دونوں میں کتنا فرق ہے! بخاری شریف میں حضرتِ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے:مؤمِن اپنے گناہوں کو اس انداز سے دیکھ رہا ہوتا ہے گویا کہ وہ کسی پہاڑ (Mountain) تلے بیٹھا ہے اور اسے ڈر ہے کہ کہیں یہ پہاڑ اِس کے اوپر نہ آ گرے جبکہ فاسق و فاجِر کے نزدیک گناہوں کا مُعامَلہ ایسا ہے گویا کوئی مکّھی اس کی ناک پر بیٹھی اور اس نے ہاتھ کے اِشارے سے اُڑا دی۔(بخاری،ج4ص190، حدیث: 3608) حکیم الامّت حضرتِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں:مؤمن کی پہچان یہ ہے کہ وہ گناہِ صغیرہ کو بھی ہلکا نہیں جانتا، وہ سمجھتا ہے کہ چھوٹی چنگاری بھی گھر جلاسکتی ہے، اس لئے وہ ان کے کرلینے پر بھی جرأت نہیں کرتا اور اگر ہوجائیں تو فورًا توبہ کرلیتا ہے، گناہوں سے خوف کمالِ ایمان کی علامت ہے۔ مزید فرماتے ہیں: (بدکار شخص) چھوٹے کیا، بڑے گناہوں کو بھی ہلکا جانتا ہے،کہتا ہے کہ میں نے گناہ کرلیا تو کیا ہوا! ربّ غفور رحیم ہے، بخش دے گا۔ یہ خیال ”اُمید“ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے ”بے خوفی“ ہے جو کفر تک پہنچا دیتی ہے، انسان پہلے چھوٹے گناہ کو ہلکا جانتا ہے، پھر بڑے گناہوں کو، پھرکفروشرک کو بھی معمولی چیز سمجھنے لگتا ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج3ص375)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! گناہ پہلے بھی ہوتے تھے لیکن کرنے والے بعد میں پچھتاتے اور اپنے گناہ کو چھپاتے تھے اور سمجھانے پر توبہ بھی کرلیا کرتے تھے، پھر زمانے نے رنگ بدلا اور اب ہمارے معاشرے میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو گناہوں میں ایسے بے باک (Bold) ہوچکے ہیں کہ اب انہیں گناہ کرتے وقت کوئی جھجھک ہوتی ہے اور نہ کرنے کے بعد کوئی شرمندگی! افسوس! آج نماز نہ پڑھنا، رمضان کے روزے چھوڑ دینا، سُود و رشوت کا لین دین، زمینوں پر قبضہ، گلی کوچوں میں موبائل و رقم چھیننا، گالیاں بَکنا،جُوا کھیلنا، ناجائز بچوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کرکے ان کی لاش کچرے کے ڈھیر پر پھینک دینا، بچیوں سے زیادتی کرنے کے بعد انہیں قتل کر دینا یا جلا دینا، اپنے عاشقِ نامراد کو پانے کے لئے سگی اولاد کو قتل کردینا، گندی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرنا، کسی کے چہرے پر تیزاب پھینکنا، قرض دبانا اور اس جیسے سینکڑوں گناہ بے باکی سے کئے جارہے ہیں۔ جب ان گناہوں میں مبتلا ہونے والوں کو سمجھایا جائے تو کچھ منہ پھٹ قسم کے لوگ اس طرح کے جوابات بھی دیتے ہیں: ٭تم اپنا راستہ ناپو ٭ہمیں نہ روکو ٭ہم کسی کے باپ سے نہیں ڈرتے ٭ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا! وغیرہ وغیرہ۔ ذرا سوچئے! جب کوئی اپنی غلطی تسلیم ہی نہیں کرے گا وہ آئندہ اس سے بچے گا کس طرح! کیسے گناہوں پر شرمندہ ہوکر توبہ کرے گا! اس سے بھی تشویش ناک بات یہ ہے کہ کچھ لوگ اتنے بے باک اور سرکش ہوتے ہیں کہ دوسروں کو بھی گناہوں کی ترغیب دیتے ہیں اور اگر کوئی دوسروں کو نیکی کی دعوت دے کر گناہوں سے باز رہنے کا کہے تو یہ اس سے لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں۔گناہ سے بڑا گناہ حضرتِ سیِّدُنا ابن عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما اِرشاد فرماتے ہیں: اے گناہ کرنے والے! تو بُرے خاتمے سے بے خوف نہ ہو اور جب تو کوئی گناہ کر لے تو اس کے بعد اس سے بڑا گناہ نہ کر! تیرا دائیں، بائیں جانب کے فرشتوں سے حیا میں کمی کرنا اس گناہ سے بڑا گناہہے جو تو نے کیا! اورتیرا گناہ کرلینے پر خوش ہونا اس سے بھی بڑا گناہ ہے حالانکہ تُو نہیں جانتا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تیرے ساتھ کیا سُلوک فرمانے والا ہے!(تاریخ ابن عساکِر،ج10ص60ملخصاً) دل کالا ہو جاتا ہے گناہوں کے عادیوں کو خبر دار کرتے ہوئے حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمدبن محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوَالی نَقل فرماتے ہیں: بیشک گناہ کرنے سے دل کالا ہو جاتا ہے، اور دل کی سیاہی کی علامت وپہچان یہ ہے کہ گناہوں سے گھبراہٹ نہیں ہوتی، اِطاعت کی سعادت نہیں ملتی اور نصیحت اثر نہیں کرتی۔ تم کسی بھی گناہ کو معمولی مت سمجھو اور کبیرہ گناہوں پر اِصرار(یعنی مسلسل) کرنے کے باوُجُود اپنے آپ کو توبہ کرنے والاگمان نہ کرو۔ (منھاج العابدین، ص 24)گناہوں میں بے باک ہونے کی وجوہات (1)علمِ دین کی کمی بھی بے باکی کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ جو مسلمان علم رکھتا ہوگا کہ یہ کام گناہ ہے اور اس کی سزا یہ ہے، وہ اس سے بچنے کی کوشش بھی کرے گا (2)بُری صحبت بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے، گالیاں بکنے والوں میں بیٹھنے والا گالیاں نہیں بکے گا تو اور کیا کرے گا! (3)حیا باقی نہ رہنا بھی ایک سبب ہے کیونکہ ہمارے سچے نبیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بہت پہلے فرما دیا کہ جب تجھ میں حیانہیں رہے تو جو چاہے کر۔
(بخاری،ج2ص470، حدیث:3484) (4)گناہ کرنے میں آسانی (Easiness) بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے (5)فوری گرفت نہ ہونا بھی گناہوں پر دلیر ہونے کی ایک وجہ ہے (6)انسان کا نفس اسے سزاؤں کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیتا، یوں وہ گناہوں پر جراء ت مند ہوجاتا ہے (7)گئے وقتوں میں سوشل سسٹم (معاشرتی نظام) بھی انسان کو برائیوں سے باز رکھتا تھا، گھر میں ماں باپ، چچا، تایا بھی تربیت کرتے تھے اور باہر گلی محلے میں بڑی عمر کے سمجھدار لوگ بھی نوجوانوں کو برائیوں میں مبتلا دیکھ کر سمجھا دیا کرتے تھے، اب وہ سوشل سسٹم بھی تقریباً ٹوٹ چکا، نوجوان اب ماں باپ کی نہیں سنتے باہر والوں کی کہاں سنیں گے! (8)میڈیا وسوشل میڈیا کا کردار سب سے خطرناک ہے، اس پر دکھائی جانے والی فلموں ڈراموں کی کہانیوں، ٹاک شوز (Talk Shows) اور طرح طرح کے اشتہاروں کے انداز نے جو اسلامی معاشرے کے دامن پر جو بجلیاں گرائی ہیں، اٹھتا ہوا دھواں اس کا گواہ ہے۔کیا ہم برداشت کرسکتے ہیں؟ آج گناہوں میں بڑا مزہ آتا ہے، بڑی لذت (Enjoyment)محسوس ہوتی ہے مگر سب نقلی اور جعلی ہے، زندگی کاحقیقی لطف(Pleasure) تونیکیوں میں ہے جبکہ گناہوں کا انجام جہنم ہے اور جہنم کے عذابات ایسے ہولناک ہیں جنہیں برداشت کرنے کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ٭جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے 70 گُنا تیز ہے ٭اگر جہنم کو سوئی کے ناکے کے برابر کھول دیا جائے تو تمام اہلِ زمین اس کی گرمی سے مر جائیں ٭اگر جہنمیوں کو باندھنے والی ایک زنجیر کی ایک کَڑی دنیا کے کسی پہاڑ پر رکھ دی جائے تو وہ پگھل جائے٭جہنم میں اُونٹ کے برابر سانپ ہیں، ان میں سے اگر کوئی سانپ کسی کو کاٹ لے تو چالیس سال تک اس کا درد محسوس ہوتا رہے گا ٭اس میں خچر کے برابر بچھو ہیں جو ایک مرتبہ کاٹ لیں تو چالیس برس تک تکلیف محسوس ہوتی رہے ٭جہنم کا ہلکاترین عذاب یہ ہے کہ انسان کو آگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی، جس سے اس کا دماغ ہانڈی کی طرح کھولنے لگے گا۔
گرتُو ناراض ہوا تو میری ہلاکت ہوگی
ہائے میں نارِ جہنم میں جلوں گا یارب
ابھی بھی وقت ہے گناہوں میں سرکشی اور بے باکی کی وجہ سےسابقہ قوموں مثلاً قومِ لوط، قومِ عاد، قومِ نوح اور قومِ صالح پر دنیا ہی میں اللہ کا قہر نازِل ہوا اور وہ رہتی دنیا تک داستانِ عبرت بن گئے۔ہمیں اللہ پاک کے عذاب سے ڈرنا چاہئے، دنیا میں چاہے ہمیں کوئی کچھ نہ کہے، نافرمانیوں کا رزلٹ مرنے کے بعد پتا چلے گا لیکن اس وقت بڑی دیر ہوچکی ہوگی، ابھی ہم زندہ ہیں نہ جانے کس دن کتنے بجے ہمیں موت آجائے! زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانئے اورگناہوں سے رُک جائیے، اپنے رب پاک کی بارگاہ میں سچی توبہ کرلیجئے اور نیکیاں کمانے میں مصروف ہوکر اپنی دنیاوآخرت دونوں سنوار لیجئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدیر(Chief Editor) ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments