(1)معذور کا تَیَمُّم کرنا اور بعدِ صحت ان نمازوں کا اِعادہ کرنا
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی غریب شخص مَعْذور ہو اس کے دونوں گُھٹنے ٹوٹے ہوں جس کے سبب وہ چل نہ سکتاہو، وہ پانی تک خود بھی نہ جا سکتا ہو اور کوئی شخص اس کو وضو کرانے والا نہ ہو، نہ ہی پانی دینے والا ہو اور نہ ہی پانی خریدنے کی وہ طاقت رکھتا ہو، الغرض اس کو پانی تک کسی طرح قدرت نہ ہوتوکیا وہ نماز کے وقت تَیَمُّم کر سکتا ہے؟ نیز جب ایسا عذر والا شخص تندرست ہوجائے تو کیا اس کے لئے ان نمازوں کا جو تَیَمُّم کے ساتھ ادا کی گئیں ان کااِعادہ کرنا ضروری ہوگا ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صورتِ مسئولہ(یعنی پوچھی گئی صورت) میں ایسے معذورشخص کو تَیَمُّم کرکے نماز ادا کرنے کی اجازت ہے اور تَیَمُّم کے ساتھ ادا کی گئی نمازوں کا بعد میں اِعادہ(یعنی لَوٹانا) بھی نہیں کہ شریعتِ مطہرہ کے قوانین کی رُو سے اگر کوئی شخص ایسا مَعْذور ہو جو پانی تک نہ جاسکتا ہو اور اس کے پاس کوئی ایسا شخص نہ ہو جو اس کوپانی لا کر دے نہ خدمتاً نہ حکماً نہ اُجرتاً یا اُجرت پر لانے والا ہو اور وہ اتنی اُجرت دینے پرقادر نہ ہو یا اُجرت دینے پر قادر ہے لیکن وہ مزدور اُجرتِ مثل([1]) سے زیادہ طلب کرتاہے تو ایسے شخص کو شرعاً تَیَمُّم کرکے نماز ادا کرنے کی اجازت ہوتی ہے اوراِعادہ(یعنی نماز لوٹانا) بھی لازم نہیں ہوتا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
محمد ہاشم خان العطاری المدنی
(2) غلطی سے وقت سے پہلے افطار کرنے کا حکم
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے روزہ رکھا لیکن افطار کا وقت کیلنڈر سے دیکھنے میں غلطی ہوگئی جس کی وجہ سے ایک منٹ پہلے ہی روزہ کھول لیا تو اس کا روزہ ہوگیا یا نہیں؟ اور اب اسے کیا کرنا چاہئے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں ایک منٹ پہلے روزہ کھولنے والے کا روزہ نہ ہوا، اُس پر اس روزے کی قضا لازم ہے ،البتہ کفارہ نہیں۔لہٰذا اب اسے چاہیے کہ قضاء کی نیت سے ایک روزہ رکھ لے جیساکہ صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:’’ کافر تھا مسلمان ہوگیا، نابالغ تھا بالغ ہوگیا، رات سمجھ کر سحری کھائی تھی حالانکہ صبح ہوچکی تھی، غروب سمجھ کر افطارکردیا حالانکہ دن باقی تھا ان سب باتوں میں جو کچھ دن باقی رہ گیا ہے، اُسے روزے کی مثل گزارنا واجب ہے اور نابالغ جو بالغ ہوا یا کافر تھا مسلمان ہوا اُن پر اس دن کی قضا واجب نہیں باقی سب پر قضا واجب ہے۔“(بہارِ شریعت،ج1ص990)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
ابومحمد علی اصغر العطاری المدنی
(3)روزہ ٹوٹنے کے گُمان پر کھا پی لیا تو کیا کریں ؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی شخص کو خود بخود اُلٹی آئی اور اس نے یہ سمجھا کہ روزہ اب ٹوٹ گیا ہے تو اس نے کچھ کھانا، پینا شروع کردیا ۔سوال یہ ہے کہ ایسے شخص پر قضا لازم ہے یا پھر کفارہ بھی ہوگا؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں صرف قضا لازم ہے کفارہ نہیں۔ البتہ جب الٹی کے بعد جان بوجھ کر کھانا کھا کر اس نے روزہ توڑ بھی لیا تھا تب بھی اس کے بعد کھانے پینے کی شرعا اجازت نہ تھی کیونکہ روزہ اگر کسی غلطی کے پیشِ نظر ٹوٹ بھی جائے تو پھر بھی رمضان المبارک کے تقدس کی وجہ سے اسے کھانے پینے کی اجازت نہیں بلکہ لازم ہے کہ روزے داروں کی طرح رہے لہٰذا اس گناہ سے توبہ بھی کرے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیْب مُصَدِّق
ابوحذیفہ محمد شفیق عطاری ابوالصالح محمد قاسم عطاری
(4)حالتِ روزہ میں غلطی سے پانی حلق میں اتر جائے
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگروضو کرتے ہوئے غلطی سے پانی حلق میں اتر جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
روزہ یاد ہونے کی صورت میں کلی کرتے ہوئے اگر غلطی سے پانی حلق سے نیچے اتر جائے تو اس صورت میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی قضا بھی لازم ہوگی ،اور اگر کسی کو روزہ یاد ہی نہ ہو تو پھر نہیں ٹوٹے گا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیْب مُصَدِّق
ابوحذیفہ محمد شفیق عطاری ابوالصالح محمد قاسم عطاری
(5)ایڈوانس زکوۃ نکالنے کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایڈوانس زکوۃ نکالتے ہوئے غلطی سے زیادہ ادا ہوگئی تو جو ایڈوانس زیادہ ادا ہوگئی تھی تو وہ آئندہ سال کے لئے کہ جو ابھی شروع بھی نہیں ہوا اس کے لئے شمار ہوگی یا نہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ نے جو غلطی سے زیادہ زکوٰۃ نکال دی تھی وہ آئندہ سال کے لئے شمار کر سکتے ہیں کیونکہ مالک ِ نصاب کے لئے آنے والے سالوں کی زکوۃ پہلے سے ہی ادا کر دینا جائز ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیْب مُصَدِّق
ابوحذیفہ محمد شفیق عطاری ابوالصالح محمد قاسم عطاری
[1] ۔۔۔اجرت مثل کے بارے میں جاننے کےلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارشریعت ،جلد 3، صفحہ 15 پڑھئے
Comments