندگی اور حسرت کا کیا عالَم ہوگا! رب تعالیٰ کی ناراضگی داخل ِجہنَّم کروا دے گی اور اس کی رِضا جنت میں پہنچا دے گی۔ رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا راستہ جنّت کی طرف جبکہ نفس وشیطان کا راستہ جہنم میں جاتا ہے ، عقل مندی یہی ہے کہ جنتی راستے کا انتخاب کیا جائے!ابھی زندگی باقی ہے ہوش میں آئیے اور اپنے گناہوں سے ابھی توبہ کرلیجئے۔ خبردار !کہیں شیطان آپ کا یہ ذہن نہ بنا دے کہ ابھی عمر پڑی ہے،جوانی کے مزے لُوٹ لو بڑھاپے میں توبہ کرلینا،کیونکہ موت کسی وقت بھی آسکتی ہے، چاہے بچپن ہویا جوانی! دنیا کے کسی قبرستان (Graveyard) کے باہر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہ جگہ صرف بوڑھوں کے لئے مخصوص ہے۔
سچی توبہ کرنے والا نوجوان ایک نوجوان کسی بزرگ کے بیان میں شرکت کیا کرتا تھا۔ جب وہ بزرگ ”یَا سَتّار“ کہتے تو نوجوان پَر سُرور کی عجیب کیفیت طاری ہوجاتی اور وہ کمزور شاخ کی طرح ہلنے لگتا، لوگوں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ میں عورَتوں کا لباس پہن کر شادی وغیرہ کی محافل میں جایا کرتا تھا اور عورتوں میں گھل مل کر بیٹھتا تھا۔ ایک بار ایک شہزادی کی شادی کے موقع پر بھی میں نے ایسا ہی کیا، اس دن بادشاہ کی بیٹی کا ہار گم ہوگیا،تمام دروازے بند کردئیے گئے اور اعلان ہوا کہ باری باری سب عورتوں کی تلاشی لی جائے گی۔ تلاشی شروع ہوئی یہاں تک کہ ایک عورت اور میں باقی رہ گئے، اس وقت میں نے سچے دل سے مولائے کریم کی بارگاہ میں توبہ کی اور نیت کی کہ اگر آج رُسوائی سے بچ گیا تو پھر کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ جب اس عورت کی تلاشی لی گئی تو ہار برآمد ہوگیا اور میں تلاشی سے بچ گیا۔ اس دن کے بعد جب بھی میں اللہ کا اسمِ پاک ”ستّار(یعنی پردہ پوشی کرنے والا)“سنتا ہوں تومجھے اپنا جرم اور اس پاک رب کی ستّاری یاد آجاتی ہے اورمجھ پر وہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے جو تم دیکھتے ہو۔(روض الریاحین ،ص303)
میرے نوجوان اسلامی بھائیو! بڑھاپے سے پہلے جوانی کو غنیمت جانئے اور سچّی توبہ کے بعد اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مصروف ہوجائیے، فَرْض نَمازیں پڑھئے، رَمَضان کے روزے رکھئے، فرض ہوجائے تو زکوٰۃ دیجئے، حج کیجئے، کھانے پینے، سونے جاگنے وغیرہ کی سنّتوں پر عمل کیجئے، مختلف نیک کام کرکے ثواب کمائیے، گناہوں سے رُک جائیے، آپ کی جوانی میں حقیقی رونق آجائے گی، آخرت میں عرش کا سایہ نصیب ہوگا، اپنے خالق و مالک عَزَّوَجَلَّ کی مَحبت نصیب ہوگی، فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:اللہ عَزَّوَجَلَّ اس نوجوان سے مَحبت فرماتا ہے جو اپنی جوانی کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی فرمانبرداری میں گزاردے۔(حلیۃ الاولیاء،ج5ص394،رقم: 7496) جوانی میں انسان کے اَعضا مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے زیادہ عبادت کرنا ممکن ہوتاہےجبکہ بُڑھاپے میں کمزوری کی وجہ سے مسجد تک جانا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ بھوک پیاس کی شدّت کوبرداشْت کرنے کی ہِمّت بھی نہیں رہتی، نفْل تو کُجا فرْض روزہ بھی پورا کرنا بھاری پڑجاتا ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن اَسباط شیبانیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرمایا کرتے تھے:اے نوجوانو!بیماری سے پہلے صحت میں جلدی کرو، میں صرف اس شخص پر رَشک کرتا ہوں جو رُکوع وسُجود کو پورا کرتا ہے جبکہ میرے اور سجدے کے درمیان رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔ (احیاء العلوم،ج1ص204)
رِیاضَت کے یہی دن ہیں، بُڑھاپے میں کہاں ہمّت
جو کچھ کرنا ہو اَب کر لو، ابھی نُوریؔ جَواں تم ہو
(سامان بخشش، ص 104)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مُدَرِّس مرکزی جامعۃ المدینہ، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments